داعش، مشرق وسطیٰ اور ہم

زمرد نقوی  پير 1 دسمبر 2014
www.facebook./shah Naqvi

www.facebook./shah Naqvi

بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے خطے میں بھی دور رس تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر اوباما نے ایک خفیہ حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد افغانستان میں امریکی جنگی مشن2015ء میں بھی جاری رہے گا۔

حالانکہ اس سے پہلے قطعیت کے ساتھ یہ طے تھا کہ امریکی فوجیں 2014ء کے آخر تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور صرف ایک محدود تعداد تقریباً دس ہزار کی نفری باقی رہ جائے گی۔ افغان افواج کی تربیت اور القاعدہ کی تلاش ان کی ترجیحات میں شامل ہوں گی۔ کہا جاتا ہے کہ سابقہ فیصلے کو تبدیل کرنے میں امریکی محکمہ دفاع پینٹا گان کا دباؤ شامل ہے کیونکہ  امریکی فوج افغانستان میں اپنے بقیہ مشن مکمل کرنے کی اجازت چاہتی ہے۔

افغان امریکا سیکیورٹی معاہدے کے بعد یہ بہت اہم تبدیلی ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ کرنے کی امریکا سر توڑ کوشش کے باوجود ناکام رہا۔ افغانستان میں نبرد آزما فوجی جرنیلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ امریکی فوج طالبان اور القاعدہ کے خلاف اپنے نامکمل مشن کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں طالبان کو امریکی فضائیہ کے جدید ترین طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا جائے گا۔

بہر حال طالبان کے لیے یہ ایک بہت بری خبر ہے۔ خطے میں رونما ہونے والا کوئی غیر معمولی واقعہ افغانستان میں امریکی فوجی آپریشن میں مزید توسیع کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تازہ ترین امریکی فیصلہ عراق میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ یعنی اب مستقبل میں امریکا خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا‘ یعنی اب داعش خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا جواز بنے گی۔ پہلے امریکا مسلم علاقوں میں شدت پسند دہشت گرد گروہ تخلیق کرتا ہے۔

اس کے بعد جب امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو عالمی برادری کی حمایت سے خود وہاں پہنچ جاتا ہے۔ جیسے ماضی میں طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے ہوا۔ اب داعش کے حوالے سے بھی وہی کھیل دہرایا جا رہا ہے۔ پچھلے تیس سالوں سے یہی ڈرامہ ہو رہا ہے۔ پہلے طالبان پھر القاعدہ کو۔ اب داعش۔ نعرہ ان سب کا امریکا کے خلاف جہاد ہے۔ لیکن یہ جہاد مسلم دنیا میں ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپی دنیا مکمل طور پر محفوظ ہے۔ جو تباہی و بربادی ہے وہ مسلمان ملکوں میں ہو رہی ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں اب تک کم از کم 50 لاکھ سے زائد مسلمان مارے جا چکے ہیں۔

اتنے ہی زخمی اور کروڑ سے زائد تباہ و برباد اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ سارا کا سارا نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو بے تحاشا بے دردی سے قتل کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت اس درجہ پر پہنچ چکی ہے کہ انسانیت بھی کانپ اٹھی ہے۔ چشم فلک نے ایسا منظر کم ہی دیکھا ہوگا۔

وحشت بربریت کی انتہا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بے دریغ قتل کرنے کے باوجود اس کے جذبہ انتقام کی تسلی نہیں ہو پاتی تو وہ اپنی وحشت کو تسکین دینے کے لیے دوسرے مسلمان کے کٹے ہوئے سر کو اپنی ٹھوکروں پر رکھتے ہوئے ان سے فٹ بال کھیلتا ہے۔ جن پر رحم آ جاتا ہے۔ ان کی گردنوں کو سامنے سے کاٹا جاتا ہے ورنہ دوسری صورت میں پشت سے گردن کاٹی جاتی ہے۔ ہڈی کی طرف سے گردن کاٹنے میں مفتوح کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دینا مقصود ہوتا ہے اور پھر اسے قتال فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ اس مقدس لفظ کی کسی طرح بے حرمتی ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

داعش نے جنم شام و عراق کے بحران سے لیا ہے لیکن اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلے ہیں اور اب وہاں سے نکل کر پاکستان اور افغانستان تک بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ آج ایران اور امریکا کے درمیان جو قریبی تعلق بننے جا رہا ہے‘ اس کی تہہ میں بھی داعش ہے۔ ایران بھی داعش کا ہدف ہے۔ ایران کی مذہبی حکومت اپنی وجہ سے داعش کی دشمن ہے‘ ادھر داعش عرب بادشاہتوں کے بھی خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری عرب بادشاہتیں داعش کے خلاف متحد ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کا سامنا مشرق وسطیٰ کو ہے۔ اس خطے میں داعش اہم طاقت بن گئی ہے۔

ترکی بھی داعش کے خلاف ہے۔ اس خطے میں امریکا کے بے پناہ مفادات ہیں۔ افغانستان میں بھی امریکی مفادات ہیں‘ ایران کے بھی اس خطے میں مفادات ہیں‘ اس  طرح امریکا‘ ایران اور سعودی عرب بھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ مستقبل میں اس خطے میں داعش کا کردار بڑھے گا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکا‘ ایران اور سعودی عرب میں قربت بڑھے گی‘ مفادات بھی کیا چیز ہے‘ کل تک امریکا ایران کی خلاف تھا اور ایرانی مذہبی حکومت کے نزدیک امریکا بزرگ شیطان تھا‘ آج وہی امریکا اور ایران ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب بھی ایک دوسرے سے دور تھے لیکن داعش ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کا سبب بن رہی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔

وہ تبدیلیاں جن کا آغاز 65ء 71ء میں ہوا۔ وہ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں 15ء اور  16ء میں داخل ہو جائیں گی۔

سیل فون:0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔