پرانے شکاری نیا جال لائے

اوریا مقبول جان  اتوار 30 نومبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

آج سے چالیس سال پہلے امریکی اسی طرح ایران کی وکالت کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کو خطے کا امریکی پولیس مین کہا جاتا تھا۔ لیکن انقلاب ایران کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی اسی لہجے اور اسی زبان میں ایران کے بارے میں گفتگو کرتے نظر آ رہے جیسی وہ شاہ ایران کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔

ایرانی بھی پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں امریکا کے ساتھ اپنی گرم جوش محبتوں کی یاد میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کا حال اس جوڑے کا سا ہے جو ساری دنیا میں اپنے خراب تعلقات کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائے اور پھر حالات و واقعات انھیں خفیہ میل ملاپ پر مجبور کرتے رہیں لیکن دوبارہ  ملنے سے اس لیے ہچکچا رہے ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن اب لوگوں کی باتوں کی پرواہ کرنے کا وقت گزر گیا۔ خطرہ بہت بڑا آن پڑا ہے۔ اب دونوں نے کھل کر پرانی محبتوں کو ایک بار پھر سے زندہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔

دونوں کے خفیہ معاشقے اور از سر نو میل ملاپ کا آغاز افغانستان میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد ہوا تھا۔ ایران  پر معاشی پابندیاں تھیں کہ 1998ء میں ایرانی حکومت نے تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے لندن میں کانفرنس بلائی جس کے نتیجے میں ایک فرانسیسی کمپنی نے ایران کے ساتھ دو ارب ڈالر کا معاہدہ کیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن پہلے بہت چیخا اور پھر اس نے کمپنی کے لیے پابندیاں ختم کر دیں۔ پھر تو تانتا بندھ گیا‘ ہالینڈ، ناروے‘ اٹلی اور ملائشیا کی کمپنیاں ایرانی تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کرنے لگیں۔

ایسی ہی ایک کانفرنس اب فروری 2015ء میں دوبارہ لندن میں ہونے جا رہی ہے۔ لیکن اس کانفرنس سے ایک سال پہلے ہی (P5+1) یعنی فرانس‘ امریکا‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور جرمنی گزشتہ جنوری میں ایران کو سات ارب ڈالر کی تجارت پر سے پابندیاں اٹھا چکے ہیں اور اس سال نومبر میں اس معاہدے کو مستقل شکل دے دی گئی ہے۔ یہ امریکا اور ایران کے گزشتہ پندرہ سالہ خفیہ معاشقے اور میل ملاپ کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ اگر ایران افغانستان میں امریکی جارحیت کو مستحکم کرنے کے لیے طالبان مخالف شمالی اتحاد کا ساتھ نہ دیتا تو امریکا شاید ہی زمینی طور پر افغانستان میں داخل ہونے کا سوچتا۔

یہی صورت حال عراق میں بھی تھی۔ عراق کی افواج کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے مقابلے میں کوئی قابل ذکر فوج موجود نہ رہے‘ جب کہ دوسرا مقصد ایران کو ایک کمزور‘ دست نگر اور ایران کا محتاج عراق مہیا کرنا تھا تا کہ ایران سے شام تک ایک پٹی ایسی تخلیق کر دی جائے جس سے بوقت ضرورت کام لیا جا سکے۔ اسی لیے شدید عراق کی جنگ اور گرم گرم تقریروں کے باوجود بھی ایران پر سے پابندیاں بھی نرم ہوتی رہیں اور کاروبار بھی چلتا رہا۔

انعامات کی بارش کا ایک اور دھماکا ہونے جا رہا ہے۔ امریکا ہر سال اسرائیل اور امریکا کے تعلقات پر ایک خصوصی اجلاس بلاتا ہے جسے بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس سال اس اجلاس کا نام تھا  National Summit to Re-asses The US-Israel:Special Relationship اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کو اس بات پر قائل کرنا کہ اگر ایران ایٹمی پروگرام جاری بھی رکھے تو دنیا اور خصوصاً اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

امریکا اسرائیل تعلقات کے اہم ترین فرد پال پلر Paul Piller نے اپنا طویل مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا Can We Live With Nucelear Iran ۔ پال پلر 1978ء سے سی آئی اے سے وابستہ ہے اور وہ ان چند امریکیوں میں سے ہے جن پر اسرائیلی اعتماد کرتے ہیں۔ اس مضمون کے علاوہ اس کی گفتگو ایرانی مزاج اور وہاں کے رہنمائوں کے رویے پر بیش بہا عبور سے پُر تھی۔ جس نے بھی ایران میں چند دن یا سال گزارے ہوں اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایرانی اپنی گفتگو کے آغاز اور انجام میں بہت سے مرصع اور مسجع فقرے استعمال کرتے ہیں اور نیا نیا آدمی ان سے بہت متاثر ہوتا ہے۔

ایسے تمام فقرے رسمی ہوتے ہیں اور ان کا کوئی مطلب نہیں لینا چاہیے۔ وہ کہتا ہے ایرانی مزاج کو سمجھو۔ پال پلر نے اسرائیلیوں کو قائل کرنے کے لیے ایک مخصوص لفظ کا بھی استعمال کیا کہ ایرانیوں کو حالات کے مطابق اپنے خیالات چھپانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ پال پلر نے پاکستان اور بھارت کی بھی مثال دی ہے اور کہا کہ ان دونوں کے ایٹمی پروگرام زیادہ خطرناک ہیں۔ خصوصاً پاکستان کا پروگرام کیونکہ اس کے ساتھ کئی گنا بڑی طاقت بھارت ہے اور وہ خطرے میں بھی ہے جب کہ ایران کا کوئی پڑوسی بھارت جیسا نہیں۔

اس نے ایران کے اسرائیل کے خلاف بیانات کو ان کے اسلامی انقلاب کی داخلی مجبوری قرار دیا ہے اور کئی ایسے مواقع بتائے جب عالمی سطح پر ایران نے اسرائیل کے معاملے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ اچانک تعلقات میں گرم جوشی اور محبتوں کا سر عام اظہار کرنے کی ضرورت کیسے آن پڑی۔ صدام حسین کی حکومت ختم کرنے کے بعد امریکیوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے 8 لاکھ افراد پر مشتمل ایک وفادار عراقی فوج بنائی جسے وہ اپنا سرمایہ خیال کرتے تھے۔ لیکن داعش کے بیس سے پچیس ہزار افراد اس قدر پیش قدمی کریں کہ چالیس فیصد عراق اور شام کا کافی علاقہ ان کے قبضے میں آجائے اوباما اور امریکیوں کے لیے یہ ایک ڈرائونا خواب ہے جس نے ان کے تمام عزائم چکنا چور کر دیے ہیں۔

سی آئی اے کی جانب سے تمام میڈیا پر ایک پراپیگنڈہ جنگ کا آغاز کیا گیا۔ پہلے کہا گیا داعش امریکی ہیں‘ پھر کہا گیا اسرائیل نے بنائی ہے۔ ادھر اسرائیل نے الزام لگایا کہ سعودی عرب ان کو تین سو بلین ڈالر دے چکا ہے‘ ترکی پر الزامات کی بوچھاڑ ہے کہ وہ انھیں مدد فراہم کرتا ہے لیکن اب یہ پراپیگنڈہ ناکام ہو گیا۔ اسے ناکام کرنے میں ان لوگوں کا بہت بڑا کردار ہے جو امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک سے جوق در جوق عراق اور شام میں لڑنے چلے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس منفی پراپیگنڈے کی اصلیت جانتے تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ ایسی سازشی تھیوریاں کہاں بنتی ہیں‘ کون بناتا ہے اور کیسے انھیں مقبولیت ملتی ہے۔

اب امریکا کے لیے کوئی اور راستہ باقی نہ تھا۔ مقابلہ کرنا ہے تو کھل کر سامنے آنا ہو گا۔ اس کے لیے امریکا کو سب سے قابل اعتماد ملک ایران نظر آیا۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی ساتھ ہیں لیکن مسلکی حوالے سے ان کے عوام کی ہمدردیاں داعش کے ساتھ ہو سکتی ہیں اس لیے کسی ایسے ملک کی تلاش تھی جہاں مسلک مختلف ہو اور جو داعش کے لیے خطرناک حد تک مہلک ثابت ہو سکے اور اس کے عوام بھی اس کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے لبنان کے حزب اللہ‘ شام کے بشار الاسد‘ عراق کی امریکی پٹھو حکومت اور ایران ایک ایسا مضبوط اتحاد بنتا تھا جس کو داعش کے خلاف مسلکی سپورٹ بھی حاصل ہوگی اور حکومتی بھی جب کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی حکمران اپنی کمزور حکومتوں کو بچانے اور اس پھیلتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے ان کے ساتھ اکٹھا ہو چکے ہیں۔

ایران کے خلاف پابندیاں نرم کرنے کے لیے سعودی وزیر خارجہ نے اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سابق سربراہ افراہیم ہیلوی (Efraim Halevy) اور موجود سربراہ تیمر پارڈو Tamir Pardo نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ اگر ایران ایٹم بم بنا بھی لے تو وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں‘ جب کہ موساد کے مشہور زمانہ سربراہ میئر دیگان Mier Degan نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے احمقانہ بات نہیں سنی کہ اسرائیل‘ ایرانی تنصیبات پر حملہ کرے۔ یہ  بدلتی صورت حال ہے۔

ایران سے محبتوں کا وہ عالم جو مشرق وسطیٰ اور بحیرہ عرب میں ساٹھ کی دہائیوں میں تھا۔ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ عرب میں امریکا کے پرانے پولیس مین کو پھر تاج وفاداری پہنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں مجھے وہ دن بہت شدت سے یاد آ رہا ہے جب میں 2008ء میں ایرانی بندر گاہ چہار بہار پر بیٹھا ایک بلوچ ڈاکٹر سے گفتگو کر رہا تھا۔ یہ ان چالیس لاکھ کے قریب بلوچوں میں سے چند پڑھے لکھے لوگوں میں سے تھا ورنہ باقی سب بلوچ تو ایرانی قومیت کے محکوم۔ اس نے بھارت کے ان انجینئروں اور اعلیٰ سرمایہ داروں کو بتایا جو اس بندر گاہ سے افغانستان اور وسطیٰ ایشیا تک سڑک بنا چکے تھے۔ کہنے لگا یہاں تو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی حیدر آباد دکن کا ایک بھارتی ہے۔ آنے والے کل میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔

اس امریکا کے ساتھ جو ہم پر بھروسہ نہیں کرتا یا اس بھارت سے تجارتی معاہدے کر رہے ہوں گے جس نے ایسے ہی معاہدوں سے بنگلہ دیش کو کنگال کیا۔ ہمیں احساس تک نہیں کہ داعش کے 25 ہزار لوگ اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا بڑا خطرہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہے اور ہمارے حق میں اسرائیل کی موساد کا کوئی سربراہ کبھی بیان نہیں دے گا… اور بھارت…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔