سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری انسانی بقا کیلئے خطرہ بن سکتی ہے، سائنسدان

ویب ڈیسک  بدھ 3 دسمبر 2014
اس روبوٹک مشینوں کی انسانی کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوسکتے ہیں،سائنسدان۔ فوٹو فائل

اس روبوٹک مشینوں کی انسانی کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوسکتے ہیں،سائنسدان۔ فوٹو فائل

لندن: ٹیکنالوجی کی تیزی سے ہوتی ترقی نے خود سائنسدانوں کو کچھ پریشان کردیا ہے کہ کہیں یہ ٹیکنالوجی کسی ایسی اونچائی پر نہ پہنچ جائے کہ جہاں سے اسے کنٹرول کرنا ان کے بس میں نہ رہے اسی لیے برطانیہ کے معروف سائنس دان اسٹیون ہاکنگ نے خبردار کیا ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اسٹیون ہاکنگ نے آرٹیفشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں  کہا کہ مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے اگرچہ مصنوعی ذہانت اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم  ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر نہ پہنچ جائے کہ جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔ انہوں نے کہا یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا اور اس پرکنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا، انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر اسٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفشل انٹیلی جنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

پروفیسر ہاکنگ کی وارننگ کے باوجود سائنس دان ’اے آئی‘ کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانی ارتقا کا عروج ہے۔ کلیوربوٹ نامی سافٹ ویئر کے خالق رولو کارپینٹر  نے تو یہاں تک کہہ دیا  کہ انہیں یقین ہے کہ  سائنسدان ایک طویل عرصے تک اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کریں گے اور اس کی مدد سے دنیا کی بہت سے مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت کا اعتراف کر لیا جائے گا۔ اس حیرت انگیز کلیوربوٹ نامی سافٹ ویئر کی بناوٹ ایسی ہے جیسے عام انسان آپس میں بات کرتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر ماضی کی گفتگو سے سیکھتا ہے جب کہ اس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ تر لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے انسانوں سے بات کر رہے ہیں۔ رولو کارپینٹر کے مطابق ہم مصنوعی ذہانت کو مکمل طور پر بنانے سے ابھی بہت دور ہیں تاہم مجھے یقین ہے کہ ایسا چند دہائیوں میں ممکن ہو سکے گا۔

پروفیسر ہاکنگ مستقبل کے اس اندیشے کو سامنے لانے والے واحد سائنسدان نہیں بلکہ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ممتاز سائنسدان ایلن مسک نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ اس روبوٹک مشینوں کی انسانی کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں لوگ بے روزگاری کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔