(دنیا بھر سے) - روس جاگ رہا ہے

 جمعـء 5 دسمبر 2014
روس یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو تباہ کرنے کے لیے دنیا اکٹھا ہوگئی ہے اور اِسی دوران روس نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ امریکا سے دوستی نبھاتے نبھاتے ہمیں 67 برس ہوگئے ہیں لیکن حالات جوں کے توں نہیں بلکہ تنزلی کی جانب جارہے ہیں تو اب پاکستان کو ایک موقع روس کو بھی دینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

روس یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو تباہ کرنے کے لیے دنیا اکٹھا ہوگئی ہے اور اِسی دوران روس نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ امریکا سے دوستی نبھاتے نبھاتے ہمیں 67 برس ہوگئے ہیں لیکن حالات جوں کے توں نہیں بلکہ تنزلی کی جانب جارہے ہیں تو اب پاکستان کو ایک موقع روس کو بھی دینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

تیل کی قیمتیں گرنے سے کہیں خوشی ہے تو کہیں غم ہے۔غریب ممالک کے لوگوں کی خوشی سے’’بتیسی‘‘ نکل آئی ہے تو امیر ممالک کے امیروں کے آنسو۔ اب تو انہوں نے سسکیاں بھی لینی شروع کردی ہیں اور روسی پارلیمان سے سالانہ صدارتی خطاب کے دوران روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ دنیا میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور مشرقی یوکرین میں روسی کردار ، مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے روس کو معاشی طور پر بہت نقصان پہنچا ہے،ساتھ ساتھ روسی صدر نے اپنے عوام کو ملک سے باہر لے جائے گئے سرمائے کی واپسی پر عام معافی دینے کی تجویز دی بھی دی ہے۔

پیوٹن صاحب فرماتے ہیں کہ مغربی ممالک روس کے گرد نئی آہنی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ غیرملکی دشمن روس میں یوگوسلاویہ جیسے حالات پیدا کرنے کے حامی ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور علیحدگی پسندوں کو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے نہیں دیا جائے گا۔

دنیا پہلے نوآبادیاتی نظام کا شکار ہوئی،پھر بائی پولر نظام کے تحت ظلم ڈھایا جاتا رہا  اور جب روس ٹوٹا تو دنیا یونی پولر ہوگئی۔ اب ایک بار پھر تبدیلی آرہی ہے،اب دنیا ملٹی پولر ہونے جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں کئی معاشی طاقتیں وجود میں آ چکی ہیں،چین نے امریکی معیشت کو شکست دی ہے تو یورپ میں ترکی معاشی حب بن کر ابھر رہا ہے جبکہ ملائیشیا کی معیشت بھی اپنا لوہا دنیا پر منوا چکی ہے۔ اِس کے علاوہ جنوبی ایشیاء میں بھارتی عوام کے حالات نہیں بدلے تو کیا؟ ُاس کی معیشت تو اپنے تیور بدل رہی ہے،عرب ممالک نے امریکہ کو اپنے خطے میں بلا کر مشکلات پیدا کر لی ہیں۔  امریکہ وہ دوست ہے جس نے جب بھی کسی کیلئے  خیر خواہی چاہی اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔  امریکہ کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس کا برملا اعتراف ایک سابق امریکی صدر کرچکے ہیں،کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی دشمن کو تباہ کرنا ہے تو اسے دوست بنا لو۔معروف امریکی مصنف نوم چومسکی کا خیال کہ امریکہ کا دشمن ہونے سے بدتر اس کا دوست ہونا ہے۔آج امریکہ شام کے عوام،ایران اور دیگر عرب ممالک سے دوستی کا ہاتھ ملا رہا ہے،کل یہی ہاتھ شانوں سے جدا کردے گا۔محبت کیلئے زبانیں گنگ کردے گا۔

امریکا اور مغربی ممالک نے کچھ غلطیاں کی لیکن اُس کا نتیجہ ایشیا اور مشرق وسطٰی اب تک بھگت رہے ہیں۔ نابغیر تحقیق افغانستان و عراق پر حملہ آور ہوا جاتا اور نہ آج یہ دونوں خطے مسائل کے انبار تلے ڈوبتے۔ معیشت کا نقصان تو اپنی جگہ مگر جناب تو قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہے وہ یقینی طور پر ناقابل تلافی ہے۔ اب ایک اور غلطی امریکہ نے عرب خطے میں داعش کی صورت میں کردی ہے،حالانکہ امریکہ نے یہ دانستہ غلطی عرب ممالک کے وسائل پر قبضہ جمانے،پرانے دشمن اور نئے دوست ایران کو سبق سکھانے کیلئے کی ہے لیکن اب کی بار ایران تو شاید بچ جائے مگر امریکہ نہیں بچے گا بھلا کیوں؟ اُس کی وجہ یہ ہے کہ بوڑھا روس جاگ رہا ہے،برف میں ڈھکے خطے کے جذبات میں حرارت جنم لے رہی ہے،یہ آنسو،یہ آہیں ایسے ہی نہیں۔

چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں۔

1947 سے روس اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کا ماحول رہا اور پاکستان کا جھکاو ہمیشہ سے امریکا کی طرف ہی رہا حالانکہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے اگر اُصولوں کو پڑھاجائے تو یہ بات صاف صاف عیاں ہے کہ کسی بھی ملک کے بہتر حالات کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک  سے بہتر تعلقات سے استوار کرے مگر پاکستان نے اِس اصول پر کبھی کان نہیں دھرے اور اُس کا نتیجہ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن اب کی بار روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے،اپنے وزیردفاع کو پاکستان بھیجا اور اب نمائش کیلئے اپنا اسلحہ بھی۔یہ نئے رشتے،یہ نئی  دوستی تبدیلی کا اشارہ کررہی ہے۔  بحیثیت پاکستانی یہ ضرور کہنا چاہوں کہ امریکا سے دوستی نبھاتے نبھاتے 67 برس ہوگئے ہیں لیکن حالات جوں کے توں نہیں بلکہ تنزلی کی جانب جارہے ہیں تو پاکستان کو ایک موقع روس کو بھی دینا چاہیے ۔۔۔ اگر ہم نے خطے کے دو ممالک یعنی چین اور روس سے دوستی کرلی تو کوی اُمیدہے کہ ہمارے حالات بہتری کی جانب ضرور گامزن ہونگے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔