کنٹینراسکینڈل کی دوبارہ تحقیقات پر کسٹمزایجنٹس کا عدم اتفاق

احتشام مفتی  اتوار 30 نومبر 2014
450ایجنٹس متاثر ہوئے جب کہ تجارت گھٹ کر 25 تا30 فیصد،12ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے، ایجنٹس ۔ فوٹو: فائل

450ایجنٹس متاثر ہوئے جب کہ تجارت گھٹ کر 25 تا30 فیصد،12ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے، ایجنٹس ۔ فوٹو: فائل

کراچی: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرزکی پروسیسنگ میں شامل کسٹمزکلیئرنگ وبارڈرایجنٹس نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں سماعت پردوبارہ اپنا موقف اور معلومات کی فراہمی شروع کردی ہے۔

متاثرہ کسٹمزکلیئرنگ وبارڈرایجنٹس نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غائب ہونے والے28 ہزار کنٹینرز کی 8 روزہ فارمولے کی بنیاد پر دوبارہ تحقیقات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ چمن اور امان گڑھ سے تین تا پانچ یوم میں کنٹینرز کی واپسی کا عمل ایک حقیقت ہے جس کا ریکارڈ متعلقہ ٹریکر کمپنی سے حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹی پی ایل ٹریکرکمپنی کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ کراچی سے جانے والاٹرانزٹ ٹریڈ کا ٹرک ڈیڑھ سے دودن میںامان گڑھ پہنچ جاتاہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں افغان حکومت کی جانب سے بھی تحریری طورپر اس امر کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 28000 کنٹینرزسرحد عبورکرگئے تھے اورنیب کی جانب سے چمن اور طورخم کسٹمزاسٹیشن کے ریکارڈکی جانچ پڑتال کی گئی تھی جس میں 28 ہزار کنٹینرز میں سے26ہزار 843 کنٹینرز کی باڈر پار کرنے کی تصدیق ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود نیب نے ایف ٹی اوکی رپورٹ کو بنیادبناکر 7922غائب شدہ کنٹینرزپر چند افسران اور400سے زائد کلیئرنگ اور باڈر ایجنٹس کو کٹہرے میں کھڑاکردیاہے۔

جس میں کلیئرنگ اور باڈر ایجنٹس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اورنہ ہی ان پر جرم ثابت ہوسکا۔ ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے مرحوم حافظ انیس رپورٹ کے مطابق 8 روزہ فارمولے کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غائب ہونے والے28 ہزارکنٹینرز دوبارہ تحقیقات شروع کرنے پرمتاثرہ کسٹمز وبارڈرایجنٹس کو تحفظات لاحق ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کی گزشتہ دو سالوں سے جاری تحقیقاتی عمل کے نتیجے میں ٹرانزٹ کلیئرنس وترسیل کے کاروبار سے وابستہ450 کسٹمز وبارڈرایجنٹس بری طرح متاثر ہیں جبکہ افغان تاجروں نے بھی ان حالات کے تناظر میں پاکستان کے بجائے ایران کے توسط سے ٹرانزٹ ٹریڈکو ترجیح دینے لگے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ گھٹ کرصرف25 تا30 فیصد تک محدود ہوگئی ہے، نتیجتا اس کاروبار سے منسلک تقریبا12 ہزار سے زائد افراد گزشتہ ڈیڑھ سال سے بے روزگار ہوچکے ہیں۔

اس ضمن میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر افتخار احمد وہرہ نے بتایا کہ نیب کی جانب سے ازسرنو تحقیقات کے لیے کسٹمزوبارڈرایجنٹس کو دوبارہ نوٹسز کے اجرا نے کراچی کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ان کسٹمزو بارڈرایجنٹس میں خوف وہراس کی فضا بڑھادی ہے جوپہلے ہی ڈیڑھ سال سے نیب کے کراچی دفتر میں ماہواربنیادوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی چیمبر مذکورہ اسکینڈل کی تحقیقات کے حق میں ہے لیکن تحقیقات کی سمت درست اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔

گزشتہ کی طویل تحقیقات کے تاحال نتیجہ خیز نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیب کی مذکورہ ازسرنوتحقیقات بھی بے سود ہوگی لیکن ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک تاجروں میں بے چینی ضرور بڑھے گی۔ کراچی چیمبر کی جانب سے ڈی جی نیب کو ایک خط جاری کیا گیا ہے جس میں نیب سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متاثرہ کسٹمز وبارڈرایجنٹوں کو کراچی کے بجائے نیب کے علاقائی دفاتر میں طلب کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب کے حالیہ نوٹسز کے بعدآل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن پر بھی ملک بھر کے کسٹمز وبارڈرایجنٹوں کا دباؤ شدت اختیار کرگیا ہے اور متاثرہ ایجنٹس طویل دورانیے سے جاری بے یقینی وبداعتمادی ختم کرانے کے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔