(دنیا بھر سے) - اندر کا خوف

ضمیر آفاقی  ہفتہ 29 نومبر 2014
 ہمیں دنیا کو تعصب کے اندھیرے میں غرق کرنے والوں سے آزادی کب ملے گی؟۔ فوٹو ٹوئیٹر

ہمیں دنیا کو تعصب کے اندھیرے میں غرق کرنے والوں سے آزادی کب ملے گی؟۔ فوٹو ٹوئیٹر

دہشت گردی کے خوف نے حکومتوں، اداروں اور افراد کو حفاظتی حصار میں لے رکھا ہے ،انسانی آزادی خوف کے سائے تلے دفن ہوتی جارہی ہے ۔ اکسویں صدی ترقی کے عرج کو چھوتی صدی کہلائی جاتی ہے جس میں علم و عرفان کے دریا نہ صرف بہے بلکہ انسان انسانیت کی بہتری اور آسانی کے لئے بھی بے پناہ کام ہوا ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں حیرت انگیز اور محیر القول کام ہوا۔ سائنسی ترقی نے انسان کی عمر میں اضافے کی نہ صرف نوید سنائی بلکہ یہ بھی بتایا کہ کن افعال کے سرزد ہونے سے انسان جلد مر جاتا ہے اور کن افعال کے سرزد ہونے سے اس کی موت جلد واقع ہو جاتی ہے اور وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر انسان ایک صحت مند لمبی عمر جی سکتا ہے ، ایک طرف لاعلاج انسانی بیماریوں کا علاج دریافت کیا گیا تو دوسری جانب ادویات ایجاد ہوئیں ،ڈی این کے علم کے بعد انسانی افعال و کردار کا اندازہ لگانا نہ صرف آسان ہوا بلکہ جرائم میں مبتلا افراد کی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے ،اور جرائم کے سراغ میں بھی مدد مل رہی ہے۔یہاں تک کہ انسان کے ہر سوال کا جواب دیتی سائنس ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی مسائل کے حل کی طرف گامزن ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف اس قدر ترقی ہوئی کہ عقل خود محوحیرت ہے تو دوسری جانب انسان ہنوز ابھی تنزلی کی اتھاہ گہریوں سے باہر نہیں نکل سکا۔ انسان آج بھی خود اپنے ایجاد کردہ ہتھیاروں کی ہولناکی کے اثرات اور نقصانات سے باہر نہیں آسکا، جہاں ایک بم دھماکہ لمحوں میں سینکڑوں زندہ و جاگتے انسانوں کو لوتھڑوں میں بدل دیتا ہے ۔

انسان ابھی تک ایسے کچرا گھر نہ دریافت نہیں کر سکا جہاں وہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والی ان تمام تعصبی غلاضتوں کو پھینک سکے۔ اکسویں صدی کی شروعات تحمل اور روداری انسانیت کے باہمی احترام کے سنہرے اصولوں سے طلوع ہوئی اور محسوس ہونے لگا تھا کہ ساری دنیا خدا کا کنبہ ہے اور ساری زمین انسان کی سانجھے داری میں آرہی ہے ،حدوں سرحدوں کا تصور ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا، ویزہ جیسی غیر انسانی بندشیں نرم ہوتی دکھائی دے رہی تھیں کہ نائن الیون کا واقعہ ہو گیا جسے کرنے والے انسانیت دشمنوں نے انسان کے صدیوں کے صفر کو منٹوں میں ملیا میٹ کر دیا، اور انسان کو پھر جہالت کے اتھاہ سمندر میں پھینک دیا جہاں سے نکلنے کے لئے بھی اب شاید صدیاں درکار ہوں۔

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے عفریت نے پوری دنیا کے انسانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے ہر انسان دوسرے کے نزدیک مشکوک ہو چکا ہے یا کر دیا گیا ہے جس کی حالیہ مثالیں دنیا کے دو مہذب ممالک میں یوں نظر آئیں کہ امریکہ میں ایک چھوٹے سے امریکن بچے کو نقلی رائفل لے کر چلنے پر پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا جس پر لعن طعن ہو رہی ہے، جبکہ دوسرے واقعے میں ایک پاکستانی نوجوان کو بلیجیم میں اپنی جرسی میں کرکٹ کا بلا چھپانے کی پاداش میں ’’دہشت گرد ‘‘ قرار دے کر اس کی تصاویر تک میڈیا پر جاری کر دی گئی، اور والدین سمیت اسے ملک بدر کرنے کا حکم سنا دیا گیا۔

تفصیل اس امر کی کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ بیلجیم میں کرکٹ کے شوقین 22 سالہ عاصم عباسی کو میچ کھیلنے کے لیے جانا مہنگا پڑ گیا، بارش کی وجہ سے جرسی میں چھپا کر بیٹ لے جاتے نوجوان کی تصویر اخبار میں دہشت گرد کے طور پر لگا دی گئی اور کرکٹ بیٹ کو مشتبہ رائفل لکھ دیا۔ نوجوان کی تصویر دیکھ کر پاکستانی سفارتخانے میں تعینات عاصم کے والد حیران رہ گئے۔ سونے پر سہاگہ کہ پاکستانی سفارتخانے نے متاثرہ خاندان کی مدد کرنے کے بجائے کسی بھی تفتیش کے بغیر عاصم کے والد کو نوکری سے نکال دیا اور پاکستان کا نام بدنام کرنے کا الزام لگا کر عباسی فیملی کو فوری بیلجیم سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ المیہ دیکھیے کہ ہمارے اپنے لوگ یعنی پاکستانی سفارتحانے کے افسران نے عاصم کی کوئی مدد نہ کی۔ تاہم اپنی مدد آپ کے تحت عاصم عباسی نے بیلجیئم پولیس سے رابطہ کرکے بتایا کہ وہ ایک کرکٹر ہے اور اس نے اپنا کرکٹ بیٹ بارش سے بچانے کیلئے جرسی میں لپیٹ رکھا تھا،جس پرعاصم عباسی کو دہشت گردی کے الزام سے چھٹکارا مل گیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں برسلز میں یہودیوں کے میوزیم پر حملے کے بعد سے پبلک ٹرانسپورٹ میں کسی بھی قسم کا اسلحہ یا ایسی کوئی بھی چیز لے جانے پر پابندی ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ اور نوجوان کو مشتبہ سمجھتے ہوئے اس سلوک سے گزارا گیا۔ گو کہ بیلجیئم میں برسلزکے رہائشی پاکستانی نوجوان عاصم عباسی کو کلیئرکرنے کا اعلان بیلجیئم کے سرکاری استغاثہ نے کیاہے ۔استغاثہ کاکہناتھا کہ پولیس نے تصویر جج کی اجازت کے بعد شائع کی تاہم تحقیقات کے بعد عاصم عباسی کو کلیئرقرار دے دیا گیا ہے۔جبکہ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتحانے کے تعاون سے ہی کیس کلیئر ہوا ہے ، عاصم کی فیملی کو ڈی پورٹ نہیں کیا جارہا، ان کی فیملی کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

ترقی پزیر ممالک کو توچھوڑئے جب اس طرح کے واقعات مہذب ممالک میں بھی ہونا شروع ہوجائیں کہ بے گناہ گنہگار قرار پانے لگیں تو پھر کیا دنیا کے کرتا دھرتاوں کو سوچنا نہیں چاہیے کہ انسانی ترقی کے اس سفر میں انسان ہنوز تنزلی میں ہے۔ آزادی کا جو سفر دنیا کے روشن دماغوں نے دیکھا اور کوششیں کی تھیں وہ مفاداتی جاہلوں کی جہالت کی نظر ہو رہا ہے ۔ ہمیں دنیا کو تعصب کے اندھیرے میں غرق کرنے والوں سے آزادی کب ملے گی؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔