(پاکستان ایک نظر میں) - غیر روایتی دورہ امریکہ

شاہد کاظمی  پير 1 دسمبر 2014
آرمی چیف کے حالیہ دورہِ امریکا میں شاید یہ باور کروادیا گیا ہے کہ خطے میں پاکستان کا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اِس بار دورے کے دوران ’Do More‘  کی گردان سننے کو نہیں ملی۔ فوٹو: اے ایف پی

آرمی چیف کے حالیہ دورہِ امریکا میں شاید یہ باور کروادیا گیا ہے کہ خطے میں پاکستان کا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اِس بار دورے کے دوران ’Do More‘ کی گردان سننے کو نہیں ملی۔ فوٹو: اے ایف پی

1950 کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان صاحب کے دورہِ امریکہ سے آج تک پاکستان کے کسی بھی سربراہ یا اعلیٰ عہدیدار کا دورہِ امریکہ پوری دنیا کے میڈیا کی نظروں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کا دفاعی و معاشی حوالے سے ایک اہم خطے سے تعلق ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے دورہِ امریکہ کے بعد سے پاکستان کا جھکاؤ نسبتاً امریکہ کی طرف ہی رہا ہے۔ بہت کم ایسے مواقع آئے  کہ یہ جھکاؤ کسی اور طرف گیا۔ جیسے بھٹو کے دور میں کچھ عرصے کے لیے یہ تاثر ابھرنا شروع ہوا کہ شاید روس سے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔  اس کے علاوہ کوئی ایسا خاص موقع نظر نہیں آتا جس سے ظاہر ہو کہ امریکہ کے اثر سے نکلنے کی کوشش کی گئی ہو۔ ایوب خان کے 1961 کے دورہِ امریکہ میں جو استقبال کیا گیا ویسا شاید ہی اب تک کسی پاکستانی سربراہ یا عہدیدار کو ملا ہو۔ہو سکتا ہے یہ استقبال امریکہ نے اپنے مقاصد کے لیے ہی کیا ہو لیکن بہر حال وہ ایک فقید المثال استقبال ضرور تھا۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کسی قدر پاکستان کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

اس کے بعد آنے والے ضیاء اور بھٹو دور میں ملا جلا رجحان رہا کیوں کہ ان ادوار میں امریکہ کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں کچھ مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ حالانکہ کے ضیاء دور میں سوویت یونین کو توڑنے میں پاکستان کا کردار شاید امریکہ کے لیے ہمیشہ احسان مند رہنے کا سبب بنتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ایک طویل عرصے تک وطن عزیز میں اقتدار میوزیکل چیئر کا کھیل بن گیا۔ بی بی اور میاں صاحب نے بالترتیب دو دو مرتبہ اقتدار کے ایوانوں کی سیر کی اور دونوں ہی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ سوائے 28مئی1998جب میاں صاحب نے قدرے جرات کا مظاہرہ کیا۔ بھٹو دور کے بعد ایک نئی صورتحال یہ سامنے آئی کے عالمی میڈیا اور ممالک پاکستان کی سیاسی قیادت کے دوروں کو کم اور فوجی قیادت کے دوروں کو زیادہ اہمیت دینے لگی ۔ اس کی وجہ فوج و حکومت میں تناؤ کو گردانا جاتا ہے۔ لیکن تمام تجزیہ کار و ماہرین اس بات میں کوئی دو رائے نہیں رکھتے کہ پاکستان کی بنیادیں اس وقت ایک مضبوط دفاع کی وجہ سے کھڑی ہیں۔
پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے گریباں چاک کرنے میں ہی مصروف رہے جس کی وجہ سے مسلح افواج دفاع کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح خارجی سطح پر بھی پاکستان کا موقف پہنچانے میں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ پرویز مشرف دور کے بعد فوج پر شدید تنقید کے نشتر بھی برسائے گئے۔ اور اسے طرح طرح کے مسائل میں بھی کھینچا گیا۔ جس کا اثر نہ صرف عالمی سطح پر جگ ہنسائی کی صورت میں ہوا۔ بلکہ فوج کے اندر بھی بے چینی کی فضاء پیدا ہوئی اور اس بے چینی سے بلاشبہ جوانوں کے حوصلوں پر بھی قدغن لگی ۔

کیانی صاحب نے جب فوج کی قیادت سنبھالی تو ان کا زیادہ عرصہ فوج کی ساکھ بحال کرنے میں ہی صرف ہوا۔ اس تمام عرصے میں جب بھی کوئی فوجی یا سیاسی سربراہ بیرون ملک بالخصوص امریکہ جاتا اس کو مزید تعاون کا پروانہ تھما دیا جاتا۔ کیانی صاحب نے مشکل حالات میں فوج کی قیادت کی چھڑی جنرل راحیل شریف کے سپرد کی ۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے نہ صرف فوج کا سیاسی چہرہ محو کرنا تھا بلکہ پاک افغان معاملات، انڈیا کے ساتھ معاملات پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا بھی تھا۔ جنرل راحیل شریف کا نومبر کے آخر میں کیا گیا امریکہ کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی گردانا جاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ کو اس درجہ پروٹوکول دیا گیا اور اس حد تک گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت جنرل راحیل شریف کو خصوصی اہمیت دیتی نظر آئی۔ مختلف دفاعی تنصیبات اور اداروں کے دورے کے موقع پر بھی جنرل راحیل شریف کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ بے شک کسی بھی ملک کی فوجی قیادت کو پروٹوکول دینا طے شدہ روایات ہیں۔ لیکن جس طرح امریکہ ہمارے حکمرانوں اور فوجی قیادت کو اپنی جاگیر سمجھ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرتا رہا اس سے ایک نخوت پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن جنرل راحیل شریف کو موجودہ دورہء امریکہ کے موقع پر یہ تاثر زائل ہو گیا۔ ہمیشہ سے عالمی برادری کا بالعموم اور امریکہ کا بالخصوص یہ رویہ رہا کہ وہ ہم پر اپنے فیصلے تھوپتے رہے۔ لیکن موجودہ آرمی چیف کے دورہء امریکہ میں اپنا موقف جرات مندانہ طریقے سے پیش کرنے کے بعد ان کا وقار نہ صرف عالمی برادری میں بڑھا ہےبلکہ ملکی سطح پر بھی ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔

آرمی چیف کے دورہء امریکہ کو خصوصی اہمیت اس لیے بھی دی جا رہی تھی کہ 2014 کے بعد افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کی واپسی کے بعد کی صورت حال عالمی طاقتوں کے لیے بہت اہم ہے اور پاکستان کے لیے بھی محفوظ پاک افغان سرحد یقیناًاہمیت کی حامل ہے۔ اندرونی سطح پر ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان میں پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت بہت اہم مسئلہ ہے اور افغانستان کی سمت سے سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری یقیناًافغان و نیٹو فورسز کی ہے۔ آرمی چیف کے موجودہ دورہء امریکہ سے شاید امریکہ یہ سمجھ چکا ہے کہ جب تک ہمارے مفادات کا تحفظ نہیںہو گا تب تک ہم خود کو پرائی آگ میں نہیں جھونک سکتے ۔

غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان کے آرمی چیف کے دورہء کے موقع پر ’’Do More‘‘کی گردان سننے کو نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ امریکہ کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ خطے میں ہمارا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں ہے۔ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک اور عالمی برادری میں ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام کے رویے آرمی چیف کے دورہء امریکہ کے موقع پر کچھ بدلے نظر آئے۔ اور یہ نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ اور پاکستان کا وقار اقوام عالم میں یقیناًاس دورہ سے بہتر ہوا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔