لٹریری فیسٹیول کیوں اور کیسے

انتظار حسین  جمعـء 5 دسمبر 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

صاحب یہ بھی خوب ہوا کہ ادھر سیاست کی گرم بازاری ہے اور ایسی ویسی گرم بازاری۔ اس گرم بازاری میں تو سیاسی سرگرمی خود بازاری سیاست بن گئی ہے۔ تو بازاری سیاست نے اتنا زور باندھا کہ نئے نئے شگوفے پھوٹنے لگے۔ منجملہ اور شگوفوں کے سب سے بڑھ کر نیا شگوفہ دھرنوں کا۔ یہ ہمارے بازار سیاست کا نیا میوہ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میں اس نے ایسا رنگ پکڑا تھا کہ لگتا تھا قومی معاملات کے نام سب دھرا رہ جائے گا بس دھرنے کا بول بالا ہو گا۔

اسی عالم میں یاروں نے ایک اور ماجرا دیکھا۔ بازاری سیاست کے جلسوں جلوسوں دھرنوں سے ہٹ کر لٹریری فیسٹیول ہونے لگے۔ اور ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ آیندہ مہینے گویا لٹریری فیسٹیول کے لیے وقف ہیں۔

ہم سادہ دل یہ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ پاکستان میں عجب رنگ سے ادب پر بہار آئی ہے۔ پہلے ادبی سیمینار ہوا کرتے تھے۔ سیمیناروں پر اوس پڑ گئی۔ اب تو ادبی فیسٹیول ہوتے ہیں جہاں سچ مچ میلہ کا سماں ہوتا ہے۔ اور نوجوانوں کی یلغار ہوتی ہے۔ طلبا قطار اندر قطار طالبات کے پرے کے پرے۔

ہماری سادھ دلی دیکھو کہ ہم یاروں کی خوشی میں خوش۔ لکھنؤ کی تہذیب نے ایک ہی میلہ کو جنم دیا تھا جس کا ذکر لکھنؤ کے تذکروں میں بہت ملتا ہے یہ تھا آٹھوں کا میلہ سب سے بڑھ کر انشاء اللہ خاں نے اس کا نقشہ باندھا ہے۔ بِچھڑوں کا اس تقریب سے ملنا۔ پھر نئی ملاقاتیں۔ نئے چہرے۔ نئی دیدار بازی۔ تو کیا لٹریری فیسٹیول بھی نئے رنگ سے آٹھوں کا میلہ بن چلا ہے۔

مگر ایک یار نے عجب سوال اٹھایا کہ ہم چونک پڑے۔ کہنے لگا کہ یہ لٹریری فیسٹیول کا چکر کس چکر میں چلا ہے۔ پہلے تو ہمارے یہاں ادبی فیسٹیول قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ لے دیکے بس مشاعرہ تھا۔ یہ شے بھی اصل میں مغرب ہی سے آئی ہے۔

ہم سوچ میں پڑ گئے۔ پوچھا کہ ’’یہ امریکی سازش تو نہیں ہے‘‘۔ بولا ’’کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہر حال کوئی چکر ضرور ہے۔ اور کیا کچھ رنگ اس میں بھرا ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس میں کھنچے چلے جاتے ہیں‘‘۔ پاکستان کن مشکلات میں گِھرا ہے۔‘‘ اور ان نوجوانوں کو دیکھو کہ انھیں ادب کی سوجھی ہے۔ چاہیے تو یہ کہ کسی تحریک میں شامل ہو کر کوئی قومی خدمت انجام دیں‘‘۔

ہم نے کہا کہ ’’میرے بھائی‘ اس وقت تو دو ہی تحریکوں کا غلغلہ ہے۔ ان نوجوانوں کو کونسی تحریک میں شامل ہونے کی نصیحت کی جائے۔

’’وہ کونسی دو تحریکیں ہیں‘‘۔ اس نے سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھا۔

ہم نے کہا کہ بھئی ایک تو دھرنوں والی تحریک ہے۔ مگر وہاں تو پہلے ہی بہت نوجوان گھسے ہوئے ہیں۔ دوسری وہ تحریک ہے جس کا پوری دنیائے اسلام میں اس وقت غلغلہ ہے جس کا نام ہے داعش‘‘۔

وہ بولا ’’تم تو مسخرے پن پر اتر آئے۔ حالانکہ یہ بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مطلب یہ کہ تم سے بات نہیں ہو سکتی‘‘۔

بعد میں ہم نے سوچا کہ واقعی اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہ سلسلہ آخر کب اور کیسے شروع ہوا۔ اب ہمیں یاد آ رہا ہے کہ پچھلے سالوں میں عین اس زمانے میں جب کہ مار دھاڑ بہت ہو رہی تھی۔ بازاروں میں‘ مسجدوں میں‘ درگاہوں میں‘ امام بار گاہوں میں بم پھٹ رہے تھے۔ خود کش حملے ہو رہے تھے‘ ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی اور سب سے بڑھ کر کراچی میں۔ اور کراچی ہی میں ان تشدد بھرے ہنگاموں کے بیچ لٹریری فیسٹیول کا گُل کِھلا۔ خربوزے سے خربوزے نے رنگ پکڑا۔ لاہور میں‘ اسلام آباد میں‘ پھر پنجاب کے چھوٹے شہروں میں اس کی مہک پہنچی۔ وہاں بھی یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔

پہلے تو واقعی ہم بھی اس انمل بے جوڑ پر حیران ہو رہے تھے۔ ارے دہشت گردی اور ادب میں کونسا رشتہ ہے جو یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ہم نے تو اپنے شاعروں سے یہی سنا تھا کہ؎

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نِکل
کہاں کی رباعی‘ کہاں کی غزل

لیکن جب کراچی کئی ایسے فیسٹیول کر چکا تو ہم نے اہل کراچی کو داد دی کہ تم نے اقبال کو زیادہ صحیح سمجھا ہے۔ یہ تو ہمارے اس شاعر ہی نے اپنی بصیرت سے یہ نکتہ کی بات کہی تھی ع

اگر خواہی حیات اندر خطر ذی

اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو۔ لگتا ہے کہ تم نے واقعی خطروں کے بیچ گزر بسر کرنا سیکھ لیا ہے۔ کیا کرشمہ ہے کہ اس شہر میں سب سے بڑھ کر تشدد اپنا رنگ دکھا رہا ہے اور اس کے بیچ تم چل پھر رہے ہو‘ نمائشیں کر رہے ہو۔ لٹریری فیسٹیول کر رہے ہو۔ قریب و دور سے ادیبوں کو بلاوا بھیج رہے ہو کہ آؤ اور ہمارے ساتھ مل کر ادب کا جشن مناؤ۔ اور وہ امن پسند مخلوق بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے اس پر خطر شہر میں آن پہنچتی ہے۔

اب پتہ چلا کہ جب انسانیت کُش ہنگامہ برپا ہو اور طول پکڑتا چلا جائے تو انسانی روح بھی کسی نہ کسی طور تو اپنا کرشمہ دکھاتی ہے۔ ادب کا جو بھی اور جس رنگ سے بھی اجتماع ہو وہ اس غیر انسانی صورت حال کا کسی نہ کسی رنگ سے توڑ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس جنگل میں ناگ بہت پھنکارتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں وہیں کہیں آس پاس وہ جڑی بوٹی بھی ہوتی ہے جو تریاق کا حکم رکھتی ہے۔ تو جو زہر ہمارے معاشرے میں پھیل رہا تھا اس کے توڑ پر اس تریاق نے نمود کی ہیں۔ یہ فطری ردعمل ہے۔

کسی نے دانستہ ایسا سوچ کر کوئی تحریک شروع نہیں کی تھی۔ کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ نفرت نے بہت گمبھیر شکل اختیار کر لی ہے۔ اب محبت کا گیت گاؤ۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس وقت جو سیاسی مخلوق سیاست بگھار رہی ہے اس میں کتنی نفرت ہل رہی ہے اور کیا رنگ پکڑا ہے کہ سیاست بگھارنے والے شاستگی کا منہ چڑاتے ہیں۔ رسانیت سے بات کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ چیختے ہیں‘ بدزبانی کرتے ہیں گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ چیخ رہے ہیں کہ اٹھو‘ باہر نکلو‘ آگ لگاؤ‘ اس سارے بندوبست کو پھونک ڈالو۔ ارے یہ بات کرنے کا کونسا طریقہ ہے۔ یہ آدمیت ہے یا وحشیت۔ لٹریری فیسٹیول میں جاؤ تو وہاں رنگ ہی اور ہوتا ہے۔

بظاہر کوئی امن کی تلقین نہیں ہوتی‘ نہ امن آشا جیسی کسی تحریک کا وہاں اشارہ ملتا ہے۔ مگر جب بات کرنے والے شاعری کی بات کرتے ہیں‘ گل و بلبل کے استعاروں میں رواں ہوتے ہیں‘ زلف کی رخسار کی باتیں کرتے ہیں تو وہ خود اس قسم کا عمل ہوتا ہے کہ نفرت کا‘ زہریلی تقریروں کا توڑ ہوتا ہے اور جو ہمارا معاشرہ اس زہریلی پر تشدد فضا میں انسانیت سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے اسے گویا اپنی اصل کی طرف واپس آنے پر مائل کر رہا ہے۔

ہاں بیشک ادبی فیسٹیول ادب پیدا کرنے کا نسخہ نہیں ہیں۔ مگر ان کا ایک اثر تو ہم نے دیکھا ہے کہ کتاب سے جو اس معاشرے کی دوری ہو گئی ہے وہ دور ہوتی نظر آتی ہے۔ نوجوان کس ذوق و شوق سے وہاں کتابوں سے سجے ہوئے اسٹالوں پر جاتے ہیں‘ اپنے پسندیدہ ادیبوں کی کتابیں خریدتے ہیں۔ پھر جلسہ گاہ میں واپس آ کر ان ادیبوں تک پہنچتے ہیں۔ کتاب پر ان سے آٹو گراف لیتے ہیں۔ پھر ان کے برابر کھڑے ہوکر تصویریں کھنچواتے ہیں۔

گویا اس طرح خود بخود تشدد والا انسانیت کُشی کے خلاف ایک محاذ بنتا چلا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔