سزا تو ضرور ملے گی

سید نور اظہر جعفری  بدھ 3 دسمبر 2014

خدا نے اپنی یہ دنیا کیا ایسی ہی بنائی ہے جیسی یہ اب ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ہے بھی عجیب اور اس کا جواب اس سے بھی زیادہ ہر چند کہ غیر دلچسپ مگر حقیقت ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ خوبصورت تھی اور ہے کیونکہ وہ احسن الخالق ہے۔ سب سے اچھا تخلیق کرنے والا اور یہ دنیا اور شاید اس میں موجود مخلوقات میں انسان اس کی بہترین تخلیق یعنی اشرف المخلوقات جو اس نے خود اپنی تخلیق کو کہا۔ میری سوچ اس معاملے میں ذرا سی مختلف ہے۔ کسی فتویٰ سے بے نیاز ہو کر کہ شاید خدا نے یہ بات اس لیے کہی کہ اس کا ایک صفاتی نام ’’المصور‘‘ بھی ہے۔

دنیا کا وہ انسانی مصور جب اس کے حساب سے شاہ کار تخلیق کرتا ہے تو وہ بس نظر کی حد تک شاہکار ہے۔ اور اسے خدا کے تخلیق کردہ شاہکار نے تخلیق کیا ہے۔ تو جو خود کسی کا شاہکار ہے اگر اس نے کچھ ’’تخلیق‘‘ کیا تو وہ کہاں سے ’’مستعار‘‘ ہے یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے اور سمجھ میں آتی ہے۔قدرت نے تخلیق کیا ’’بشر‘‘ اس میں ایک جز ہے ’’شر‘‘ اگر انسان ’’بے شر‘‘ ہو جائے تو ’’خیر‘‘ کی کثرت سے۔ روحانی اعلیٰ مدارج کا مالک ہو جاتا ہے۔ اور اگر ’’باشر‘‘ ہو جائے تو بدترین ، خدا سے رحمت کی خواہش کے باوجود۔ مگر اسے کون سمجھے، کون جانے۔ کیا انسان اس کے لیے تیار ہوتا ہے؟خدا کا نظام بھی کمال ہے۔

ہر فرعون را موسیٰ۔ یعنی ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے علامتی بات ہے ورنہ موسیٰ تو ظاہر ہے کہ ایک ہی ہیں۔ جیسے ہر کربلا کا ایک حسینؓ ضرور ہوتا ہے جب کہ کربلا بھی ایک ہی تھی۔گزشتہ 40-30 سال میں ہماری آنکھوں نے کیا کیا عبرت انگیز منظر دیکھے ہیں۔ اور نہایت افسوس ہے کہ وہ سارے ہی تقریباً مسلمان ملکوں کے مناظر تھے۔ جب انسان خدا بننے کی کوشش میں مصروف تھا اور یہ بھول بیٹھا تھا کہ خدا بلکہ اصل لفظ استعمال کریں تو ’’اللہ‘‘ صرف ایک ہے بلاشرکت غیرے! احد۔ واحد!اسلامی ملکوں کے عوام کے حلقوم پر پیر رکھ کر حکمرانی کرنے والے مسلمان حکمرانوں کا کیا انجام ہوا؟ جن کے لیے صحرا سے اونٹنی کا دودھ لے کر ہیلی کاپٹر روزانہ صبح آیا کرتا تھا وہ آخر میں زمین کے سوراخ سے ایک حقیر کیڑے کی طرح نکال کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ یہ ہمارے دکھ ہیں۔ کس نے اسے سزا دی۔ کسی اور قوم نے جو کبھی اس کے نام سے لرز جایا کرتی تھی۔

کیونکہ اس وقت آپ خدا کے بندے تھے۔ اور خدا آپ کے ساتھ تھا۔ بے شمار وسائل دیے قدرت نے کہ فلاح انسانی کے کام کیے جائیں۔ شاید کیے بھی ہوں ابتدا میں مگر پھر وہی اولاد جو انسان کے لیے رحمت بھی ہے اگر توازن نہ رہے زندگی میں! محبت میں!لیبیا، مصر، یمن، نائیجیریا کس کس ملک کا نام لکھوں۔ اب تو یہ خاک اڑاتے ریگستان لگتے ہیں تاریخ کے۔ کبھی تاریخ کے ریگستان میں نخلستان ہوا کرتے تھے۔ ہمارے اعمال ہی تو ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ دنیا کو دنیا میں ہی رہ جانا ہے۔ شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔ جب انٹرنیٹ پر اب کے مسلمان حکمرانوں کی زندگی کے حالات دیکھتے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشا کا ایک شعر پڑھا تھا جس کا شاید ایک مصرعہ تھا۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔

آنکھیں بند ہیں، کانوں میں آواز نہیں پہنچ رہی، دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ ہر طرف مات ہی مات ہے مسلمان کے لیے۔ کہیں کوئی چھوٹا سا لشکر ہے۔ جو ہار کر جیت جاتا ہے کیونکہ ایمان کی دولت ہے اس کے پاس۔ اسے معلوم ہے کہ عدوی شکست نہیں ہوتی۔ غیرت کی شکست ہوتی ہے۔ غیرت ہے تو شکست نہیں ہوئی۔یہ لوگ جو وقت سے بے نیاز اونچی اونچی عمارات بنا رہے ہیں۔ Big Bang سے شاید ناواقف ہیں۔ ایک آواز آنی ہے۔ بتادیا گیا ہے، لکھ دیا گیا ہے، سب کچھ خاک ہو جائے گا مگر انھیں پرواہ نہیں ہے۔ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے۔

جب ایسا ہو گا تو Account میں کیا ہو گا ان کے۔ کثیر تعداد میں اولاد و ازواج اور دولت کے انبار۔ کیا ان سے ’’گلو خلاصی‘‘ ہو جائے گی۔ قبر میں تو کوئی ریشمی کفن بھی نہیں لے جاتا اور اگر لے بھی جائے تو کس کام کا سب کچھ خاک کا رزق ہے۔حساب بہت سخت ہے۔ بہت دیا اس نے تو حساب بھی بہت ہے۔ حکمرانی کے خواب دیکھنے والے اور حکمرانی کرنیوالے دونوں بہت مشکل میں ہیں۔ سرہانے اینٹ رکھ کر سونیوالے کا کیا حساب۔ اصل بادشاہ تو وہ ہے دوسرے دور میں، اس کا حساب کتاب سے آزاد۔ سیدھا سادھا دو اور دو چار اور ہمیشہ کی آزادی اور عیش دائمی!اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا انجام برا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ برائی اور ظلم کے ’’کارندے‘‘ ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کیوں کرتے ہیں، کھاتے تو روٹی ہی ہیں گندم کی، شاہ بھی اور یہ بھی۔ لوگ اکثر کہتے ہیں یہ دنیا بہت بری ہے۔ کیا برائی ہے اس دنیا میں؟ اسے آپ کے لیے بنایا گیا تھا، آپ اس کے لیے نہیں بنے۔

حضرت علیؓ نے اپنے ایک خطبے میں دنیا کو تین طلاق دی ہیں تو کیا سمجھ میں آیا کہ دنیا کی زمین کو ختم کر دیں؟ کھیتوں کو جلا دیں، پانی ختم کر دیں، ہوائیں مسموم کر دیں، کیا اس کا یہ مطلب ہے؟ہر گز نہیں، اسی دنیا سے کما کر آپ نے زکوٰۃ دی، اسی دنیا کو آپ نے نبیؐ کے حکم پر فتح کیا، دنیا میں رہے، شادیاں کیں، تو پھر طلاق کیوں؟اس دنیا کے حرص و ہوس، طمع، غرض، بے حسی اور Negative جذبے کو حضرت علیؓ نے طلاق دی ہے۔ یعنی چھوڑنے کا کہا ہے تا کہ یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

اگر یہ سارے جذبے جو انسانوں کو انسانوں سے نفرت سکھاتے ہیں۔ حقوق کو غصب کرتے ہیں، تکبر، حسد، ظلم پیدا کرتے ہیں۔ اگر نہ اختیار کیے جائیں تو دنیا امن کا گہوارہ ہی ہو گی تو ایسا ہے کیا دنیا میں؟ جی نہیں، زبردستی دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ملک بناتے جا رہے ہیں سارے امن کے ٹھیکیدار اس کام میں شریک ہیں امن کی کمپنی نام نہاد “UNO” کے ساتھ۔ کشمیر میں جو بھی ہو، یہ امن کے ٹھیکیدار آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کہیں اور علاقہ الگ کرنا ہو تو مسلمانوں سے چھین کر ایک ملک بنا دیتے ہیں ایسٹ تیمور۔ ان کے مفادات کے خلاف دنیا میں ذرا سا بھی کچھ ہو تو ’’امن عالم خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے مفادات کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک اور علاقے میں گھس بیٹھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔