تشدد آمیز رویہ

نسیم انجم  اتوار 30 نومبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو پہلی تعلیم دی تھی وہ ’’اقرا‘‘ کی تھی یعنی ’’پڑھ‘‘ دین اسلام میں تعلیم کی بے حد اہمیت ہے، لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے اور زمانہ ایک بار پھر جہالت کے دور میں داخل ہوچکا ہے یعنی جہاں سے سفر شروع کیا تھا، دوبارہ اسی جگہ پہنچ گئے، آج تعلیم کا مقصد محض ڈگریوں کا حصول ہے اور کمال دولت کا ہے۔

دولت کے بل پر ہر چیز خریدی جاسکتی ہے، موت کی طرف بھاگتی ہوئی زندگی بھی، جی ہاں! گردے، آنکھیں اور جسم کے دوسرے اعضا بڑی آسانی کے ساتھ خریدے جاسکتے ہیں، پھر بھلا ڈگریاں کیوں نہیں خریدی جاسکتی ہیں نہ بیچنے والوں کی کمی ہے اور نہ خریداروں کی۔ یوں تو ہم روز ناخواندگی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی واقعہ سنتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ واقعہ بھی جسے میں لکھنے جا رہی ہوں، بڑا ہی تکلیف دہ ہے کئی روز قبل ماڑی پور کے سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے ڈائریکٹر اسکولز پر جی بھر کر تشدد کیا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے اس کے بعد انھیں ایک کمرے میں مقید کردیا۔

اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو ڈائریکٹر کا اچانک دورہ کرنا بے حد ناگوار گزرا، گویا انھوں نے ہیڈ ماسٹر کی آزادی و خودمختاری پر حملہ کردیا، ہیڈ ماسٹر پہلے ہی ناراض تھے کہ انھیں تنخواہ نہیں ملی تھی، دوسرے طلبہ وقت پر پہنچ گئے ڈائریکٹر آف اسکولز بھی وزٹ کرنے آگئے اسکول میں تالا لگا دیکھ کر شہنشاہ اعظم کا انتظار کرتے رہے۔ وہ نہیں پہنچے تو تالا کھلوا کر ڈائریکٹر نے ہیڈ ماسٹر کے فرائض انجام دے ڈالے اور اسمبلی کروادی جب تقریباً ساڑھے نو اور دس بجے کے درمیان صاحب بہادر تشریف لائے تو صورت حال توقع کے خلاف تھی۔

اب ان حالات میں انھیں غصہ نہیں آئے گا؟ غصہ آیا اور بہت زیادہ آیا اور ایک ذمے دار اعلیٰ افسر کی پٹائی کرڈالی اور جب پولیس آئی تو بھاگ لیے، کیا یہ حرکت ایک اسکول کے سربراہ کو زیب دیتی ہے، کیا ایسے لوگ اسکول کا نظم و نسق چلانے کے مستحق ہیں؟ ایسے اسکولوں کے طلبا تعلیم و تربیت کی بجائے، جھوٹ، منافقت اور جہالت کے اندھیروں کو ہی اپنے دل و دماغ میں اتار سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے کونے کونے میں جہل کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، بہت کم لوگ اس تاریکی سے محفوظ ہیں اور وہ علم کے دیے جلانے کے کوشاں ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ تھوڑا سا اجالا دور دور تک کے پھیلے ہوئے اندھیرے کو کیسے ختم کرسکتا ہے۔

سندھ ہو، پنجاب یا بلوچستان ہر جگہ ایسے ہی بے علم و بے عمل لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں، ارکان اسمبلیوں کا بھی اتنا ہی برا حال ہے ان لوگوں کے پاس عوام کی بھلائی کے لیے سوچنے اور کام کرنے کا وقت نہیں ہے۔ شہر شہر، قریہ قریہ جرائم کی دنیا آباد ہے، ملزمان گرفتار بھی ہوتے ہیں، لیکن گرفتار ہوکر کہاں جاتے ہیں؟ زمین کے اندر سما جاتے ہیں یا خلاؤں میں جاکر اٹک جاتے ہیں، کچھ پتا نہیں چلتا ہے، چونکہ انھیں تھانوں میں کاغذ کے پرزوں کی طرح جمع کرلیا جاتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر اگر سزا دی جائے تو دوسروں کو عبرت تو ہوگی لیکن ان معاملات میں عدالتیں خاموش ہیں یا پھر تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں فیصلہ دینے کے باوجود مجرم اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتے ہیں، سیکڑوں سزائے موت پانے والے قیدی اپنی سزا کے منتظر ہیں کہ یہ ذہنی اذیت کا سفر ختم ہو۔ کچھ لوگ رہائی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ رہائی بھی نہیں ملتی ہے کہ سنگین جرائم کے مرتکب ہیں۔

خیبرپختونخوا میں ضرور تعلیم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے، اور جعلی کاموں اور کارناموں کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی مقام حیرت ہے کہ جو سچ کا پرچم بلند کرتا ہے، کھرے کھوٹے کی پہچان
بتاتا ہے، حکومتوں کی خودغرضی اور بے حسی کا بھانڈا پھوڑتا اور بھائی سے بھائی کو ملانے اور کامیابی کی نوید سنانے کے لیے لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے اسے ہماری حکومت اشتہاری قرار دے دیتی ہے، وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اس طرح فراموش کرتی ہے جس طرح معصوم بچوں کے مارنے سے چند اڑتے ہوئے پرندے گرجائیں۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، کتنے گھروں کے چراغ گل ہوئے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ایک قیامت تھی جو ان کے گھروں میں اتر آئی تھی لیکن حکومت قاتلوں کے قتل و غارت کو مثبت کام سمجھ رہی ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک مجرم کیفر کردار تک پہنچ جاتے، انصاف کے طلب گاروں کو انصاف ملتا اور مظلوموں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا۔ عمران خان، شیخ رشید اور طاہر القادری نادان تو نہیں ہیں جو تقریباً چار ماہ سے عدالتی اداروں بلکہ ہر صاحب اقتدار کی توجہ کرپشن کی طرف دلا رہے ہیں۔طاہر القادری تو چلے گئے تھے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں ایک وقفہ تھا جو ختم ہوا جب کہ عمران خان اور ان کے ساتھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ حق پر ہیں، دھاندلی اور جعل سازی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ جو کسی کے کان پر جوں رینگے۔

بھائی صاحب پاکستان کی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، جسے چھوڑنے کے لیے بادشاہ سلامت تیار نہیں ہیں، صرف اور صرف پاکستان کے پیسے سے انھیں محبت ہے، ان لوگوں سے نہیں جو دن رات مشقت کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر یہ رزق حلال کماتے ہیں لیکن محنت کرنے والا غریب ہی رہتا ہے، فاقہ کشی اور بے گھری اس کا مقدر بنی ہوئی ہے اور صاحب اقتدار عوام کی ہی دولت سے عیش و طرب کے شادیانے بجا رہے ہیں محلوں میں رہ رہے ہیں اور اپنی شان و تمکنت دکھانے کے لیے اپنے ساتھ سیکڑوں گاڑیوں کا قافلہ لے کر چلتے ہیں اس طرح اپنی عوام کے لیے آمدورفت کے راستوں کو بھی بند کردیتے ہیں۔ جاں بلب مریض اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے اور دفاتر و کارخانوں میں بروقت نہ پہنچنے والا اپنے افسر کے عتاب کا شکار، تنخواہ بھی کاٹ لی جاتی ہے طلبا بھی امتحانی حال میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ پل ٹوٹیں، سڑکیں خستہ ہوجائیں، ان میں گڑھے پڑ جائیں۔ ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے۔

اقتدار میں آنے والے زیادہ تر حضرات تعلیمی اسناد سے ہی محروم نہیں ہیں بلکہ لالچ اور طمع نے ان سے انسانیت بھی چھین لی ہے اور جہاں انسانیت ختم ہوجائے وہ جگہیں جنگل بن جاتی ہیں، جہاں درندوں کا راج ہوتا ہے، آج ہمارے ملک میں درندگی عروج پر ہے، جگہ جگہ لاشیں پڑی ہیں، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ آپریشن ہونے کے باوجود اختتام کو نہیں پہنچ رہا ہے پھر کریکر حملے، بم دھماکے و خودکش دھماکے اپنی جگہ پاکستان کی زمین پر دشمنوں نے کانٹوں کے بیج بو دیے اور اسلحے کو آلو پیاز کی طرح سرزمین پاک پر پھیلا دیا گیا۔ مدرسوں اور سرکاری اسکولوں میں اب بچے نہیں پڑھتے ہیں بلکہ گائیں، بھینسیں ان مقدس اداروں میں بندھی اپنی قوت گویائی کے لیے دعا گو ہوں گی کہ انسان نے تعلیم کی راہوں میں کانٹے بچھا دیے ہیں تو ہم ہی کوئی دعا کرلیں مناجات پڑھ لیں، شاید ظالموں کو رحم آجائے اور ننھے معصوم بچوں کو خودکش حملوں میں استعمال کرنے کی بجائے اسکولوں میں بھیج دیا جائے اور پھر علامہ اقبال کی یہ دعا ان اسکولوں کے در و دیوار میں گونجنے لگے:

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔