چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

رئیس فاطمہ  اتوار 30 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

فیضؔ نے جب اپنی مشہور نظم ’’بول‘‘ جو ان کے پہلے شعری مجموعے ’’نقش فریادی‘‘ میں شامل ہے لکھی ہو گی تو یقینا اسی خلفشار، ہیجان اور اندرونی کرب سے گزرے ہوں گے جس سے آج سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے قلم کار دوچار ہیں۔ کہنے کو تو وہ کہہ گئے کہ:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و جاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سچائی کو سامنے لانے والوں پہ زندگی حرام کر دی جائے گی۔ قلم توڑ دیے جائیں گے، یا پھر خرید لیے جائیں گے۔ جمہوریت کی ٹوپی پہنا کر آمریت اور بادشاہت کا پرچار کیا جائے گا۔ اگر کوئی سر پھرا اس ’’طلسماتی‘‘ ٹوپی کو اتار کر اس کے اندر چھپے کریہہ اور طاغوتی چہرے لوگوں کو دکھانے کی ہمت کرے۔ تو پہلے تو اسے خوب خوب مطعون کیا جائے، گالیاں دینے اور کردار کشی کے لیے، ایسے بے ضمیر لوگوں کا بندوبست کیا جائے جو پیسے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

اگر ’’خدمات‘‘ کے عوض بونس ملنے کا یقین ہو تو اپنے اپنے بتوں کی پرستش میں اس حد تک آگے جانے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ اپنے گاڈ فادر کے علاوہ سب کو چور، اچکا، بدمعاش، بدکردار، جواری، شرابی اور نہ جانے کون کون سے القابات سے نواز کر اپنی نوکری پکی کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنکھوں میں غصے کے شعلے اور باتوں میں بارود کی بو سب کچھ ’’بونس‘‘ کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

لیکن فیضؔ جانتے تھے کہ ’’سچ کا سودا‘‘ من میں سما جائے تو لکھنے والا اور کہنے والا دونوں تلوار کی دھار پہ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ سچ کا پل صراط عبور کرنا ہر ایک کا مقدر نہیں۔ یہ وہی کر سکتا ہے جس کی آنکھ بقول غالبؔ قطرے میں دجلہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ فیضؔ ناامید نہیں تھے۔ اسی لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ کیا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا اور ان کے یہ اشعار مجسم سچائی بن کر سامنے آ سکیں گے؟

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

یہ نظم انھوں نے جنوری 1979ء میں کہی تھی۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے اور ایسی ’’باغیانہ‘‘ نظمیں لکھتے جو عوام کا شعور بیدار کر سکتی ہیں تو یقینا انھیں اٹھا کر فوراً جیل میں ڈال دیا جاتا اور ان کے مجموعے کو بک اسٹالز سے اٹھوا کر سمندر میں پھینک دیا جاتا کہ برسر اقتدار اور طاقتور لوگ جو جمہوریت کے جعلی مکھوٹے لگا کر جاگیرداری اور سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ وراثتی بادشاہت کے حصول اور تحفظ کے لیے میدان سیاست میں کودے ہیں انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ سچ کی راگنی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔

بلبل کو نغمہ گانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن افسوس کہ ہم آج جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس میں تازہ ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوچ پہ پہرے بٹھا دو، جھوٹ بولنے، قصیدے لکھنے اور لٹیروں کو ’’دودھ کا دھلا‘‘ اور جمہوریت کا چیمپئن بنانے کے لیے۔ ایسے لکھنے والوں کو کام پر لگایا جائے جو ایک پیراگراف میں انھیں تھوڑا سا رگیدیں تا کہ مائنڈ سیٹ بنانے میں آسانی ہو۔ اور پھر انھیں ’’نجات دہندہ‘‘ بنا کر پیش کریں۔ تھوڑی گالی، تھوڑے تھپڑ اور باقی سارا پیار۔ یہ وہ فارمولا ہے جس کے تحت ہر دور میں لوگ مالا مال ہوتے ہیں۔

جب عائشہ صدیقہ کی کتاب پر واویلا مچا تھا تو وہ ڈکٹیٹر شپ کا زمانہ تھا۔ اس کی مذمت کرنے میں وہ سرفہرست تھے۔ جنھوں نے اپنی اپنی مطلب برآری کے لیے کبھی جمہوریت کی ٹوپی سر پر سجا لی۔ کبھی لاشوں کی سیاست کی، اقتدار کی بھیک مانگی لیکن جب جرنیلوں کے گملوں میں لگائی گئی پنیریوں میں اگنے والے اور لاشوں کے عوض جشن بہاراں منانے والوں کے اصلی چہروں پہ سے کسی باہمت نے نقاب اٹھانے کی کوشش کی تو دونوں نقلی پہلوان جو اقتدار کے اکھاڑے میں ایک دوسرے کے پارٹنر تھے۔ لیکن اکھاڑے سے باہر ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے علمبردار۔ ان کی نیندیں حرام ہونے لگیں، ماؤں کی گود میں سوئے ہوئے بچوں نے بھی رونا شروع کر دیا کہ ’’بادشاہت‘‘ جاتی دکھائی دینے لگی۔ جھوٹ کا اندھیرا کب تک سچ کے سورج کی روشنی کو طلوع ہونے سے روکے رکھے گا؟

اگر آج اقبالؔ، فیضؔ اور حبیب جالبؔ زندہ ہوتے تو انھیں بھی زندان میں ڈال دیا جاتا۔ اقبالؔ پر تو جلاؤ گھیراؤ اور تشدد پہ اکسانے کا مقدمہ بن جاتا۔ خاص طور پر ان اشعار پر تو فوری طور پر انھیں اشتہاری قرار دے دیا جاتا:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

مولانا بھاشانی نے 1970ء میں ایک جلسے کے دوران جب یہ اشعار پڑھے تھے تو اس وقت بھی بڑا فساد برپا ہوا تھا کہ مولانا لوگوں کو تشدد پہ اکسا رہے ہیں۔ کیا یہ اشعار آج کی صورت حال کا عکس نہیں؟

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

سچ کے دیوتا کو جھوٹ اور منافقت کے دیو نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ سب مفاد پرست ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑے ہیں کہ دروغ دیوزاد کے سر پہ فرعونیت کا تاج جگمگا رہا ہے۔ اس تاج میں لگے رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے ہیرے غلاموں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ اسی لیے جھوٹ فریب اور اقربا پروری کی آبیاری نہایت اعلیٰ پیمانے پر اور اعلیٰ ترین اداروں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی مدد سے مسلسل ہو رہی ہے۔ زرخرید غلاموں سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔

ان کا تو کام ہی ’’حاضر سائیں‘‘ اور ’’میرے آقا کیا حکم ہے‘‘ کہنا ہے۔ لفظوں پہ پابندی، بولنے پہ پابندی تنگ کرنے کی دھمکی، لکھنے پہ قلم توڑ دینے کی باتیں۔ تسلسل سے ہو رہی ہیں۔ وہ بھی ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے لے پالکوں اور نمرود کی خدائی کو مقبرے بنانے والوں کی مرضی و منشا سے۔ لیکن کب تک؟ کوئی تو ہو جو ان فرعونوں سے ان کی خدائی چھین سکے۔ مجھے امید ہے کہ قصیدہ نگاروں کی فوج ظفر موج کے باوجود چند سر پھرے لکھنے والے کسی نہ کسی طرح سچائی کا عطر بیچتے رہیں گے۔

یہ وہ قلم کار، تجزیہ نگار اور صحافی ہیں جو ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچتے ہیں۔ انھیں وطن کا مفاد عزیز ہے۔ ان کا ایمان مضبوط ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمیشہ زندہ نہیں رہنا، روز محشر خدا کے آگے وہ شرمندہ نظر نہیں آئیں گے۔ وہ سرخرو ہوں گے کہ ظلم سے نجات دلوانے میں انھوں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ سقراط اور موسؑیٰ بھی اکیلے تھے۔ لیکن وہ سچ کے ساتھی تھے۔ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت رکھتے تھے۔ اسی لیے سرخرو ہوئے۔ آج جب تمام کووں نے مل کر راگ درباری گانا شروع کر دیا ہے کہ انھیں بھگانے والے آ گئے ہیں۔ سچ کی روشنی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ لکھنے پہ اگر قدغن ہے تو اب تو سوشل میڈیا کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بگل بج چکا ہے، غلاموں میں کھلبلی مچی ہے کہ جب تاج اچھالے جائیں گے تو ان کا کیا ہو گا؟ اسی لیے وہ گرج اور برس رہے ہیں لیکن:

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔