عوامی سارک

مقتدا منصور  پير 1 دسمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کٹھمنڈو (نیپال) میں ہونے والی 18 ویں دو روزہ سارک سربراہ کانفرنس جمعرات 27 نومبر کو اختتام پذیر ہو گئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ تاریخ کی ناکام ترین کانفرنس تھی، جس میں کوئی واضح اور ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کیونکہ تنظیم کے دو اہم ملکوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان سرد جنگ جیسی کیفیت ابتدا ہی سے بہت سے معاہدوں کو عملی شکل دینے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو ابتدائی دو دنوں تک پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کو نظر انداز کیے رکھا۔ پھر اختتامی تقریب میں ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کیا اور اپنے اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔

کیونکہ اسی روز صبح کے وقت LoC پر فائرنگ کے نتیجے میں حالات کشیدہ ہو چکے تھے۔ کانفرنس کے دوران پاکستان نے چین کی تنظیم میں شمولیت کی پرزور حمایت کی، مگر بھارت نے اسے ویٹو کر دیا۔ اسی طرح بھارت کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ گو کہ اختتامی اجلاس میں 36 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا، جو محض واجبی سے نکات پر مشتمل ہے، اس میں کوئی ایسا نکتہ نہیں جو اس خطے کے عوام کے لیے فوری اور براہ راست فوائد کا ذریعہ بن سکے۔

جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات اور سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی تعاون کا تصور انگریز کے اس خطے سے جانے کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان مختلف نوعیت کے تنازعات پیدا ہو گئے، جس کی وجہ سے خطے کے اہل دانش، سرگرم سیاسی کارکنوں اور متوشش شہریوں کی اس خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ 1980ء کے عشرے میں جب دنیا بھر میں سوچ کی تبدیلی آ رہی تھی اور علاقائی اتحاد قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، بنگلہ دیش کے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الرحمان نے سارک کا تصور پیش کیا۔

ابتدا میں بھارت اس تصور کا مخالف تھا اور وہ تنہا (Solo flight) پرواز کے ذریعے ترقی کے مدارج طے کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ مگر افغانستان میں پیدا شدہ صورتحال نے بھارت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی نے افغانستان میں شروع ہونے والی لڑائی اور افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پر تاریخی بیان دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’پانچ ہزار برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو فوجیں اور قافلے درہ خیبر عبور کر کے برصغیر میں داخل ہوئے، وہ کبھی واپس نہیں گئے۔‘‘ اس خوف نے بھارت کو علاقائی تعاون کی تنظیم کا حصہ بننے پر مجبور کیا۔ اپریل 1981ء میں جنوبی ایشیا کے 7 ممالک کے وزرائے خارجہ نے کولمبو (سری لنکا) میں بیٹھ کر اس کے خدوخال تیار کیے۔ پھر دسمبر 1985ء میں ڈھاکا کے مقام پر ہونے والی پہلی سربراہ  کانفرنس میں سائوتھ ایشیا ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (SAARC) کا قیام عمل میں آیا۔

اس تنظیم کے مختلف اجلاس ہوتے رہتے ہیں۔ وزرائے خارجہ کے اب تک 36 اور 18 سربراہی اجلاس ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تنظیم خطے کے دو بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کی مقتدر اشرافیہ اور منصوبہ سازوں کے غلط اور منافقانہ فیصلوں کے سبب گزشتہ 30 برسوں سے محض نشستند، گفتند اور برخاستند کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہے۔

جنوبی ایشیائی عوام کو جن ان گنت مسائل کا سامنا ہے، ان میں متشدد مذہبیت (Religiosity)، کمیونلزم، فرقہ واریت، شائونزم اور ذات کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے محروم طبقات جن میں دلت، نچلی جاتیوں کے قبائل، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی جمہوری اقدار کے پروان چڑھنے اور انصاف اور برابری پر مبنی معاشرے کے قیام میں رکاوٹ ہے۔

پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کا جنگجویانہ Mindset انھیں اسلحہ کی دوڑ پر اکساتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک اپنے وسائل کا بڑا حصہ حساس اور جوہری اسلحہ کے انبار لگانے میں صرف کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں خطے کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت، افلاس، بھوک اور ننگ کا شکار ہے۔ سماجی ترقی کے لیے وسائل کی کمیابی کے نتیجے میں ہر سال خط افلاس سے نچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حکمرانوں اور منصوبہ سازوں  کی جنگجویانہ خصلت اور منافقانہ روش خطے میں باہمی تعاون اور علاقائی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکمرانوں کی مصلحت کوشی اور بے دلی کو دیکھتے ہوئے سماجی تنظیموں نے خطے کے عوام کو درپیش مشترک مسائل اور ہر ملک کے انفرادی معاملات کی ترجمانی کرنے اور ان کے حل کے لیے سارک ممالک کے سربراہاں پر دبائو ڈالنے کے لیے 1994ء میں عوامی سارک یعنی Peoples’ SAARC قائم کی۔

اس تنظیم کے قیام کا مقصدسارک ممالک کی حکمران اشرافیہ کو یہ باور کرانا ہے کہ علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل کرنا کسی بھی ملک کے لیے آسان نہیں ہے۔ لہٰذا تنازعات کو صائب طریقے سے حل کیا جائے یا ان تنازعات کو وقتی طور پر پس پشت رکھ کر باہمی تعاون کے ان نکات پر توجہ مرکوز کی جائے، جن کے نتیجے میں معاشی ترقی کے اہداف حاصل ہو سکیں اور عوام کو مختلف نوعیت کے مسائل سے چھٹکارا مل سکے۔

اس مرتبہ بھی 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس سے دو روز قبل (22 سے 24 نومبر) کٹھمنڈو ہی میں خطے کی سول سوسائٹی کے نمایندے جمع ہوئے اور انھوں نے خطے کے عوام کے جذبات و احساسات کی پیروی (Advocacy) کرتے ہوئے 24 نکاتی اعلان نامہ جاری کیا جس میں محنت کشوں، کسانوں اور ماہی گیروں سمیت معاشرے کے مختلف محروم طبقات جن میں مذہبی اقلیتوں، خواتین اور نچلی جاتیوں بالخصوص دلت کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اس کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کرنے پر زور دیا۔ پیپلز سارک کے شرکاء نے نیو لبرل معاشی ماڈل کو رد کرتے ہوئے محنت کشوں اور معاشرے کے غریب طبقات کے لیے معاشی انصاف پر مبنی پالیسی سازی پر زور دیا۔

شرکا کا کہنا ہے کہ خطے میں بڑھتی ہوئی متشدد مذہبیت، کمیونلزم ، شاونزم اور فرقہ واریت جمہوریت اور جمہوری اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ عوامی سارک کے شرکاء کے خیال میں امن، سلامتی، مساوات اور خوشحالی کے لیے جمہوری اداروں کی تشکیل نو ضروری ہو چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے جمہوری عمل کو شراکتی بنایا جائے اور اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک بامقصد منتقلی اور اقتدار و اختیار میں مناسب فاصلہ پیدا کیا جائے، تا کہ سماجی ترقی کے عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔

عوامی سارک کے شرکا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر ریاستیں جو دفاعی اقدامات کر رہی ہیں، اس کے نتیجے میں معاشرے میں فوج گردی (Militarisation) کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ایسے سیاہ قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں، ظالمانہ اور سفاکانہ ہیں اور جن کے نتیجے میں ریاستی اہلکار زیر حراست ملزمان سے اقبال جرم کے لیے ایذا رسانی اور زنا بالجبر جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، اور نتیجتاً ماورائے عدلیہ قتل جیسے سنگین جرائم سرزد ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین اور بچیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور زیادتیوں میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی میں بڑھتا ہوا اضافہ بھی خطے کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے، جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ عوامی سارک کے شرکاء نے سارک سربراہان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ روزگار کا حق، سماجی تحفظ (Social Security)، تعلیم، صحت اور سماجی ترقی تک عوام کی رسائی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور سرمایہ دار دنیا کے متعارف کردہ ترقی کے نام نہاد اور غیر پائیدار ماڈلز سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ چونکہ اگلی سربراہ کانفرنس 2016ء میں پاکستان میں منعقد ہو گی، لہٰذا P-SAARC بھی پاکستان میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔