ایک تحقیقاتی تھیسس

سعد اللہ جان برق  منگل 2 دسمبر 2014
barq@email.com

[email protected]

یہ بات تو سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہو گئی ہے بلکہ ہوچکی ہے کہ خدا کے فضل، برطانیہ کے کرم، امریکا کے رحم، آئی ایم ایف کی مہربانی اور اپنے لیڈروں میں خلوص کی فراوانی سے ہم ایک ایسے ’’چیونٹی کے گھر‘‘ میں رہتے ہیں جہاں ہر روز صبح دوپہر شام نئی نئی خوش خبریاں ایک سے بڑھ کر ایک مژدہ ہائے جاں فزا اور رنگ برنگے اعلانات روح افزا دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔

چنانچہ آج کل علاوہ ان چار لاکھ چار ہزار چار سو بیس روزانہ کی خوش خبریوں کے علاوہ ’’انکم ٹیکس‘‘ کے موضوع پر خوش خبریاں انتہائی تواتر سے چل رہی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا سادہ لوح سادہ دل سادہ نصیب، پڑھنے والے ہم سے ضرور پوچھیں گے کہ یہ انکم ٹیکس کون ہے؟ کیا ہیِ؟ کیا بیچتا ہے؟ کیا خریدتا ہے؟ کیا چھنتا ہے؟کیا لوٹتا ہے کیونکہ آج کل ہمارے پڑھنے والے آدمی کم اور سوالیہ نشان زیادہ ہیں۔

اس لیے بہتر ہو گا کہ ہم خود ہی اپنی معلومات اور اپنی تحقیقات قارئین کے ساتھ شیئر کریں، دراصل ’’انکم ٹیکس‘‘ دو متضاد لفظوں کا مجموعہ ہے، اور ان دونوں کا تعلق ٹھیک وہی ہے جو میاں بیوی کا ہوتا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی، زہر بھی ہوتے ہیں اور تریاق بھی، یہ معلومات تو کسی کو بھی نہیں ہیں کہ ان دونوں کی بنیاد کیا ہے لیکن ہمارے ہاں سب سے پہلے اس پنڈورا بکس سے نکلے ہیں جو انگریز لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔

بظاہر لسانی لحاظ سے تو یہ دونوں الفاظ ’’انکم‘‘ ۔۔۔۔ اور’’ ٹیکس‘‘ انگریزی لگتے ہیں لیکن ظاہر پر مت جایئے ظاہر میں تو اپنے ہاں بہت سارے لوگ ’’انسان‘‘ ہی لگتے ہیں لیکن ٹٹولیے تو اندر یہ بڑے بڑے دانتوں، خونخوار پنجوں اور زہریلے ڈنکوں والے پھدک کر باہر آجاتے ہیں، دراصل اس مفہوم یعنی ’’انکم ٹیکس‘‘ والا سب سے پہلا لفظ مصر کے ایک فرعون ’’طوطم آمن‘‘ کے مقبرے میں نکلا تھا ۔ بعد میں چلتا ہوا یورپ پہنچا اور انگریزوں کے پنڈورا بکس میں ٹھیک اسی طرح چھپ گیا ۔

جس طرح گل و صنوبر کی کہانی والا حبشی ایک شہزادی کے تخت تلے چھپ گیا تھا، اس زمانے میں ’’گل‘‘ کا نام ’’ٹیکس‘‘ ہوا کرتا تھا اور صنوبر ’’انکم‘‘ کے نام سے مشہور تھا چنانچہ یہ جو ایک کہاوت مشرق میں مشہور ہے کہ صنوبر نے گل کے ساتھ کیا کیا اور گل نے صنوبر کے ساتھ کیا کیا، اب کس میں اتنا یارا ہے کہ حکومت سے یہ پوچھے کہ ’’انکم‘‘ نے کیا دیا، ٹیکس نے کیا لیا اور ان دونوں نے عوام کے ساتھ کیا کیا، دراصل یہ دونوں زوجہ و شوہر یعنی ’’زن و شو‘‘ جس کا مشترکہ نام ’’انکم ٹیکس‘‘ ہے ۔کچھ پاکستانی حکومتوں اور لیڈروں کا سا مزاج رکھتا ہے کہ جو دکھتا ہے وہ یوں نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں یعنی جو انکم ہے وہ ٹیکس ہے اور جو ٹیکس ہے وہ انکم ہے، آپ سے کیا پردہ ہے مجبوری میں کچھ نہ کچھ کہنا پڑ رہا ہے کیوں کہ ہمارے پڑھنے والے

کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج ’’کالم‘‘ قلم سرا نہ ہوا

ورنہ ہمیں خود بھی پتہ نہیں ہے کہ انکم کیا ہے اور ٹیکس کیا ہے اور ’’انکم ٹیکس‘‘ کی صورت میں یہ کیا بن جاتا ہے کیونکہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ جن کی انکم ہوتی ہے وہ ٹیکس نہیں دیتے اور جو ٹیکس دیتے ہیں ان کی انکم نہیں ہوتی۔

سنا ہے کہ دوسرے ممالک قطعی الٹے چلتے ہیں، وہاں ٹیکس وہی بھرتے ہیں جن کی انکم ہوتی ہے اور غضب خدا کا کہ ان غیر ممالک میں نہ جانے کیا الٹے سیدھے ظالمانہ کام ہوتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بے چارے ’’انکم‘‘ اور ٹیکس دونوں کا نشانہ بنا دیے جائیں یہ تو سراسر ناانصافی ہے کہ کچھ لوگ تو دو دو کام کریں اور کچھ لوگ ایک بھی نہ کریں، اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں یہ دونوں یعنی ’’انکم اور ٹیکس‘‘ دونوں متوازی تو چلتے ہیں لیکن ایک کبھی نہیں ہوئے جو انکم کرتے ہیں وہ ’’ٹیکس‘‘ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اور جو ٹیکس دیتے ہیں وہ ’’انکم‘‘ کو جانتے تک نہیں، دوسرے ممالک میں اس اصول میں گڑ بڑ ہو تو ہو لیکن اپنے وطن عزیز میں چونکہ صرف اصول چلتے ہیں اور اصولوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ کبھی اصولوں پر سمجھوتہ تک نہیں کیا جاتا بلکہ اصولوں کے معاملے میں پاکستان بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ گھڑیوں کے معاملے پر سوئٹزر لینڈ ہے کہ وہاں گھر گھر میں گھڑیاں بنتی ہیں اور یہاں گھر گھر میں اصول بنتے ہیں۔

یہاں ’’انکم ٹیکس‘‘ کا بھی وہی طریقہ اور وہی شکل مروج ہے جو فرعون کے دورمیں تھا، دراصل فرعون طوطا مینا یعنی طوطم طاطم نے اس کی بنیاد اپنے عقیدے پر رکھی تھی، اس وقت وہاں کا عقیدہ تھا کہ بادشاہ دیوتا کا بیٹا ہوتا ہے اور باقی ساری مخلوقات انسان حیوان اور چرند و پرند کو اس کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا، چنانچہ انسانوں حیوانوں چرندوں پرندوں سب کا کام یہ ہے کہ وہ ’’کمائیں‘‘ اور بادشاہ اسے وصول کر کے کھائیں، یہی اصول آج بھی قائم ہے جو ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں مکمل طور پر رائج ہے، ہزاروں برس کے ارتقاء کے بعد … بھی سب کچھ بدل چکا ہے مثلاً ان ساری مخلوقات کو جو دیوتا زادوں کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی تھی صرف ایک نام ’’عوام‘‘ سے پکارا جاتا ہے البتہ پرانے زمانے یاد دلانے کے لیے کبھی کبھی کالانعام کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

صرف ایک ’’فرعون‘‘ کی جگہ اب کئی کئی ہوتے ہیں کیونکہ جمہوریت نامی انقلاب میں فرعونیت کو تقسیم کر کے پورے خاندان میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اب کوئی بڑا فرعون نہیں ہوتا، لیکن چھوٹے سے چھوٹا فرعون بھی بڑا فرعون ہوتا ہے۔

حالیہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان دونوں ’’نسلوں‘‘ یعنی دیوتائی اور کالانعامی نسل میں 15 ۔۔85 کا تناسب ہے۔ دیوتائی خاندان کل ملا کر 15 فی صد بنتے ہیں لیکن چونکہ دیوتا ہیں، اس لیے 85 فی صد کھاتے ہیں جب کہ باقی پندرہ فی صد ان پچاسی فی صد کالانعاموں کو دیاجاتا ہے جو یہ سب کچھ پیدا کرتے ہیں۔ انکم پچاسی فیصد والوں کی ہوتی ہے جب کہ عوام ٹیکس دیتے ہیں، اصل بات تو یہ ہے کہ کالانعاموں سے وصول کیا ہوا ٹیکس ہی دیوتا زادوں کی انکم ہوتا ہے جو یہاں ٹیکس ہے وہ وہاں انکم ہے اور جو یہاں ٹیکس ہے وہی انکم ہے

جو تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے ’’نامہ اعمال‘‘ میں تھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔