یوٹیلٹی اسٹورز پر سبسڈی ختم

ایڈیٹوریل  جمعرات 4 دسمبر 2014
حکومت اگر واقعی خرچے کی تنگی کا شکار ہو گئی ہے تو اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے اخراجات میں تخفیف کرے نہ کہ سفید پوش طبقے کو اپنی معمولی سی رعایت سے محروم کرے۔  فوٹو: فائل

حکومت اگر واقعی خرچے کی تنگی کا شکار ہو گئی ہے تو اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے اخراجات میں تخفیف کرے نہ کہ سفید پوش طبقے کو اپنی معمولی سی رعایت سے محروم کرے۔ فوٹو: فائل

اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے فیصلے کے تحت یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی کی فروخت پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے جب کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر اب کسی اور آئٹم پر بھی سبسڈی نہیں دی جا رہی۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی دیگر دکانوں کے نرخوں پر اشیائے خور و نوش مہیا ہوں گی تو پھر ان اسٹورز کا نام بھی تبدیل کرنا ہو گا یوٹیلٹی کا ایک مفہوم عوام کو سہولت فراہم کرنا بھی ہے۔

قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت نے بتایا کہ حکومت کو سبسڈی کی مد میں گزشتہ ڈیڑھ برس میں بائیس ارب ادا کرنا پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بائیس ارب روپے ملک کے سفید پوش طبقہ کو تھوڑی سی رعایت دینے پر اٹھارہ مہینوں میں خرچ ہوئے جب کہ اس سے کہیں بڑی رقوم بے معنی قسم کی سرگرمیوں پر یکمشت خرچ کر دی جاتی ہیں جن کا مقصد چند بڑے لوگوں کی وقتی خوشنودی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم تہذیب یافتہ اقوام کا طرز عمل دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ وہ قومیں اپنے نچلے طبقات کے لیے زندگی کی آسانیاں پیدا کرنے میں ترجیحی بنیادوں پر عمل کرتی ہیں جب کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارا رویہ یکسر متضاد اور معکوس ہے جس کا مجموعی اثر وطن عزیز بیرونی دنیا میں سبکی کی صورت میں نکلتا ہے اور اندرون ملک بھی بیچینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ عوام کی بھلائی پر صرف ہونے والی رقوم کو فرسودہ بیوروکریٹک ذہنیت خسارے کا سودا سمجھتی ہے حالانکہ ایسے مخیرانہ اقدامات قومی خزانے میں برکت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ کیا ہمارے ارباب اختیار کو یاد نہیں رہتا مسلسل آنے والی قدرتی آفات میں ملک و قوم کا کتنے اربوں کھربوں کا پلک جھپکتے نقصان ہوجاتا ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر آپ سرکاری دفاتر اور ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اخراجات پر نگاہ ڈالی جائے انسان ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جائے۔

حکومت اگر واقعی خرچے کی تنگی کا شکار ہو گئی ہے تو اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے اخراجات میں تخفیف کرے نہ کہ سفید پوش طبقے کو اپنی معمولی سی رعایت سے محروم کرے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی چوری کے حوالے سے ایوان کو بتایا گیا کہ دو سال میں مجموعی طور پر سوا تیس ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوئی جس میں سب سے زیادہ پشاور، سکھر، حیدر آباد اور کوئٹہ بجلی چوری ہوئی۔ بجلی چوری کے چالیس ہزار کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جس میں سات ارب اکتیس کروڑ روپے کی وصولی کر لی گئی ہے۔ اگر اس چوری پر قابو پا لیا جائے تو عوام کو جو سبسڈی دی جا رہی ہے‘ وہ معمولی نظر آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔