زرمبادلہ کے ذخائر

ایم آئی خلیل  ہفتہ 29 نومبر 2014

ان دنوں زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک ہیں۔ آئی ایم ایف سے اس بات کا وعدہ کرلیا گیا تھا کہ دسمبر 2014 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے گا۔ جب کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کا قرض بھی وصول ہونے والا ہے۔ حکومت نے اپنے طور پر زرمبادلہ کے حصول کے لیے سکوک بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا۔ ماہ نومبر کے وسط میں وزیراعظم پاکستان نے دورہ برطانیہ کے دوران سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ جس میں برطانیہ کے بڑے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت کی۔

کئی دنوں کے بعد جب سکوک بانڈز کے اجرا کا اعلان کیا گیا تو اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ 50 کروڑ ڈالرز کے بانڈز عالمی مارکیٹ میں پیش کرے گی لیکن عالمی سرمایہ کاروں کی طرف سے 2ارب 30 کروڑ ڈالرز کے بانڈز کے لیے دلچسپی ظاہر کردی گئی جسے دیکھتے ہوئے حکومت نے ایک ارب ڈالرز کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔

ان بانڈز کی خریداری میں دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے حصہ لیا ہے۔بانڈز کی عالمی مارکیٹ میں بتایا جاتا ہے کہ 9 سال کے بعد پاکستان کی واپسی اس طرح ہوئی کہ جتنے کے بانڈز فروخت کرنا چاہ رہی تھی حکومت کو اس کے مقابلے میں 5 گنا زائد کی پیش کش ہوئی ہے۔ اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باعث روپیہ پر دباؤ میں کمی واقع ہوگی۔ نیز ان قرضوں کو اگر درست طریقے سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرلیا گیا تو سود کی ادائیگی میں بھی 5 ارب روپے کی کمی واقع ہوجائے گی۔

اس طرح حکومت کے اوپر مالیاتی دباؤ میں بھی خفیف سی کمی محسوس کی جائے گی۔ اپریل 2014 سے حکومت نے معاشی اصلاحات کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے تھے جن میں سے اہم ترین یہ تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر جوکہ گھٹتے چلے جا رہے تھے جس کی وجہ سے روپیہ کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوتی چلی جا رہی تھی۔ جسے کسی حد تک کنٹرول کرلیا گیا۔ اس سے قبل 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے باعث عالمی سرمایہ کاروں کا پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں سرمایہ کاری میں دلچسپی بڑھی۔ ان ہی دنوں کئی بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان میں توانائی میں سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکسٹائل کی صنعت میں سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ کیونکہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا نیز پوری منڈی میں پاکستان کو خصوصی مراعات ملنے کے باعث پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات میں تیزی سے بڑھنے کے امکانات روشن ہوچکے تھے۔

لیکن بعض وجوہات کی بنا پر پاکستان توانائی کے مسائل کے حل میں ناکام رہا اس کے ساتھ ہی توانائی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ نیز اس سلسلے میں بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے سب سے زیادہ رکاوٹ کا باعث ملک میں سیاسی کشیدگی اور توانائی رہی۔ حالانکہ جی ایس پی پلس کے باعث مزید سرمایہ کاری کی خاطر ملک میں مشینریوں کی درآمد میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013-14 کے دوران 6 کھرب 66 ارب 61 کروڑ روپے کی مشنری درآمد کی گئی جب کہ 2012-13 کے دوران 5 کھرب 54 ارب 98 کروڑ روپے کی مشنریاں درآمد کی گئی تھیں یعنی 20.11 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جب کہ اسی مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا جب کہ بعد میں ملکی سیاسی کشیدگی کے باعث ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی۔

ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کے اعداد و شمار کے مطابق 2013-14 کے دوران 13 کھرب 36 ارب 70 کروڑ روپے کی ٹیکسٹائل مصنوعات یا ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات ہوئی تھیں۔بتایا جاتا ہے کہ اس میں غالب ترین حصہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کا تھا۔ لیکن ٹیکسٹائل ملوں کے لیے بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھادی گئی ہے گیس کی شدید قلت پیدا کردی جاتی ہے حالانکہ بعض اوقات یہ احکامات بھی آجاتے ہیں کہ کئی ہفتوں کے لیے گیس کی بندش کردی جائے گی۔

بہرحال 2013-14 کے دوران ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں تقریباً 11 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ حالیہ دنوں میں سکوک بانڈز کا اجرا 5 سال کے لیے کیا گیا ہے۔ اس پر منافع کی شرح 6.75 فیصد بتایا گیا ہے۔ اس سے قبل اپریل میں یورو بانڈز جاری کیے گئے تھے جن پر غالباً منافع کی شرح 7.25 فیصد تھی۔ ان ہی دنوں سری لنکا نے بھی اپنے بانڈز عالمی مارکیٹ میں پیش کیے تھے جس پر منافع کی شرح پاکستان سے کم تھی۔ اگست کے بعد سے دھرنوں کے باعث پاکستان کی معیشت کو یک گونہ نقصان بھی پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ ستمبر میں سیلاب کے باعث زرعی فصلوں، مال مویشی اور جانی و مالی نقصان بھی ہوا ہے جس نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ دیگر باتوں کے سبب معیشت کے اشاریے ایک بار پھر منفی رجحان کا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن ان باتوں کے باوجود حکومت نے اسلامی سکوک بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا۔ موڈیز نے بھی پاکستان کے اس فنڈز کے بارے میں ابتدائی طور پر سی اے اے ون ریٹنگ دی ہے۔ جو اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ باوجود مسائل کے پاکستان کی معیشت پر اظہار اعتماد کیا جا رہا ہے۔

نیز اسلامی سکوک بانڈز کی مقبولیت میں اضافے کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ گزشتہ سال 28 اکتوبر 2013 کو برطانیہ نے بھی اسلامی سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ مسلم سرمایہ کاروں خصوصاً عرب سرمایہ کاروں کو اپنی جانب متوجہ کرسکے۔ عالمی ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس وقت عالمی معیشت جس طرح سے انحطاط پذیری کا شکار ہے ایسی صورت میں اسلامی سکوک فنڈز کی مقبولیت سے عالمی معیشت اور بین الاقوامی اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آئے گی۔ سکوک بانڈز کے اجرا کی خبر کے ساتھ ہی پاکستان میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں بھی مندی سے تیزی دیکھی گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو کس طرح سے روپے کی قدر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

نیز حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لے کر آرہی ہے۔ ان دونوں چیزوں کو ملاکر اگر معیشت میں بہتری کو مہنگائی کم کرنے میں استعمال ہورہا ہو تو ایسی صورت میں اگر کرایوں میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور مہنگائی کم ہوجاتی ہے تو عوام صحیح معنوں میں ریلیف محسوس کریں گے۔ نیز اس کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے حکومت کو پہل کرنا ہوگی تاکہ معیشت پر پڑنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔ اب یہ معاشی حکام پر ہے کہ کس طرح وہ ان معاملات سے نمٹتے ہوئے ملک سے مہنگائی اور بیروزگاری کو کم کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔