اے خنک شہرے

رفیع الزمان زبیری  پير 1 دسمبر 2014

ایک مدت سے محمد اقبال خاں کو حرمین شریفین کی زیارت کی آرزو تھی، پھر جب اس آرزو کی توفیق الٰہی سے تکمیل ہوئی تو انھوں نے حجاز مقدس سے واپس آکر اپنے سفر سعادت کا حال لکھا۔ اس سفر نامے ’’اے خنک شہرے‘‘ کے تعارف میں وہ لکھتے ہیں ’’گو بنیادی عنصر سب کا ایک ہی ہے تاہم ہر دیکھنے والی آنکھ ہر شے کو اپنے انداز اور اپنے طور سے دیکھتی ہے۔ میں نے اس سفر کے دوران جو کچھ دیکھا اس کے بارے میں کوشش کی ہے کہ اسلوب بیان ایسا رکھوں کہ قاری محسوس کرے کہ وہ بھی میرے اس سفر میں شریک ہے۔‘‘

محمد اقبال خاں فیصل آباد سے چلے، کراچی پہنچے، یہاں سے پرواز کی۔ ساڑھے 3گھنٹے میں جدہ پہنچے لیکن جدہ ایئرپورٹ سے باہر آنے میں ساڑھے 4گھنٹے لگ گئے۔ لکھتے ہیں ’’جدہ سے مکہ جاتے ہوئے رہوار خیال صدیوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ گردونواح پر نظر ڈالتے ہوئے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ابوالانبیاء ان سنگلاخ پہاڑوں، وادیوں کو طے کرتے، راستہ بناتے، اونٹ کی مہار تھامے اپنی رفیقۂ حیات اور شیر خوار بچے کے ہمراہ کس طرح یہاں تک پہنچے ہونگے۔‘‘

رحل والے پل سے گزر کر سڑک مکہ کی طرف مڑی، یہاں ایک دل آویز چوک، پھر پارک میں بنی ہوئی خوبصورت عمارتیں، دور ایک بے حد بلند عمارت، ڈرائیور بتاتا ہے کہ یہ مکہ ٹاور ہے اور عین حرم کے سامنے ہے۔ اقبال حرم کے مسافر تھے، جیسے جیسے حرم قریب آتا گیا ان کا دل اچھلتا گیا یہی تو وہ مقام تھا جس کے لیے ان کی آنکھوں نے نہ معلوم کتنے خواب بنے تھے۔

وہ حرم شریف میں داخل ہونے کا حال یوں بیان کرتے ہیں ’’شام ہوچلی ہے، رنگ و نور کی ایک بارش ہے، جس نے تمام منظر کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ درمیان میں خانہ کعبہ اور اس کے گرد زائرین دیوانہ وار اور پروانہ وار اپنی وار فتگی اور حاضری کا اعلان کررہے ہیں۔‘‘

اقبال خاں نے طواف کیا، مقام ابراہیم پر آکر دوگانہ ادا کیا۔ یہاں پہنچ کر بے ساختہ خیال آیا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں ظہور اسلام کے بعد کفار کو سنانے کے لیے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے قرآن پاک کی تلاوت کی اور کفار کے تشدد کے باوجود وہ قرآن پڑھتے رہے تا آنکہ بے حال ہوکر نہ گرپڑے۔ دوگانہ ادا کرکے محمد اقبال خاں نے حجر اسود کا پھر استلام کیا اور پھر صفا و مروہ پر جاکر سعی کی۔ زم زم سے شاد کام ہوئے اور حلق کرایا۔ عمرہ ادا ہوگیا تو رب جلیل کا شکر ادا کیا۔

اگلی صبح اقبال خاں بیت الحرام سے باہر نکلے، سڑک پر ٹیکسیوں کی قطاریں لگی تھیں۔ ڈرائیور زیارۃ زیارۃ کی آوازیں لگارہے تھے۔ لکھتے ہیں ’’ایک ٹیکسی والے سے پوچھتاہوں کہ کون کون سی زیارت کراؤگے؟ جواب دیتا ہے کل زیارۃ، غار ثور، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، جمرات، قربان گاہ اسماعیل، جنت المعلیٰ، جبل نور، دل دیوانہ اس ترغیب آمیز گفتگو سے متاثر ہوکر اس کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ کشادہ سڑکوں اور دو رویہ سایہ دار درختوں کے درمیان گاڑی دوڑاتے ہوئے میرا رہنما مجھے جمرات کی زیارت کراتا ہے اور میرا ذہن صدیوں پیچھے پلٹ جاتا ہے۔

جب ابوالانبیاء ننھے اسماعیل کی انگلی تھامے مقام حجر میں اپنی قیام گاہ سے نکلے ہوں گے۔ تب یہ دل آویز اور دلکش کشادہ ہائی وے کہاں ہوگی! حکم ربی کے پابند اور تابع، باپ اور بیٹا سنگلاخ راستوں کو طے کرتے ہوئے کسی ایسے مقام کی تلاش میں ہوں گے جہاں آمد و رفت نہ ہو، اﷲ کی مشیت سے سرشار محبوب رب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پسر عزیز کو قربان کرنے کے لیے کوئی موزوں جگہ دیکھ رہے ہوں گے کہ شیطان لعین بہ صورت ہمدرد نمودار ہوا ہوگا اور اوالعزم پیغمبر کو ورغلانے کی کوشش میں پتھر کھائے ہوں گے‘‘ یہ ایسا جذبہ اطاعت و استقامت تھا کہ باپ بیٹے کے عمل کو ابد تک کے لیے یادگار بنادیا گیا۔

محمد اقبال خاں نے منیٰ، مزدلفہ، جبل عرفات، جبل ثور، جبل نور اور جنت المعلیٰ کی زیارت کی اور قیام مکہ کی ساعتیں حرم کعبہ میں حاضریوں سے مبارک بنائیں پھر جب ان کے ٹریول ایجنٹ نے انھیں اطلاع دی کہ کل صبح حرم مدنی کے لیے روانگی ہے تو دل تڑپ اٹھا۔ مدینہ ’’جو ان کے خوابوں کی سرزمین ہے جس کی مٹی کے ذرے ذرے میں، ہواؤں میں، گرد و پیش میں، باغات میں اور میدانوں میں ان کے آقا و مولا کی خوشبو اور مہک ہے جس کے گنبد خضریٰ کے بوسے آنکھوں سے لینے کی ان کے دل میں تڑپ تھی‘‘ اب ان کی منزل تھی۔

اقبال خاں لکھتے ہیں ’’ہوسکتا ہے یہ میرے اپنے احساسات ہوں یا پھر ہر مسلمان بلا امتیاز ملک و ملت، رنگ ونسل اسی طرح سوچتا ہوں کہ گو ہم کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت ادا کرنے کے بعد مسلمان ہیں لیکن ہمارے دل مکے کے نام پر اس طرح نہیں دھڑک اٹھتے جیسے کہ مدینے کے نام پر ایام طفولیت سے ہی مدینہ کی محبت ہمارے رگ و پے میں سماجاتی ہے، ہواؤں کی خوشبو ہمیں مدینے کا پیغام دیتے ہے، مدینے والے کو ہم وہاں کے مسافروں اور قافلے والوں کی وساطت سے دیدہ و نادیدہ پیغام بھیجتے ہیں لیکن خود تاجدار مدینہ کے حکم کے مطابق سب سے بڑی سعادت حاضریٔ مسجد الحرام ہے۔‘‘

سو محمد اقبال خاں اب مکے سے مدینے جارہے تھے، ان کی گاڑی پہاڑوں اور وادیوں سے گزرتی ہوئی جب مدینے کی شہری حدود میں داخل ہوئی تو ان کی بے تاب نگاہیں ان بلند و بالا میناروں کو ڈھونڈتی رہیں جو حرم نبویؐ کا حصہ ہیں۔ وہ تو کچھ اور چاہتے تھے لیکن گاری کا ڈرائیور انھیں ہوٹل لے گیا جہاں انھیں ٹھہرنا تھا۔ لکھتے ہیں ’’ہوٹل سے ایک سڑک پارکرکے حرم نبویؐ کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔ اس رخ سے گنبد خضریٰ نہیں نظر آتا۔ میں باب ملک فہد سے مسجد نبوی میں داخل ہوجاتا ہوں۔ دبیز قالینوں، لا تعداد محرابوں سے گزرتا اس صحن میں جا نکلتاہوں جہاں گنبد خضریٰ اپنی تمام تر سادہ اور پرکشش دل آرائی سے نمایاں ہے۔ میرے قدم وہیں تھم جاتے ہیں۔‘‘

اقبال خاں مسجد نبوی کے اس حصے میں پہنچتے ہیں جسے ریاض الجنۃ کہا جاتا ہے۔ ادائے فرائض عبودیت کے بعد وہ مقصورہ شریف کی جانب بڑھتے ہیں جہاں مواجہہ شریف ہے۔ اب وہ اس بارگاہ عالی میں ہیں جہاں حاضری کا تصور بھی ان کے گوشۂ خیال میں سوائے مسرت و تمنا کے نہ تھا۔ یہاں انھیں اپنی کم مائیگی اور تہی دامنی کا خیال آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حوصلہ بھی ڈھارس دیتا ہے کہ اس مقام سے کون خالی ہاتھ گیا ہے۔ آپؐ کی ذات تو وہ کریم ذات تھی جو سب سے اچھا سلوک کرتی تھی آپؐ تو مصیبت زدوں کی دست گیری فرماتے تھے، ایسی شفیق و کریم ہستی انھیں اپنے در سے کیسے خالی ہاتھ لوٹادے گی۔ اقبال خاں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں۔

’’اے نبیؐ اﷲ میں لاچار ہوں، بے آسراہوں، تہی دست ہوں، مجھے یقین ہے آپؐ کے محاسن کریمانہ اور فیاضانہ مجھے بھی بے سہارا نہیں چھوڑیںگے لیکن اے نبیٔ رحمت آپؐ کے مواجہہ شریف سے ہٹنے سے قبل ایک درخواست ہے۔ آپ تو کریم ہیں، آپ کو تو تمام عالم نے صادق و امین مانا ہے تو ایک امانت میں بھی آپ کے پاس رکھوانا چاہتاہوں اور یہ امانت میری یہ تمنا ہے کہ جب میرا دم واپس ہو تو میری زبان پر آپ کا تعلیم کیا ہوا کلمۂ شہادت جاری ہوجائے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ میری یہ امانت وقت موعود پر انشاء اﷲ مجھے ضرور مل جائے گی۔‘‘

حضورؐ کو سلام پیش کرکے انھوں نے آپؐ کے دونوں رفیقوں، جناب صدیق اکبرؓ اور جناب عمرفاروقؓ کو سلام پیش کیا۔ صلوٰۃ و سلام کی ادائیگی کے بعد وہ مسجد سے باب البقیع سے باہر نکلے مگر باب جبرئیل پر پھر قدم رک گئے دل ابھی زیارت مواجہہ سے سیر نہیں ہوا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ کبھی ہوتا بھی نہیں۔

محمد اقبال خاں نے مدینہ شریف میں قیام کے دوران جنت البقیع پر جاکر نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ دعائے مغفرت کی ان مبارک ہستیوں کے لیے جو وہاں محو استراحت ہیں وہ شہدائے احد کے مزار پر بھی گئے۔ مسجد قبا گئے، مسجد قبلتین کی زیارت کی، جنگ خندق کے تاریخی مقام کی زیارت کے لیے جبل سلع گئے، کسی وقت یہاں سات مساجد تھیں، اب صرف مسجد فتح ہے جس میں تعمیر و توسیع پوری تھی۔

ان زیارات کا ذکر کرتے ہوئے اقبال خان لکھتے ہیں ’’دل کا جنون چین نہیں لینے دیتا، نبی اﷲ کی نسبت سے میں نے زیارات مدینہ ضرور کی ہیں لیکن میرا دل گنبد خضریٰ اور مسجد نبوی میں ہی اٹکا ہوا ہے، کچھ اس تصور سے بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا سارا مدینہ تو موجودہ توسیعات کے سبب سے مسجد نبویؐ میں شامل ہوچکا ہے، جنون زدہ میں جب مسجد نبوی میں ہوتا ہوں تو میرا قلب و ذہن ان گوشوں کو تلاش کررہا ہوتاہے جو دور نبوی کا حصہ تھے۔ گنبد خضریٰ کے نیچے امہات المومنین سیدہ عائشہؓ، سیدہ سودہؓ ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام سلمیٰؓ اور سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے حجرات تھے اور کچھ فاصلے پر ام المومنین سیدہ حفصہؓ کا حجرہ بتایاجاتا ہے۔‘‘

پھر مدینہ سے روانگی کا وقت ہے، مقدر نہ معلوم اب یہاں کب لائے اور لائے بھی یا نہ لائے، یہ سبز گنبد جو ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک حواس پر چھایا رہا ہے نہ معلوم اس کی زیارت کب اور کیسے ہوگی۔ حضورؐ سے محبت وہ واحد چیز ہے جس میں امیر، غریب، بوڑھا، بچہ، مرد و زن، گورے کالے، زرد و سرخ سب یکساں ہیں، واپس جاتے ہوئے زائرین کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز اور ہونٹ لرزاں ہیں، زبان پر الوداعی کلمات ہیں۔‘‘

الوداع اے سبز گنبد کے مکیں
الوداع اے رحمت للعالمیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔