اسلام کے نمایندے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 5 دسمبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

امام غزالی لکھتے ہیں کہ رعایا اس وجہ سے ابتر ہوگئی کہ سلاطین کی حالت بگڑ گئی اور سلاطین کی حالت اس وجہ سے بگڑی کہ علما کی حالت بگڑ گئی اور علما کی خرابی اس وجہ سے ہے کہ جاہ و مال کی محبت نے ان کے دلوں کو چھپالیا (بحوالہ حیا العلوم جلد دوئم صفحہ 385)

یہ پڑھنے کے بعد راقم کو ایسا محسوس ہوا کہ شاید امام غزالیؒ نے یہ بات عہد حاضر کے بارے میں کہی ہو۔ علم ایک سمندر ہے، کوئی پتے کی بات صرف استاد ہی نہیں شاگرد بھی کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی اور مختلف اسلامی تنظیموں کی ناکامیوں کی وجوہات کے بارے میں ہمارے ایک شاگرد نے بڑی وزنی بات کہی۔

ہمارے شاگرد کا موقف ہے کہ دور حاضر میں اسلامی پلیٹ فارم استعمال کرنے والے یا رہنمائی کا دعویٰ کرنیوالے دو قسم کے لوگ ہی ہوتے ہیں ایک Representative اور دوسرے Resemble۔

Representative وہ لوگ ہوتے ہیں جو صرف اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں یا نمایندے کا کردار ادا کرتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں کے رہنما ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ لوگ جن اسلامی شخصیات سے اپنا روحانی سلسلہ جوڑتے ہیں اور جن کو اپنا حقیقی رہنما تصور کرتے ہیں اور جن کی تعلیمات کو فخر سے پیش کرتے ہیں، ان کے جیسا کردار، لباس، حلیہ یا مکمل شخصیت کا روپ نہیں اپناتے اسی لیے ان کی شخصیت دور حاضر کی دیگر غیر مسلم شخصیات سے بھی قدرے مختلف نہیں ہوتیں۔ میرے اس شاگرد نے بات کو مزید سمجھانے کے لیے ایک تصویر دکھائی جس میں مختلف ممالک کے سربراہان ایک ساتھ کھڑے تھے۔ ان تمام کی تصاویر کے اوپر ایک اسکیل رکھ دیا جس سے ان تمام کے چہرے چھپ گئے۔

پھر اس شاگرد نے سوال کیا کہ بتائیں ان تصاویر میں سے کن کن ممالک کے سربراہ موجود ہیں۔ اس سوال کا جواب آسان نہ تھا کیونکہ تمام ہی کا لباس ٹائی، پینٹ کوٹ جیسا تھا۔ پھر میرے شاگرد نے تصویر سے اسکیل کو ہٹایا تو معلوم ہوا کہ ان تصاویر میں امریکی صدر اوباما کے علاوہ پاکستان سمیت مزید چار اسلامی ممالک کے سربراہ موجود تھے۔ بقول ہمارے شاگرد کے ہمارے مختلف رہنما جو قوم کی رہنمائی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اسلامی پلیٹ فارم بھی استعمال کرتے ہیں ان کا معاملہ بھی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور کرداروں کے معاملے میں ایسا ہی ہے جب کہ دوسرے قسم کے لوگ جو مشابہ Resemble ہوتے ہیں ۔

ان کے قول و فعل اور شخصیات کے تمام پہلوؤں میں تضاد نہیں ہوتا وہ جن اسلامی شخصیات سے محبت اور عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اس کا سراپا مجسمہ بھی ہوتے ہیں ان کی شخصیت ہو بہو ان سے مشابہ ہوتی ہے جن اسلامی شخصیات سے وہ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کو اپنا حقیقی رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں۔ہمارے شاگرد کی بات حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ آج ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو واقعی دعویٰ تو اسلام کا کرتے ہیں اور اسلام کے نمایندہ بن کر آگے آگے نظر آتے ہیں لیکن وہ Resemble اسلام کے نہیں ہوتے بلکہ وہ مغرب کے Resemble ہوتے ہیں شاید اس لیے کہ وہ مغرب سے متاثر ہیں؟

اسی لیے ان کی شخصیت مغرب سے مشابہ یعنی Resemble نظر آتی ہے۔بات بظاہر چھوٹی سی ہے مگر نہایت اہم ہے آج ہمارے اردگرد چھوٹی بڑی بے شمار تحریکیں، انجمنیں وغیرہ اسلام کے نام پر بنی ہوئی ہیں اور ان کے قائدین بھی ذرایع ابلاغ پر بڑے بڑے پروگرام کرتے نظر آتے ہیں لیکن عام مشاہدہ یہی ہے کہ یہ سب اسلام کی نمایندگی تو ضرور کر رہے ہوتے ہیں یعنی بظاہر یہ نمایندے تو ضرور ہوتے ہیں مگر اسلامی شخصیات و اسلاف کے ظاہر اوصاف کی بھی جھلک یا مشابہت ان میں نظر نہیں آتی مثلاً لباس مغربی طرز کا ہوگا یا اگر اسلامی ہے تو ظاہرہ یعنی اس قدر خوبصورت اور مہنگا کہ ایک مزدور کی ایک دن کی اجرت میں بھی خریدا نہ جاسکے جب کہ ہمارے اسلاف نہ صرف سادگی کی تعلیم دیتے تھے بلکہ خود بھی سادہ لباس پہنتے تھے قیمتی لباس سے اجتناب کرتے تھے۔ عمر بن خطاب کا تو مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز مسجد میں امامت کے لیے دیر سے تشریف لائے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ نے جو جوڑا پہنا ہوا تھا اس کو دھو کر ڈالا ہوا تھا اور خشک ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

یہ کردار کہ سربراہ مملکت ہوتے ہوئے بھی آپ پہننے کے لیے صرف ایک جوڑا استعمال کر رہے تھے۔ ہمارے خلیفہ اول کپڑے کے بڑے تاجر ہونے کے باوجود درجن بھر پیوند لگے جوڑے کو پہنتے تھے۔ سادگی کا یہی حال ہمارے اسلاف کی مجلسوں میں ہوا کرتا تھا مگر آج صورتحال اس کے قطعی برعکس ہے۔ میلاد شریف جیسی مقدس محفل میں ہدیہ نعت کے لیے آنیوالے نعت خواں 16 گریڈ کے سرکاری افسر کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ نذرانہ وصول کرتے ہیں اور میلاد شریف منعقد کرنیوالے بھی چند گھنٹے کی میلاد پر لاکھوں روپے اسٹیج وغیرہ کے لیے خرچ کر دیتے ہیں جس سے سادگی بھی ختم ہوجاتی ہے اور میلاد کا روح پرور ماحول بھی چمک دمک میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں بچپن میں اپنے والد کے ساتھ نعت اور سماع وغیرہ کی محفل میں جاتا تھا وہ محفلیں پوری رات چلتی تھیں اور پوری رات ایک لمحے کو بھی اٹھ کر کہیں جانے کو دل نہ چاہتا تھا شاید بلکہ یقینا سادگی کے ساتھ ہی روح پرور ماحول بنتا ہے نہ کہ مذہبی تقریبات کو کمرشل یا سرمایہ دارانہ رنگ دینے سے۔خیر بات ہو رہی تھی Resemble یا مشابہ ہونے کی، آج تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگانیوالے بھی اکثر مغرب کے دلدادہ اور مشابہ نظر آتے ہیں ان کی رہائش گاہ، سواری، گھر میں امریکن کچن، لان میں امریکن گھاس کی موجودگی اس بات کا مظہر ہے کہ اسلامی شخصیات سے مشابہ نہیں ہیں بلکہ مغرب یا جدیدیت سے متاثر ہیں اسی لیے وہ محض اسلام کے نمایندہ بن کر رہ گئے ہیں۔ انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے۔

اس کو اپناتا بھی اور اس جیسا نظر بھی آنا چاہتا ہے۔ اس طرح اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو اسلام کے نام لیوا تو بہت نظر آتے ہیں اور آپؐ سے محبت کے بڑے بڑے دعوے کرتے بھی نظر آتے ہیں مگر جب وہ کسی پروگرام میں اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو اس سنت کے قطعی برعکس نظر آتے ہیں جس کے تحت آپؐ پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے، ایک ہی جوڑا اس قدر استعمال کرتے رہتے کہ اس کے ریشے نکلنے لگتے۔ انتہائی قیمتی اور کلف لگے کپڑے پہن کر اسٹیج پر بیٹھے لوگ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مفلسی سے کوسوں دور ہیں اور شاید مفلسی کو اچھا بھی نہیں سمجھتے جب کہ حدیث شریف کے مفہوم کیمطابق آپؐ نے مفلسی میں رہنے اور مفلسی میں ہی اٹھانے کی دعا مانگی۔

VIP کلچر کا تعلق تو اسلامی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا مگر یہاں تو عجب شان و شوکت کے ساتھ مذہبی VIP کلچر بھی شاید دین کا لازمی حصہ بنادیا گیا ہے۔یہ باتیں یقینا کڑوی ہیں لیکن ہو تو یہی رہا ہے، امام غزالی کے کہے ہوئے الفاظ تو آج بھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عجز و انکساری، سادگی اور دیگر اسلامی تعلیمات کی تصویر کس کو ہونا چاہیے؟ کیا عوام کو؟ عوام تو اپنے بڑوں کو دیکھ کر عمل کرتے ہیں لیکن جب بڑے ہی حدیث اور مغربیت کی تصویر بن جائیں اور محض اسلامی نمایندے بن جائیں تو عوام کس کے حلیے کی پیروی کریں؟ وہ سنت کیمطابق سادگی کو اپنائیں یا اپنے رہنماؤں کی طرح شان و شوکت کی زندگی گزارنے کی کوشش کریں؟ جب تک زندگی کے ہر شعبے میں اپنے دین کے اسلاف کی پیروی نہیں ہوگی تو کامیابی کیسے ہوگی؟آئیے غور کریں آپ اور میں زندگی کے کس کس پہلو میں اسلام کے نمایندے ہیں یا اسلامی شخصیات سے مشابہ (Resemble) ہیں؟ دہری شخصیت سے نہ انفرادی کامیابی ممکن ہے نہ اجتماعی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔