الزامات کی سیاست کا کھیل

سلمان عابد  منگل 2 دسمبر 2014
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی قومی سیاست الزامات کی سیاست کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔ یہ منظر نامہ 90کی دہائی کی سیاست کا ہے ۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف  الزامات اور کردار کشی کا جو طرز عمل اختیار کیا تھا ، اس کا سارا نقصان جمہوری سیاست کو پہنچا ۔ عمران خان نے پاکستان کی سیاست کے بڑے کرداروں کو چیلنج کیا ہے ۔ وہ عملی طور پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک متبادل کے طور پر ابھرے ہیں ۔وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(کی قیادت کے گٹھ جوڑ کو شکست دینے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

حالیہ سیاست میں عمران خان اور نواز شریف کی محاذ آرائی کا ایک عملی نتیجہ ہمیں دونوں اطراف سے شدت اور تلخی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ عمران خان نے جس انداز سے شریف برادران کے ساتھ ساتھ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو چیلنج کیا ، اس کا ردعمل ان کے سیاسی مخالفین میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر بلا خوف و خطر اور نتائج کی پروا کیے بغیر اکثر اوقات اپنی حدود و قیود سے بھی باہر نکل کر الزام تراشی کی سیاست کا سہارا لیتی ہیں ۔

دراصل عمران خان کے سیاسی مخالفین کا خیال تھا کہ اب عمران خان کی مہم میں وہ دم خم نہیں ، جو ابتدائی طور پر نظر آیا تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور ان کے اتحادیوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیتے ہیں ، کہ عمران خان کے  مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کو اعصابی طور پر زیادہ تھکایا جائے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت عمران خان کے سب سے اہم بنیادی مطالبہ انتخابی دھاندلیوں کی عدالتی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کے لیے تیار نہیں ۔

حکومت کی نئی حکمت عملی میں یہ ہی بات اب زیادہ طاقت ور نظر آتی ہے کہ عمران خان کا مقابلہ ان پر جوابی وار کی صورت میں کیا جائے۔یعنی اگر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں ، تو یہ ہی حکمت عملی ان ہی کے خلاف بھی استمال کی جائے ۔عمومی طور پر حکومتیں محاذ آرائی سے گریز کرتی ہیں کیونکہ اگر محاذ آرائی یا الزام تراشیوں کی سیاست کو بالادست ہوگی ، تو اس کا نقصان خود حکومت کو ہوگا ۔ لیکن ماضی اور حال کے نواز شریف کی سیاست کا بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے معاملات کو اور زیادہ بگاڑنے کا سبب پیدا کرتے ہیں ۔

پچھلے کچھ دنوں سے حکومت نے عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا میں جوابی مخالفانہ مہم کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ عمران خان کے نجی معاملات کو بھی اس مہم کا حصہ بناکر ثابت کیا جارہا ہے کہ عمران خان حکومت کے اعصاب پر سوار ہے ۔حکومت کے بقول عمران خان تمام اخلاقی حدود کو عبور کر  چکے ہیں ۔ اگر حکومت کی یہ منطق درست ہے ، تو خود حکومت کیا کچھ کررہی ہے ،خود اپنی اداؤں پرغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست میں ایک بنیادی فرق سیاسی تدبر اور فہم و فراست کا ہوتا ہے۔ لیکن جب حکومتی ترجمان اور وزرأ وہ لب ولہجہ اختیار کریں جو خود ان کے لیے مسائل پیدا کرے ، تو یہ غیر سیاسی حکمت عملی ہوگی۔دراصل حکومت کی کمزوری میں خود ان کے بعض لوگوں کا عمل دخل ہے ، جو نواز شریف کے لیے دوست کم اور دشمن زیادہ ثابت ہورہے ہیں ۔

حکومت ایک بنیاد ی غلطی یہ کررہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے حامیوں میں ردعمل کی سیاست کو پروان چڑھا رہی ہے ۔ حکومت بھول رہی ہے کہ تضادات کی سیاست میں ہمیشہ سے حکومت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے ، کیونکہ حکومت کے محاذ پر خرابیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔اس لیے حکومت کے سیاسی مخالفین اور خود میڈیا بھی ان کے تضادات کو نمایاں کرکے خود حکومت کو سیاسی سبکی فراہم کرتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کا اپنا انداز اور بالخصوص لب ولہجے میں بھی زیادہ تلخی پائی جاتی ہے ، لیکن اس آگ یا تلخی کو کم کرنا ہی حکومت کی سیاسی ترجیح ہونی چاہیے۔سیاسی محاذ آرائی اور الزام تراشی کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات اس کھیل میں جذباتیت اور جھوٹ کی سیاست کو بھی غلبہ حاصل ہوجاتا ہے ۔

اگرچہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ لوگوں کو بھی یہ سمجھنے کا موقع مل رہا ہے ، کہ ہماری سیاست کی اخلاقی قدریں کیا ہیں ، کون ذاتیات پر حملہ کرکے مسائل کی سیاست کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کو اپنے مفادات کی سیاست کے لیے بطور ہتھیار استمال کررہے ہیں۔ ویسے عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی جس طرح مخالفت کی جارہی ہے، اس کا انھیں فائدہ ہورہا ہے۔ لوگوں میں حکومت کے خلاف اور زیادہ ردعمل پیدا ہورہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان پر تواتر سے جاری حملوں کے باوجود ان کے جلسے اپنی حاضری کے اعتبار سے بھرپور نظر آرہے ہیں ، جو ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کے خلاف حکومتی ردعمل کوزیادہ پزیرائی نہیں ملی ہے ۔

حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جتنی سیاسی محاذ آرائی یا الزام تراشیوں کی سیاست بڑھے گی، اتنا ہی زیادہ اسے نقصان ہوگا،جو جماعتیں اس وقت بظاہر حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اورجن کی  بنیاد پر حکومت اپنے آپ کو زیادہ طاقت ور سمجھتی ہے ، یہ وقتی طاقت ہے کیونکہ جب طاقت کا تواز ن بگڑے گا اور حکومت کو کسی بڑی سیاسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، تب جو اتحادی حکومت کو محاذآرائی یا ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں ، حالات کے بگاڑپر وہ ان ہی کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے ۔حالات کا بگاڑ محض حکومت کے لیے ہی خطرہ نہیں ، بلکہ اس کمزور جمہوری نظا م جس کو حکمران طبقہ مضبوط سمجھتا ہے کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے ۔

حکومت کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں ہی حل کرے اور جو بھی متنازعہ امور یا مطالبات ہیں ان پر سیاسی لچک پیدا کرکے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے ۔کیونکہ ہم سب ماضی کے کھیل سے واقف ہیں اوراس کے نتائج بھی غیر جمہوری سیاست کے طور پر دیکھ چکے ہیں۔ حکومت کو حکومتی زعم سے باہر نکلنا چاہیے، کیونکہ یہ ہی حکومت کے حق میں بہتر ہوگا۔ عمران خان کو بھی اپنی سیاست ایشوز تک محدود کرکے آگے بڑھنا ہوگا، یہ ہی عمل دونوں سیاسی فریقین سمیت جمہوری سیاست کے حامیوں کے حق میں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔