- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو برانڈ ایمبیسڈر مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
چینی ارب پتی کی دریا دلی
غربت سے امارت تک کا سفر تو بہت سے طے کرتے ہیں مگر شیانگ شو ہُوا جیسی سخاوت اور دریادلی کا مظاہرہ کوئی کوئی کرتا ہے۔ شیانگ کا شمار چین کے امیرترین افراد میں ہوتا ہے۔
آج اس کے پاس دنیا کی ہر آسائش اور ہر نعمت موجود ہے۔ وہ اربوں میں کھیل رہا ہے مگر یہ دولت اسے وراثت میں نہیں ملی بلکہ اپنی محنت اور قسمت کے سہارے وہ اس مقام تک پہنچا ہے۔ شیانگ نے ایک عُسرت زدہ گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا خاندان مغربی چین کے شہر سِن یُوکی حدود میں واقع شیانگ کینگ نامی گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ والد روایتی کسان تھے۔ ان کے پاس بہت تھوڑی سی زمین تھی جس سے بہ مشکل گزربسر ہوپاتی تھی۔
شیانگ کے والد ہمدرد دل رکھتے تھے۔ گاؤں کے باسیوں کی مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ گاؤں کی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ ہمدردی کا یہ جذبہ اس گاؤں کے دوسرے باشندوں میں بھی موجود تھا۔ وہ مشکل وقت میں شیانگ کے خاندان کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مال دار بننے کے بعد شیانگ نے بھی انھیں یاد رکھا۔
غربت کے باوجود شیانگ کو اس کے والدین نے اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم دلائی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیانگ ملازمت کرنے لگا۔ مختلف نوکریاں کرنے کے بعد شیانگ نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تعمیراتی شعبے میں قدم رکھا۔ قسمت نے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔
دو عشروں کے بعد وہ چین کے مال دار افراد میں شمار ہونے لگا تھا۔ تعمیراتی شعبے میں اس کی کمپنی کا نام بن چکا تھا۔ پھر اچانک اسے لوہے اور اسٹیل کا کاروبار کرنے کی سوجھی۔ چناں چہ اس نے تعمیراتی شعبے کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار بھی شروع کردیا۔ یہ فیصلہ شیانگ کے لیے بے حد سُود مند ثابت ہوا اور اس کی دولت میں برق رفتاری سے اضافہ ہونے لگا۔
دولت کا انبار لگ جانے کے بعد شیانگ کو خیال آیا کہ اب گاؤں کے باسیوں کے احسانات کا بدلہ چُکانے کا وقت آگیا ہے۔ پانچ سال پہلے وہ اچانک اپنے آبائی گاؤں جا پہنچا۔ حیران کُن طور پر اس عرصے کے دوران گاؤں میں بہت زیادہ تبدیلیاں نہیں آئی تھیں، اور نہ ہی ان کے حالات بدلے تھے۔ گاؤں میں چند ایک ہی پُرانے لوگ بچے تھے۔ شیانگ نے ان سے اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے گرم جوشی سے اسے خوش آمدید کہا۔
شیانگ نے جب گاؤں کے لوگوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ انھیں لگژری فلیٹ بناکر دینے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ اس کی شکل دینے لگے۔ اور اس وقت ان کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا جب انھیں پتاچلا کہ اپنے گھروں کو پُرتعیش فلیٹوں میں تبدیل کرنے پر ان کی ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوگی۔
پانچ سال پہلے شیانگ کینگ چین کا روایتی گاؤں تھا مگر آج یہاں پرانے مکانات کے بجائے لگژری فلیٹوں کا سلسلہ نظر آتا ہے۔ شیانگ کا کہنا ہے کہ گاؤں کے لوگوں نے اس کے اہل خانہ کا بہت ساتھ دیا تھا۔ ان کے احسانوں کو فراموش کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا، وہ قدرت کا شکرگزار ہے کہ اسے ان لوگوں کے احسانوں کا بدلہ چُکانے کا موقع ملا۔
نئے شیانگ کانگ میں آج 72 خاندان پُرتعیش فلیٹوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ جن لوگوں کی شیانگ کے اہل خانہ کے ساتھ زیادہ قُربت تھی، انھیں شیانگ نے گاؤں کے ساتھ ہی ایک علیٰحدہ پروجیکٹ میں خوب صورت بنگلے بنواکر دیے ہیں۔ گاؤں کے بزرگوں اور ان لوگوں کو جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے یا جن کی آمدنی کم ہے، شیانگ کی جانب سے تین وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جارہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔