چار دن کی چاندنی

سلیم خالق  منگل 2 دسمبر 2014
skhaliq@express.com.pk

[email protected]

نیوزی لینڈ جیسی کمتر رینک ٹیم کے ہاتھوں شارجہ میں اننگز سے شکست، 5 روزہ میچ کا چار دن میں اختتام، دل ماننے کو تیار نہیں مگر حقیقت یہی ہے، آسٹریلیا کو دونوں ٹیسٹ میں باآسانی زیر کرنے والے پاکستانی پلیئرز کو اچانک کیا ہو گیا، پچ بھی مرضی کی تھی، موسم بھی اپنے ملک جیسا تھا پھر بھی کھلاڑیوں نے ہتھیار ڈال دیے، ہر کوئی حیران ہے، آسٹریلوی کرکٹر فل ہیوز کی  المناک موت کے بعد ایک دن وقفے سے جب میچ شروع ہوا تو پاکستانی بولرز بولنگ اور بیٹسمین بیٹنگ بھول گئے۔

وہ یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر جنھوں نے کینگروز کی ناک میں دم کیا ہوا تھا انھیں کیویز نے کریز سے باہر نکل کر چھکے لگائے، وہ بیٹسمین جو وکٹ پر آنے کے بعد جانے کا نام نہیں لیتے تھے، جنھوں نے مچل جانسن جیسے بولر کے پسینے چھڑا دیے وہ بولٹ کا سامنا نہیں کر سکے، مصباح نے تو شکست کا سبب ہیوز کی موت کو قرار دے دیا، حیرت کی بات ہے کہ کیویز تو آسٹریلوی بیٹسمین کے ساتھ کھیل بھی چکے تھے اور قریبی دوستیاں تھیں، وہ تو ٹور ادھورا چھوڑ کر جا رہے تھے مگر پی سی بی نے مالی خسارے کی دوہائیاں دے کر روکا۔

پلیئرز روتے ہوئے بھی نظر آئے مگر فیلڈ میں غم بھلا کر گیند کو ایسے ہٹ کیا جیسے اسی نے ہیوز کی جان لی ہو، مگر پاکستانی ٹیم نے اتنا غم دل سے لگا لیا کہ میچ ہی ہار گئے، ذہن اس جواز کو درست تسلیم نہیں کرتا، ایسا لگتا ہے کہ پلیئرز سہل پسندی کا شکار ہو گئے اور یہی بات انھیں لے ڈوبی۔

وقت نے ثابت کر دکھایا کہ آسٹریلیا سے 2 میچز کی فتح پر گرین کیپس کو ناقابل تسخیر سمجھ لینا درست نہ تھا، یقینی طور پر وہ جیت قابل رشک تھی، یونس خان، مصباح الحق، ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کی کارکردگی کو جتنا سراہا جائے کم ہے، مگر افسوس کہ اب کرکٹ اتنی زیادہ ہونے لگی کہ ایک دن جو کھلاڑی ہیرو ہو اگلے ہی روز زیرو بنا دیا جاتا ہے، یہ طریقہ ٹھیک نہیں، کسی کو زیادہ چڑھانا چاہیے نہ ہی گرانا۔

ہر طرف سے تعریف اور بورڈ کی جانب سے انعام پا کر کھلاڑیوں پر فتح کا خمار چھا گیا جس کا خمیازہ نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز کی برابری پر بھگتنا پڑا، اگر پاکستانی ٹیم 70، 80 رنز یا 4،5 وکٹ سے شارجہ ٹیسٹ ہارتی تو کوئی غم نہ ہوتا مگر اننگز کی شکست شرمناک ہے، مصباح الحق کو عمران خان سے بھی بڑا کپتان، سرفراز احمد کو ایڈم گلکرسٹ اور یاسر شاہ کو شین وارن قرار دینے والے نام نہاد ماہرین اب منہ چھپا کر بیٹھ گئے ہیں، ان سے یہی گذارش ہے کہ  چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کے بجائے قوم کو حقائق بتایا کریں اور پلیئرز کی بھی تعریف کرنے کے ساتھ خامیوں سے آگاہ کریں اسی میں ٹیم کی بھلائی ہے۔

حالیہ سیریز کی برابری میں اہم کردار دوسرے ٹیسٹ میں پاکستانی کپتان کی منفی سوچ کا بھی ہے، کیویز نے جراتمندانہ ڈیکلیئریشن کی مگر پاکستان نے جواب میں سرفرازاحمد جیسے جارح مزاج بیٹسمین کو جلد بھیجنے سے گریز کیا، درمیان میں بھی اننگزسلو ہی نظر آئی، اس منفی اپروچ کی وجہ سے وکٹیں گریں اور ٹیم ہارتے ہارتے بچی، اب تیسرے ٹیسٹ میں ناکامی لمحہ فکریہ ہے، تھنک ٹینک کو سوچنا چاہیے کہ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں، خصوصاً اوپننگ کے حوالے سے مسائل حل کیے جائیں، حفیظ کی کارکردگی قابل تعریف ہے، انھوں نے اپنے آپ کو ایک بار پھر منوالیا۔

اسی طرح انجرڈ ہونے سے قبل احمد شہزاد کا کھیل بھی بہتر تھا،ان دونوں کے ساتھ تیسرا اوپنر بھی میرٹ پر آنا چاہیے، شان مسعود پچاس فیصد ٹیلنٹ اور اتنا ہی سفارش پر کھیلتے ہیں، وہ خراب بیٹسمین نہیں لیکن ان سے اچھے کئی اوپنرز بڑے گھر سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں، چیف سلیکٹر دوستیاں چھوڑ کر میرٹ پر فیصلے کریں، اب جیسے ون ڈے سیریز کیلیے انھوں نے فواد عالم کو ہی ڈراپ کر دیا، ایک ایسا بیٹسمین جو اپنے کیریئر کے عروج پر ہے اسے یہ صلہ ملا، صرف دو میچز میں ناکامی کے بعد گھر بیٹھنا پڑے گا، حالانکہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں فواد 500 سے زائد رنز بنا کر ٹاپ 5 میں شامل ہیں۔

اگر باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا تو نئے لڑکے کیسے ملیں گے،یونس خان کے کیریئر سے کھیلنے والے چیف سلیکٹر  آسٹریلیا سے ٹیسٹ کی عمدہ پرفارمنس پر انھیں خود ہی ون ڈے ٹیم میں واپس لے آئے،اس پالیسی کے مطابق تو پھر مصباح کو ٹی ٹوئنٹی میں بھی کم بیک کرانا چاہیے، ہر کھلاڑی کیلیے الگ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ون ڈے میں پاکستان کی حالیہ کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے، البتہ نیوزی لینڈ نے میک کولم سمیت بعض اہم کھلاڑیوں کو آرام دے کر مصباح کی مشکل آسان کر دی ، فتح کا اچھا موقع مل گیا دیکھنا ہوگا کہ اس سے کتنا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔