سندھ کو سوگوار کرجانے والا مولانا

عمر قاضی  پير 1 دسمبر 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

پھر وہی نامعلوم افراد… پھر وہی فائرنگ… پھر ایک رہنما کا خون۔

اس بار فائرنگ کا یہ واقعہ سندھ کے مشہور شہر سکھر میں ہوا، جہاں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا خالد محمود سومرو فجر کی نماز ادا کررہے تھے کہ نامعلوم دہشتگردوں نے ان پر گولیوں کی بارش کردی اور ان کا سفید لباس ان کے خون میں سرخ ہوگیا۔

پولیس اور پریس نے تو صرف اتنا بتایا کہ مولانا خالد محمود سومرو پر حملہ سکھر کے سائٹ تھانے کی حدود میں واقع گلشن اقبال میں ہوا۔ ان پر کل گیارہ گولیاں فائر کی گئیں جن میں سے چار گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوگئیں اور جب انھیں اسپتال منتقل کیا جارہا تھا تب وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ مولانا خالد محمود سومرو پر حملہ کرنے والوں کی تعداد چار بتائی جا رہی ہے۔ وہ سفید کار میں سوار ہوکر آئے تھے، ایک شخص کار میں بیٹھا رہا جب کہ تین افراد مسجد میں داخل ہوئے، ان تینوں میں سے ایک شخص نے مولانا خالد محمود سومرو کی نشاندہی کی اور دو افراد نے ان پر گولیاں برسائیں۔

حملہ آواروں نے مسجد میں موجود دیگر نمازیوں کو خاموش رہنے کو کہا اور وہ اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کے بعد ہمیشہ کی طرح فرار ہوگئے۔ حالانکہ وہ رات کی تاریکی بھی نہ تھی۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے اور کچھ دکاندار اپنی دکان کھولنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس وقت لوگ ٹی وی نہیں دیکھتے۔ مگر ان کو اس المناک واقعے کی خبر موبائل فون پر میسیج کی صورت ملی۔

اس طرح شمالی سندھ صبح کے وقت آباد ہونے کے بجائے ویران ہوتا گیا۔ سندھ میں قائم مدرسوں کے طالب عالم نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور راستے سنسان ہوگئے۔ ٹی وی چینلوں کے رپورٹرز کو صبح جلد بیدار ہونا پڑا اور وہ اس احتجاج کو کور کرنے لگے۔

اس طرح سندھ کی سیاست میں ایک گرجتی ہوئی آواز خاموش ہوگئی، اور اس شخص کو اپنے شہر لاڑکانہ میں سپرد خاک کیا گیا اور اس شخص کی شہادت کی خبر سندھ میں ان لوگوں کو بھی سوگوار کرگئی جو لوگ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سیاست اور نظریے کے مخالف تھے۔ مگر سوشل میڈیا پر ان کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ جذبات اس سے پہلے کسی مولوی یا مولانا کے لیے سندھ میں نہ دیکھے گئے اور نہ سنے گئے۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مولانا خالد محمود سومرو سندھ کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے ہر مصلحت کو بھول جاتے تھے۔

سندھی میڈیا میں لبرل خیالات کے صحافی زیادہ ہیں۔ اس لیے دینی سیاست کرنے والوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ انھیں مناسب کوریج نہیں ملتی۔ مگر اس قسم کی شکایت مولانا خالد محمود سومرو کو نہیں تھی۔ کیوں کہ انھیں سندھی میڈیا میں ہمیشہ بہت اچھی کوریج ملی اور نہ صرف یہ کہ ان کی میڈیا ٹیم اچھی تھی بلکہ ان کے سندھی میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے۔

مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں کہ جب وہ سندھ کے حقوق کے بارے میں قوم پرستوں کے جلسوں میں تقریر کیا کرتے تب کسی کو نہیں لگتا کہ وہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ہیں۔ وہ سب سندھی جو احساس محرومی کی وجہ سے سندھی قوم پرستی کو سب سے اچھا نظریہ سمجھتے ہیں انھیں وہ خالد محمود سومرو اپنا لگتا جنہوں نے کالاباغ ڈیم سے لے کر سندھ میں موجود بدامنی تک ہر ناانصافی کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کی سیاست کی سرزمین لاڑکانہ تھی۔ انھوں نے شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ انتخابی مقابلے بھی کیے۔ مگر آج جب میں سندھ کے جذباتی نوجوانوں کے الفاظ سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ویب سائٹ ’’فیس بک‘‘ پر پڑھتا ہوں تب مجھے لگتا ہے وہ بھٹو خاندان اور اس کے بعد بشیر قریشی کے بعد لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسے ’’شہید سندھ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اس سے اپنی عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کی وہ مڈل کلاس جو سیاسی اور ادبی دنیا سے تعلق رکھتی ہے وہ اپنے خیالات میں بہت لبرل ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ساری لبرل کلاس آج ایک مولانا کی شہادت پر سراپا احتجاج ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہر احتجاج مخصوص وقت تک جاری رہتا ہے۔ یہ احتجاج بھی سڑک پر جلتے ہوئے ٹائر کی طرح کچھ دیر کے بعد بجھ جائے گا مگر جب تک یہ احتجاج جاری ہے تب تک ہمیں سندھ کی سرزمیں سے اس خیال کی خوشبو آرہی ہے کہ اگر کوئی شخص مقامی مسائل کو اہمیت دیتا ہے تو لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ خالد محمود سومرو جنہوں نے ابتدائی تعلیم تو میڈیکل کے حوالے سے حاصل کی۔ اس لیے انھیں ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ مگر انھوں نے سندھ کے معاشرے میں موجود مسائل کو ختم کرنے کے سلسلے میں کبھی پارٹی پالیسی کو رکاوٹ بننے نہیں دیا۔

وہ ہمیشہ سندھ میں موجود جاگیرداری پر سخت تنقید کرتے اور انھیں معلوم تھا کہ جرم کو جب تک سماجی اور سیاسی سہارا نہیں ملتا تب وہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے مجرموں کو تحفظ دینے والے وڈیروں اور سرداروں کو ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ اسلامی انقلاب کا خواب ضرور دیکھتے تھے مگر ان کا اسلامی انقلاب ان کی دھرتی کے لوگوں کے بنیادی مسائل سے جڑا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ بدامنی کے خلاف احتجاج کرتے۔

انھوں نے معاشرتی انصاف کو اہمیت دی۔ انھوں نے معاشی اصلاح کو ضروری قرار دیا۔ انھوں نے سندھ میں موجود احساس محرومی کی حقیقت کو سمجھا اور قوم پرستوں سے دوری رکھنے کے بجائے ہمیشہ ان سے دوستانہ مراسم استوار کیے۔ اس لیے یہ محض ایک گمان ہے کہ انھیں اپنی پارٹی میں بھی ایک قوم پرست مولانا کے طور پر جانا جاتا ہوگا۔ مگر انھوں نے اپنے حلقے میں ہونے والی تنقید کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ انھیں جب بھی کوئی دعوت ملتی تو اپنے خیالات کا اظہار کرنے پہنچ جاتے۔

ڈاکٹر خالد محمود سومرو ایک نظریاتی رہنما تھے اور نظریاتی لوگ جغرافیہ کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی نظر میں اہم نظریہ ہوتا ہے۔ مگر خالد محمود سومرو کے دل میں اپنی دھرتی کے لیے محبت تھی۔ اس لیے دھرتی کو بھی اس سے محبت تھی۔ وہ محبت اس وقت امڈ آئی جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہوگئے اور جب ان کے جسد خاکی کو سپرد خاک کرنے کے لیے سکھر سے لاڑکانہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تب سوشل میڈیا اور موبائل فون پر ابھرنے والے الفاظ میں یہ الفاظ بھی شامل تھے کہ ’’شہیدوں کے شہر لاڑکانہ میں ایک اور شہید کا اضافہ‘‘۔

سندھ ایک عجیب سرزمین ہے۔ یہاں لوگ سیاسی اختلافات کو بہت بڑی اہمیت دیا کرتے ہیں۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس دھرتی کے لوگوں نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا ہے۔ انھوں نے کٹھن حالات میں بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ سندھ میں پیری مریدی بہت عام ہے مگر اس سرزمین پر یہ نعرے بھی گونجے ہیں کہ ’’جان مرشد کے لیے مگر ووٹ بھٹو کے لیے‘‘ اور پیپلز پارٹی کے مخالفین میں سب سے زیادہ قوم پرست ہیں۔ سندھ کے لوگ انتخابات میں قوم پرستوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ تک نہیں دیا کرتے مگر جب قوم پرست رہنما جی ایم سید یا ان کے بعد ان کا ہونہار پیروکار بشیر قریشی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو سندھ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

آج وہی سندھ ہے اور وہی اس کی آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھیں۔ مگر اس بار سندھ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس خالد محمود سومرو کے لیے ہیں جن کے جنازے پر سندھ کے کلچرل پرچم اجرک کے رنگ سب سے زیادہ دیکھے گئے۔ وہ اہلیان سندھ جو اپنے نظریات کے حوالے سے مذہبی خیالات کے مخالفین ہیں وہ بھی خالد محمود سومرو کے المناک قتل پر اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپا نہیں پا رہے۔ اس طرح یہ تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ اس بات کی مثال سندھ کی سیاست میں ہمیشہ پیش کی جائے گی کہ لبرل سندھ ایک مولانا کی شہادت پر سوگوار ہوگیا۔

جب ملکی سیاست میں سندھ ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور جب اس کا احتجاج شدید ہوجاتا ہے تب سندھ کو سمجھنے کے لیے دانشور قسم کے لوگوں کو زحمت دی جاتی ہے۔ اس وقت تو پاکستان کی سیاست میں سیاسی تبدیلی کی سزرمین پنجاب بن گئی ہے۔ مگر جب بھی یہ اعزاز سندھ کے حصے میں آئے کیا تب سندھ کو سمجھنے کے لیے اس بات پر سوچا جائے گا کہ سندھ وہ سرزمین بھی ہے جو ایک مولانا کی شہادت پر سوگوار ہوگئی تھی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔