خواتین کے حقوق کے لیے بنائے گئے قوانین نمائشی ہیں، عملدرآمد یقینی بنایا جائے

احسن کامرے  جمعـء 5 دسمبر 2014
ایکسپریس فورم میں ’’خواتین کے حقوق کے حوالے سے‘‘ منعقدہ مذاکرہ میں حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات کی گفتگو فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

ایکسپریس فورم میں ’’خواتین کے حقوق کے حوالے سے‘‘ منعقدہ مذاکرہ میں حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات کی گفتگو فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور قیام پاکستان کی تحریک میں بھی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس وقت ہر میدان میں خواتین نمایاں طور پر سامنے آرہی ہیں اور ترقی کی منازل طے کررہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے حقوق اورتحفظ کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں مگران پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان جرائم میں کمی نہیں آرہی۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق کے علاوہ سیاسی و سماجی خواتین نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خلیل طاہر سندھو (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق پنجاب)

خواتین پر تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا خاتمہ کسی ایک فرد یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں جب بھی خواتین پر تشدد کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہوتی ہے اور ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں عدالت نے فرزانہ بی بی کے کیس میں ، جسے پتھروں کے ساتھ مسمار کردیا گیا تھا،جلد فیصلہ دے کر اچھا کام کیا ہے اور اس سے مجرمان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ۔لہٰذا جب لوگوں کویہ ڈر ہوگا کہ جرم کرنے پر انہیں سزا دی جائے گی تو پھر کوئی بھی شخص جرم کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اس طرح جرائم میں کمی آئے گی۔

کوٹ رادھا کشن میں بھی ایک افسوسناک واقع پیش آیا اور اس میں جس عورت کو بھٹہ میں پھینکا گیا اس کے پیٹ میں چار ماہ کا بچہ بھی تھا۔اس واقع سے بھی دنیا کے سامنے ہمارا امیج خراب ہوا اور میری یہ رائے ہے کہ اسے  دین کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔گذشتہ برس اس طرح کے سات کیسز سامنے آئے اور اس سال صرف ایک کیس سامنے آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ایسے کیسز کوانسداد دہشت گردی میں ڈالا اور ہمیں مجبوراََ یہاں سخت قوانین بنانے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹیکل164کے تحت ہم نے قانون شہادت میں نیا کام کیا ہے جس کے تحت آڈیو ، ویڈیو اور دیگر جدید آلات قابل ادخال شہادتیں ہیں۔

کسی بھی ایسے کیس میں مجسٹریٹ چالان کے ساتھ گواہوں کی ریکارڈنگ کی کیسٹ بھی ریکارڈ میںرکھے گا تاکہ بعد میں کوئی اپنی گواہی سے نہ مکر سکے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے  خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے حوالے سے مثبت  اور قابل تعریف کام کیا۔ ہماری حکومت بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کررہی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ہم نے پچیس ہزار خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کا بل پاس کیا اوراب ان کو تعینات بھی کردیا گیا ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبے قانون سازی کا ختیار رکھتے ہیں۔ لہٰذاہم نے پنجاب میں جائیداد کے حوالے سے یہ قانون بنایا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی عورت کے خاوند کی موت ہوجاتی ہے تو اس خاتون کا جائیداد میں حصہ اسی وقت اس کے نام پر منتقل کردیا جائے گا۔ خواتین کے جائیداد میں حصہ کے حوالے سے شہباز شریف کا یہ اقدام بہت اہم ہے کیونکہ اس سے پہلے خواتین ساری زندگی عدالتوں کے چکر لگاتی تھیں یا پھر انہیں جائیداد میں حصہ نہ دینے کی خاطر قتل کردیا جاتا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ1954ء تک امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں خاتون کی تنخواہ اس کے خاوند کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاتی تھی اور بعد میں وہاں یہ قانون  تبدیل کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں حالات بہت بہتر ہیں لہٰذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی  قانون موجود ہے اور آرٹیکل 20-A کے تحت تمام بچیوں کی تعلیم مفت ہے ۔ اس وقت پنجاب کی صوبائی محتسب ایک خاتون ہیں اور خواتین کے مسائل موثر طریقے سے سننے اور ان کے حل کے لیے انہیں اس منصب پر فائز کیا گیا ہے۔

خواتین کے حوالے سے پاکستان کے لیے یہ اعزاز ہے کہ 54اسلامی ممالک میں سے بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی اور انہوں نے ساری زندگی محنت کی۔ اس وقت ہمارے ملک میں ہرطبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین محنت کررہی ہیں اور ہر میدان میں سامنے آرہی ہیں ۔ ہمیں یہ بخوبی سمجھنا چاہیے کہ ہم انسانی حقوق دیے بغیر دنیا میں نہیں رہ سکتے اور تنہائی کا شکار ہوجائیں گے۔ لہٰذااگر ہمیں اس دنیا کا حصہ بننا ہے تو ہمیں لوگوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔

خواتین کے مسائل کے حوالے سے جب تک ہم اپنے رویے تبدیل نہیں کریں گے اور اپنے اندر برداشت پیدا نہیں کریں گے، معاشرے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کے لیے تعلیم ضروری ہے اور صرف تعلیم ہی سے جہالت میں کمی آئے گی اور لوگوں میں شعور پیدا ہوگا ۔اس وقت بلدیاتی انتخابات کے لیے پلاننگ ہورہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیئے ہیں اور الیکشن کمیشن اس کے لیے حلقہ بندیاں کررہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں خواتین آزاد حیثیت سے لڑ سکتی ہیں اور ان کے لیے مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں ۔ ان انتخابات میں ہم نے خواتین کو مناسب نمائندگی دی ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین ترقی کریں ، یہ ہماری جماعت کا منشور ہے اور ہم اسے جاری رکھیں گے۔

بیگم بیلم حسنین (رہنما پاکستان پیپلزپارٹی و رکن قومی اسمبلی)

پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے بارے میں زیادہ بل بھی ہمارے دور میں ہی پاس ہوئے ہیں ۔ ہم خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں لہٰذاہم نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی میںدوسری حکومتوں کا ساتھ بھی دیا ۔ اپنے دور میں ہم نے ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف  قانون سازی کی اور اس سے خواتین کوبہت فائدہ حاصل ہوا۔ ہماری چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ایک خاتون تھیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی اور ان سے خواتین کو تقویت ملی۔

ہمارے دور میں خواتین کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا اور اس کے علاوہ خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے  وویمن پولیس سٹیشن قائم کیے گئے ۔ میرے نزدیک جب تک ہماری حکومت رہتی ہے ، کام موثر طریقے سے جاری رہتا ہے لیکن جب ن لیگ کی حکومت آتی ہے تو کام رک جاتا ہے کیونکہ ان کی سوچ مختلف ہے ۔  میرے نزدیک خواتین کے مسائل کا حل سوچ کی تبدیلی پر منحصر ہے اور صرف اسمبلیوں میں بل پاس کرنے سے معاشرے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب ایک عورت اپنے گھر میں بچوں کو تفریق کی تعلیم دے گی تو معاشرے میں خواتین کا استحصال ہوگا۔ لیکن اگر وہ اپنے بچوں کویہ تعلیم دے گی کہ اپنی بہن ، بیوی، بیٹی کی عزت کرو تو جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو وہ ان کی عزت کریں گے اوران کے حقوق فراہم کریں گے ۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کو بچپن ہی سے برابر مقام نہیں دیا جاتا ۔ بیٹے کے پیداہونے پر جشن کا سماں ہوتا ہے جبکہ بیٹی کے پیدا ہونے پر مٹھائی بھی تقسیم نہیں کی جاتی لہٰذا ہمیں اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا اور یہ صرف تعلیم سے ممکن ہے۔

اس لیے حکومت کو چاہیے کہ لڑکیوں کو  مفت تعلیم فراہم کرے کیونکہ  والدین لڑکیوں کی تعلیم کے اخراجات کو بوجھ تصور کرتے ہیں اور انہیں سکول نہیں بھیجتے۔ ہم نے اپنے دور میں خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے  بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا  اور اس سے خواتین کو فائدہ ہوا۔یہ ہمارا ایک اچھا پروگرام تھا اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ خواتین پر تشدد کے خلاف قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جب کوئی شخص کسی خاتون پر تیزاب پھینکتا ہے یا اس پر ظلم کرتا ہے تو اسے سزا نہیں دی جاتی ۔ لہٰذاجب تک انصاف کا نظام درست نہیں ہوگا، ہمارے معاشرے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔

موجودہ دور میں والدین اور بچوں  کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے جس کی وجہ سے  ان کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے اور مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں  والدین سے ڈر کی وجہ سے لڑکیاں بھاگ کر شادی کرلیتی ہیں اور پھر انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو مناسب وقت دیں اور ان کے ساتھ دوستانہ ماحول قائم  کریں تاکہ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے انہیں اعتماد میں لیں ۔اس کے علاوہ تمام لوگوں کو خواتین کی عزت کرنی چاہیے اور انہیں وہ مقام دینا چاہیے جو اسلام نے انہیں دیا ہے۔

خواتین کو حقوق اورتحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت اس وقت سوائے اپنی حکومت بچانے کے کسی دوسری طرف توجہ نہیں دے رہی اور انہیں اس کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دے رہا ۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کے دیگر مسائل پر بھی توجہ دے ۔موجودہ مسائل میں ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ جمہوریت قائم رہے اور ہم نے ہمیشہ جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں لیکن انہیں چاہیے کہ حکومتی امور کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور دیگر مسائل پر بھی توجہ دیں  اورخواتین کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔

سعدیہ سہیل رانا (رہنما پاکستان تحریک انصاف ورکن صوبائی اسمبلی پنجاب)

خواتین کے ساتھ مظالم اور تشدد کے واقعات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شروع دن سے ہی مرد نے عورت کو کمتر سمجھا اور اسے کم درجہ دیا۔ اسلام  سے پہلے خواتین بدترین حالات سے گزری ہیں اور انہیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتارہا۔  خاوند کی وفات کے بعد عورت کو اس کے بیٹوں میں بانٹ دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جنگ میں قیدی خواتین کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتااور بازاروں میں ان کی خرید وفروخت کی جاتی تھی۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیئے اور معاشرے میں عزت دی۔ لیکن جب ہم اپنے معاشرے میں عورت کی حیثیت دیکھتے ہیں تواس کے الٹ دکھائی دیتا ہے اور جب َ حقوق دینے کی بات آتی ہے تو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے یا جائیداد میں حصہ نہ دینے کی خاطر اس کی شادی قرآن پاک سے کروا دی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔ اگر ایک گھر میں عورت اپنے شوہر سے زیادہ پڑھی لکھی ہو اور اس کی قابلیت بھی اپنے شوہر سے زیادہ ہو تو مرد احساس کمتری کی وجہ سے اسے ہراساں کرتا ہے اورذہنی اذیت کا نشانہ بناتا ہے۔

اس وقت ہر شعبے میں خواتین ،مردوں سے بہتر کام کر رہی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں انہیں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ انہیں غلط مقاصد پر آمادہ کر کے ترقی دی جاتی ہے یا پھر ان کی ترقی روک لی جاتی ہے۔ اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین بھی مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں انہیں آدھی اجرت دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مردا ور خواتین میں اس تفریق کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے۔بچپن سے ہی بیٹے کویہ سوچ کر زیادہ کھلایا جاتا ہے کہ اس نے بڑے ہو کرماں باپ کا سہارا بننا ہے۔ حالانکہ سائنس  کے مطابق عورت کو خوراک کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عورت پر صرف مرد ہی ظلم نہیں کرتا بلکہ عورت بھی  عورت پر ظلم کرتی ہے۔ گھر میں لڑکے، لڑکی میںفرق سب سے پہلے ماں کرتی ہے۔وہ اپنی بیٹیوں کو کم تر سمجھتی ہے جبکہ بیٹوں کو زیاد ہ اہمیت دیتی ہے۔ اسی طرح ساس بہو کے جھگڑے اور نند بھاوج  کے مسائل میں بھی عورت ہی عورت کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک عورت  ہی دوسری عورت کی سوکن بن کر آتی ہے اور اس کے حقوق پر قبضہ کرتی ہے۔ اسی طرح بیوی کو جلانے کے زیادہ تر واقعات میں مرد کی ماں شامل ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین پر ظلم کے حوالے سے قانون موجودہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور اگر کوئی مجرم پکڑا جائے تو وہ بھی سزا سے بچ جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے جو افسوسناک واقعات سامنے آئے،وہ کسی نارمل معاشرے کی پیداوار نہیں ہیں ۔ ان مجرموں کی ویڈیو موجودہونے کے باوجودبھی انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔  اس کے علاوہ ماضی میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں خاوند نے کلہاڑی کے ساتھ اپنی بیوی کے جسم کے اعضاء کاٹ دیے  مگر کسی کو سزا نہیں ہوئی۔

خواتین کے حوالے سے جب  کوئی بل اسمبلی میں  پیش کیا جاتا ہے تو ہمیں اسے پاس کروانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اسمبلی میں موجود مرد حضرات کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسا کوئی قانون پاس نہ ہو جس سے عورت  مضبوط ہو اور اسے تقویت ملے اور اگرایسا کوئی قانون پاس ہوجائے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہمارا المیہ یہ  ہے کہ عورت کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہ علم ہے کہ وہ کس چیز کے لیے عدالت میں جاسکتی ہے۔

اگر ہم اپنے اداروں کو دیکھیں توہمارے تھانوں کا کلچر درست نہیں ہے۔ جب ایک عورت اپنی آبرو لٹوا کر تھانہ میں جاتی ہے تو وہاں اس کی تذلیل ہوتی ہے ا وروہ بہتر یہ سمجھتی ہے کہ انصاف مانگنے نہ جائے کیونکہ ہمارے انصاف کے ادارے اس کی مزید بے عزتی کرتے ہیں ۔ہمارا میڈیا مسائل کو اجاگر توکرتا ہے مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ٹی وی چینلز پر بار بار ان بچیوں کی تصاویر دکھا کر ان کی عزت نفس ختم کردی جاتی ہے اور پھر معاشرے میں انہیں ایک سوالیہ نشان بنا کر تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس کا فائدہ تو اس وقت ہے جب ان مجرموں کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دکھایا جائے اور پھر کوئی بھی شخص جرم کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ ہمارے نظام میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے کام کے لیے موضوں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اپنا کام ذمہ داری سے کررہاہے۔ پولیس میں بھی سیاسی اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اور سیاستدان اپنے پسندیدہ لوگ بھرتی کروالیتے ہیں ۔ لہٰذا جب تک میرٹ پر بھرتیاں نہیں ہوں گی اس وقت تک کارکردگی میں بہتری نہیں آئے گی اور نہ ہی مسائل حل ہوں گے۔

میرے نزدیک خواتین پر مظالم میں کمی لانے کے لیے سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اگر خواتین کے بارے میں  مرد کی وہی روائتی سوچ ہوگی تو پھر اس کی تعلیم اور عہدہ کسی کام نہیںآئے گا۔اس کے علاوہ عورت کو بھی اپنا مقام سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ پہلے عورت ہے اوربعد میں کسی کی بہن ، بیوی یا ماں ہے ۔ہمارے معاشرے میں عورت کی پہچان اپنے خاوند کے نام سے ہوتی ہے لیکن مرد یہ کبھی نہیں پسند کرتا کہ عورت اس کی پہچان بنے  اور اسی لیے ہی وہ عورت کو حقوق نہیں دیتا اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔

اس وقت تعلیم اور صحت خواتین کے دو بڑے مسائل ہیں اور انہیں تعلیم کے کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیادہ ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خواتین کو اپنی خوارک اور صحت کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ اس حوالے پاکستان تحریک انصاف نے ایک مناسب پلان تیار کیا ہے اور ہم اقتدار میں آتے ہی تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی نافذ کردیں گے اوراس کے ساتھ ساتھ  لڑکے، لڑکیوں کی تعلیم بھی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم سے لوگوں میں شعور پیدا ہوگا اور اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔

اس وقت خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت صحت اور تعلیم کے حوالے سے اقدامات کررہی ہے ۔ وہاں پرلوگ خواتین کو زچگی کے لیے ہسپتال میںنہیں لاتے اور اس طریقہ علاج کو اسلام کے خلا ف سمجھتے ہیں۔ اس لیے  ہماری حکومت خواتین کو دوران حمل علاج معالجے کے لیے وظیفہ دے رہی ہے اور دیہی علاقوں میں بھی انہیں سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ جومائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان کے لیے بھی وظیفہ مقرر کیا گیا ہے اور وہاں ڈبے کا دودھ ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نظام تعلیم  میں بھی بہتری لا رہے ہیں اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ سکولوں میں اساتذہ کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا اور ان کی قابلیت کی بناء پر متعلقہ سکول میں ہی انہیں ترقی دی جائے گی۔ اس سے طلباء اور اساتذہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی اور وہ بہتر طریقے سے اپنے طالبعلموں کے مسائل سمجھ سکیں گے۔اس کے علاوہ شام کے اوقات میں انہی سکولوں میں بچوں کو ہنر مندی کی تربیت دی جارہی ہے جس سے بے روزگاری اور غربت میں کمی آئے گی۔

آئمہ محمود (نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین پر تشددایک عالمی مسئلہ ہے اوردنیا بھر میں ہر طبقے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت اپنی عمر کے مختلف حصوں میں کسی نہ کسی  جبر اور ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ پاکستان میں بھی ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ہورہی ہے اوربدقسمتی سے اس تشدد کے ذمہ دار ان کے اپنے باپ ، بھائی ، بیٹے اورگھر کے دیگر افراد ہوتے ہیں ۔ خواتین پر ظلم کی حقیقت یہ ہے کہ تشدد کو ہمیشہ سے عورت کی حیثیت کو کم کرنے اور اسے مرد کے ماتحت کرنے کے لیے  استعمال کیا گیا ہے اور پھر اسی لیے ہی اسے تعلیم، صحت ،روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم کیا گیا۔

خواتین پر تشدد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں  اور انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا خواتین کے بارے میں یہ سوچ اپنائی گئی ہے کہ وہ مردوں کی مرہون منت ہیں اور مرد یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو مرضی سلوک روا رکھیں ۔  ہمارا المیہ یہ ہے کہ مرد ہر وقت خواتین پر تشدد کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں تو جہیز کم لانے پر بھی خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑ تا ہے ۔ اس کے علاوہ تعلیم کا حق مانگنے پر انہیں تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اپنی پسند کی شادی کرنے پر انہیںغیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ۔

اس کے علاوہ اپنی جان بچانے کے لیے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو کاروکاری یا ونی کردیا جاتا ہے۔ ان سب مظالم کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ریاست نے کچھ ایسے قوانین بھی بنا رکھے ہیں جن سے غیرت کے نام پر قتل کرنے والا خودہی مدعی بن جاتا ہے اورپھرسزا سے بچ جاتا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں خواتین پر تیزاب پھینکنے، انہیں ہراساں کرنے اور جائیداد میں حصے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اور اس کے علاوہ خواتین کو مختلف اداروں میں اہم سیٹوں پر تعینات بھی کیا گیا۔

موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے کام کررہی ہے  لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سوچ بدلی گئی یا اس قانون کے مطابق ان کی تربیت کی گئی۔ کیونکہ جو بھی عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے، اس کا سامنا سب سے پہلے پولیس سے ہوتا ہے اور ہماری پولیس کا رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پولیس کے بعد ان کا سامنا ڈاکٹروں سے ہوتا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ایسی خواتین کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔

حکومت نے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون تو بنا دیا مگر ایک عورت شکایت کرنے کے بعد کہاں جائے گی ، اس کے لیے حکومت نے کیا انتظام کیاہے اور کتنے شیلٹر بنائے ہیں ؟یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگا کہ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین نمائشی ہیں اوروہ عملی طور پرانہیں حقوق ا ور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کے حوالے سے قانون سازی کے باوجود خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اب پہلے سے زیادہ خواتین جبر کا شکار ہو رہی ہیں اور بد قسمتی سے ان پر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹہرایا جاتا ہے۔ لہٰذا جب تک مظلوم عورت کو مجرم بنا کر پیش کرنے والی سوچ کا خاتمہ نہیں کریں گے،قانون سازی کے  اثرات عام عورت کی زندگی میں نظر نہیں آئیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماجی رویے تو پوری طرح سے نظر آتے ہیں لیکن کوئی بھی شخص عورت کو بحیثیت ماں، بیوی ، بیٹی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ہم نے رسم و رواج اور مذہب کو بنیاد بنا کر ان تمام مظالم پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سالانہ پانچ ہزار خواتین کی موت گھریلو تشدد کی وجہ سے ہوتی ہے اوراس وقت90فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ میرے نزدیک اس وقت ہماری سماجی تنظیمیں بھی خواتین پرتشدد میں کمی لانے میںناکام نظر آرہی ہیں ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں بھی حکومت سے بات کرنے اور قانون سازی پرتوجہ دے رہی ہیں لیکن معاشرتی رویوں اور نوجوانوں کی تربیت پر ان کی توجہ کم ہے ۔ لہٰذا مسائل کے حل کے لیے سب کو اپنے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ اگر حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے اپنی ترجیحات میں خواتین کے مسائل شامل کرنے چاہیے۔کیونکہ جب ہمارے ملک کی  آدھی آبادی پر تشدد ہوگا تو پھرہم معاشرے میں امن  قائم نہیں کرسکتے۔ میرے نزدیک انسانی حقوق کی وزارت کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کو چیلنج سمجھ کر اس پر کا م کرنا چاہیے اورخواتین کو تحفظ اور سہولیات فراہم کرنی چاہیے ۔ اس کے علاوہ انہیں چاہیے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر بنائیں اور پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی تربیت کی جائے اور تشدد کا شکار خواتین کے لیے ہر ہسپتال میں ماہر نفسیات تعینات کیے جائیں ۔  میرے نزدیک خواتین پر تشدد میں خاتمے کے لیے خواتین کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا چاہیے کیونکہ جب تک گنہگار کو سزا نہیں ملے گی تب تک نظام درست نہیں ہوسکتا۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے میڈیا کا کردار بھی اہم ہے ۔ لہٰذا میڈیا کے موثر اور مثبت کردار کو فروغ دے کر خواتین پر تشدد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

خواتین کو تشدد سے بچانے کا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں ظلم اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوگا اور یہاں پیار اور محبت کی بنیاد رکھی جائے گی اور ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی خواتین کے مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ سیاسی جماعتیں غربت، مہنگائی اور تعلیم کی بات توکرتی ہیں لیکن خواتین پر تشدد، صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کو خود مختار بنانے کی پالیسیوں کو ایجنڈے میں خاص اہمیت نہیں دیتی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وقت سیاست میں خواتین نمایاں طور پر سامنے آرہی ہیں کیونکہ خواتین کے حوالے سے تمام تر قانون سازی میں خواتین ارکان پارلیمنٹ نے بہت اہم کردار ادا کیا اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے بل بھی پاس کروائے۔

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ سماجی تنظیموں نے خواتین کے مسائل  کو خواتین ارکان پارلیمنٹ تک پہنچایا، اس سے پہلے حکومت ان مسائل پر توجہ نہیں دے رہی تھی۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنا ایجنڈا بناتے ہوئے سماجی تنظیموں سے مشاورت کریں کیونکہ جب تک سماجی تنظیموں کواس میں شامل نہیں کیا جائے گا، حکومتی سطح پر ان مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ خواتین کو معاشی خود مختاری، تعلیم ، صحت اور بنیادی حقوق  فراہم کرکے انہیں تشدد سے بچائیں۔ یہ صرف خواتین کے لیے  ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بہتری کے لیے لازمی عمل ہے اور اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔