ڈگری ہولڈر دہشت گرد

ایاز خان  بدھ 3 دسمبر 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پنجاب پولیس مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر نابیناؤں کو ایسا سبق سکھایا جو وہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔ یہ نابینا اسی قابل تھے۔ انھیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ ملازمتوں میں کوٹہ کے لیے احتجاج کریں۔ وہ یہ کیسے بھول گئے کہ ان کا مقابلہ آنکھوں والی پنجاب پولیس سے ہے۔

مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مناظر نے یہ بات ثابت کر دی کہ یہ نابینا افراد ’دہشت گرد‘ تھے۔ ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار ہاتھوں میں پکڑی ہوئی وہ ڈگریاں تھیں جو ملازمت کے لیے لازمی شرط تصور ہوتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اپنا حق مانگنے والے ان افراد کی اکثریت گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہے۔ یہ وہی گورنمنٹ کالج ہے جس میں ملک کے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ  شہباز شریف پڑھتے رہے ہیں۔ اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے والوں میں پوزیشن ہولڈر بھی تھے۔

قدرت نے ان باصلاحیت افراد کو بینائی سے ضرور محروم رکھا لیکن ان میں کچھ اور صلاحیتیں خود کو صحت مند سمجھنے والوں سے زیادہ رکھ دیں۔ عقل کے اندھے پولیس والوں نے ان افراد کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا‘ ڈنڈوں کے زور پر جس طرح دھکے دیے وہ مناظر مہذب دنیا میں دکھائے جائیں تو طوفان برپا ہو جائے۔ ہمدردی کے مستحق ان افراد کو یوں تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ حکومتیں اپنا حق حکمرانی کھو بیٹھیں‘ مگر تسلی رکھیں یہاں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کل آپ نے وہ مناظر اپنے ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر دیکھے‘ آج اخبارات میں پڑھے۔ آنے والا کل ایک نیا دن ہو گا۔ اس میں کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ لاہور میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر پرسوں کیا ہوا تھا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے حسب معمول واقعے کا نوٹس لیا‘ 5 پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے انھوں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ نابیناؤں پر تشدد کرنے والی یہ وہی پنجاب پولیس ہے جس نے منہاج القرآن کے ارد گرد رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے 14 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ایک کمیشن بنا‘ اس کی رپورٹ تیار ہو گئی لیکن اسے نا مکمل قرار دے کر داخل دفتر کر دیا گیا۔ اس واقعہ کی از سر نو جانچ کے لیے ایک نئی جے آئی ٹی ان دنوں اپنا کام کر رہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ساڑھے5 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

اس سانحہ کے بعد وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔ اسلام آباد میں دھرنوں نے سارے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا لیکن اس سانحہ کے ذمے داروں کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا۔ اس سانحے کا سب سے بڑا مجرم گلو بٹ قرار پایا جسے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گیارہ سال کی سزا سنا دی۔ گلو بٹ کا جرم گولی چلانے والوں سے کہیں بڑا تھا۔ اس نے ڈنڈے سے بے جان گاڑیوں کے شیشے توڑے تھے۔ 14 جسموں سے جان نکالنے والوں کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا کہ انھیں پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔

پڑھے لکھے بیروز گار نابینا افراد نے معذوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے ضروری سمجھا ہو گا کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیں۔ انھوں نے پریس کلب کے باہر اپنا احتجاج شروع کیا۔ کسی پولیس افسر نے انھیں کہا کہ آپ چیف منسٹر آفس چلیں وہاں آپ کی بات کرا دیتے ہیں مسئلہ حل ہو جائے گا۔ انھیں وزیر اعلیٰ شکایت سیل لے جایا گیا جس کے انچارج نے اپنی معذوری کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ان کے احتجاج میں تھوڑی شدت آئی جو پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو ناگوار گزری۔ وردی والوں نے جس طرح انھیں دھکے دیے اس نے کم از کم میرا تو سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ جس وقت یہ واقعہ ہو رہا تھا وزیر اعلیٰ پنجاب قطر کے دورہ پر تھے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں ہیں۔ دونوں نے البتہ واقعے کا نوٹس لے لیا۔

افسوس صد افسوس! واقعات ہوتے ہیں‘ سانحات گزر جاتے ہیں۔ حکمران نوٹس لیتے ہیں چند ذمے داران کچھ دنوں کے لیے معطل ہوتے ہیں۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ معطل ہونے والے کب بحال ہو گئے۔ نئے سانحے کے جنم لینے تک زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے۔ کسی نے بتایا صدر ممنون حسین بدھ کو لاہور میں تھے اور انھیں اس راستے سے گزرنا تھا اس سے ان نابینا افراد کو وہاں سے ہٹایا جانا ضروری تھا۔

ظاہر ہے ڈگری ہولڈر یہ ’’دہشت گرد‘‘ تشدد کے بغیر وہاں سے کیسے ہٹائے جا سکتے تھے۔ پنجاب پولیس نے اپنا فرض بڑے اچھے طریقے سے ادا کر دیا۔ ہماری پولیس کا سب سے بڑا فرض وی وی آئی پیز کی حفاظت کے لیے ان کا راستہ صاف کرنا ہے۔ وہ اگر اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہیں تو انھیں اشرافیہ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں اچھی پوسٹنگ اور پروموشن کے لیے اشرافیہ کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ یہ غریب نابینا افراد انھیں کیا دے سکتے ہیں۔ یہ تو خود نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

مریم نواز کے ٹوئیٹ سے پتہ چلا ہے وہ اس واقعہ پر بہت افسردہ ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ذمے داروں کو چھوڑا نہ جائے۔ دیکھیں ان کے مطالبے پر کتنا عمل کیا جاتا ہے۔ مریم صاحبہ سے گزارش ہے کہ وہ صرف اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں پولیس ان نابینا افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہ درج کر دے۔ اپنے پیٹی بھائیوںکے خلاف ایکشن پولیس والے کہاں لیں گے؟ مارے تو بے چارے نابینا جائیں گے۔ اس واقعہ پر حکومت کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

وہ پہلے ہی جمہوریت بچا کر اپنا مقصد حاصل کر چکی ہے۔ عمران خان کے ساتھ ان کے مذاکرات ہونے والے ہیں اس لیے جمہوریت اب خطرے سے باہر آ گئی ہے۔ احتجاج کرنے والے نابینا افراد کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کی آنکھیں ہوں یا نہ ہوں محض ڈگریوں اور پوزیشن لینے سے نوکری نہیں مل سکتی۔ آپ صرف اس بات پر خدا کا شکر ادا کریں کہ ملک میں جمہوریت ہے۔

جمہوریت یونہی چلتی رہی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہاں بسنے والے سب جان لیں کہ ملک صرف جمہوریت کی مضبوطی سے ہی ترقی کر سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب جمہوریت مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے یہ احتجاج کیوں کیا گیا؟ پتہ چلائیں کہیں یہ سازش تو نہیں۔ ان ڈگری ہولڈر دہشت گردوں کو کسی جمہوریت دشمن نے نہ بھجوایا ہو؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔