ساکت بس

راؤ منظر حیات  ہفتہ 6 دسمبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ابھی  سفرختم نہیں ہوا۔بیرون ملک جاکرایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے۔دنیاکے تمام ممالک اپنی کمزوریوں کوطاقت میں بدل رہے ہیں۔ان کے حکمران سمجھ چکے ہیں کہ عوام کوسہولتیں فراہم کیے بغیروہ اقتدارمیں نہیں رہ سکتے۔ اگرکسی ملک میں جنگلات ہیں توانھوں نے اس کے توسط سے سیاحت کاایک ایسانظام قائم کردیاہے کہ لوگوں میں خوشحالی کی لہرآچکی ہے۔اگرکسی ملک کے پاس افرادی قوت زیادہ ہے تووہ اسے مختلف اقسام کے ہنر سکھا کر پوری دنیامیں پھیلارہے ہیں۔افریقہ کے ممالک جہاں جہالت نے صدیوں سے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے،حیران کن  رفتار سے ترقی کر رہے ہیں۔یہ انتہائی متاثرکن تبدیلی ہے۔

میں پہلی بارافریقہ آیاہوں۔مجھے افسوس ہے کہ میں یہاں پہلے کیوں نہیں آیا۔میرا ان ممالک کے متعلق نظریہ مکمل طورپرتبدیل ہوچکاہے۔ساؤتھ افریقہ انتہائی ترقی یافتہ  ہے۔ پورے ملک میں موٹرویزکاجال بچھاہواہے۔ (SunCity)سن سٹی دارالحکومت پری ٹوریا سے دوگھنٹے کی مسافت پرہے۔یہ سیاحت کاایک شہکار ہے۔یہاں خوبصورت ہوٹل،جھیلیں،مقامی ثقافت کے نمونے اور Casinoموجودہیں۔ایک مقام پرپانی میں مصنوئی طریقے سے لہریں پیداکی جارہی ہیں۔یہ بہت بڑی جھیل سی ہے۔

اس جھیل میں ہزاروں لوگ تیررہے تھے۔اس میں وقت گزارنے کی فیس تیس ڈالرتھی۔جس پُل سے گزرکرآپ جھیل کی جانب جاتے ہیں،وہ ایک حیرت انگیزشہکارہے۔پُل کے دونوں طرف ہاتھی کے بیس پچیس بڑے بڑے مجسمے نصب کیے گئے ہیں۔جس سمت سے آپ پُل پرآتے ہیں، مختلف جانوروں کے دیوہیکل تصاویرپتھرپرکنداں نظر آتی ہیں۔اس پُل کی خاص بات یہ ہے کہ ہردس منٹ کے بعد اس میں ایک مشین کے ذریعے زلزلہ برپاکیاجاتاہے۔پوراپُل ڈولنے لگتاہے۔ایسے لگتاہے کہ یہ فورًاگرجائے گا۔اگرآپ کوعلم نہ ہوتوانسان ڈرجاتاہے۔

یہ دوتین منٹ کازلزلہ بذات خودایک خوبصورتی ہے۔اس کے ساتھ مقامی موسیقی شروع ہوجاتی ہے۔سیاحوں کی اتنی تعداداس جھیل کی طرف جارہی تھی کہ میں شمارنہیں کرسکتا۔یہاں فائیوسٹارہوٹل،گالف کورس اورزولوقیلہ کاایک گاؤں بھی بنایاگیاہے۔اس جھیل سے تھوڑاساآگے ایک اورآبی ذخیرہ ہے۔اس کے اردگرد شاندار ہوٹلز ہیں۔آپ کھانا کھاتے ہوئے اگرڈبل روٹی کاچھوٹاساٹکڑاپانی میں ڈال دیتے ہیں توسیکڑوں مچھلیاں جمع ہوجاتی ہیں اور ایک خاص آوازپیداہوتی ہے۔اس ہوٹل میں جوبھی لوگ کھاناکھانے آتے ہیں، وہ باقاعدگی سے ان مچھلیوں کوغذافراہم کرتے ہیں اور اس نظارہ سے لطف اندوزہوتے ہیں۔اس جھیل میں پانی میں چلنے والے اسکوٹراورمختلف کھیلوں کاانتظام کیاگیاہے۔ مختلف لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ پانی میں اسکوٹرچلارہے تھے۔ مجھے یہاں ہرشخص خوش نظرآرہاتھا۔

جوبھی پانی میں کھیلنے کے لیے جاتاہے اسے  حفاظتی جیکٹ پہنادی جاتی ہے۔خدانخواستہ اگرکوئی بھی حادثاتی طورپرپانی میں گربھی جائے تویہ جیکٹ اسے ڈوبنے نہیں دیتی۔یہ تمام جگہ ایک پرائیویٹ کمپنی نے بنائی ہے۔لوگوں کے لیے ہردوتین منٹ کے وقفہ سے بسیں چلائی گئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تیس چالیس فٹ کی بلندی پرایک پُل بنایاگیاہے۔اس پُل پرایک ٹرین چلائی گئی ہے۔جولوگ بس پرسفرنہیں کرناچاہتے وہ ٹرین کے ذریعہ ہرجگہ پہنچ سکتے ہیں۔اس جگہ پراربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔لوگوں کاایک ہجوم ہے جواس طرف چھٹیاں گزارنے کے لیے بے تاب رہتاہے۔حکومت کوٹیکس کے ذریعے یہاں سے بے پناہ آمدنی ہوتی ہے۔

سن سٹی(Sun City)میں دن گزارنے کے بعدمجھے مقامی گائیڈنے مشورہ دیاکہ اس کے نزدیک ایک وائلڈلائف پارک ہے۔میں اس پارک میں گیا توششدررہ گیا۔ پہاڑوں کے درمیان سیکڑوں ایکڑ پرایک جنگل موجودتھا۔اس میں کچی سڑکوں کاایک جال ہے۔ہرطرف گائیڈاورحفاظتی عملہ موجودتھا۔ہاتھیوں کے جھنڈکے جھنڈقدرتی ماحول میں چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔آپ کوگاڑی سے باہرنکلنے کی اجازت نہیں۔ اس فطری ماحول میں تمام جانورموجودہیں۔میں نے ہرنوں کے چھوٹے چھوٹے بچے دیکھے۔یہ بچے بلاخوف اس طرح چوکڑیاں بھررہے تھے کہ گمان ہوتاتھاکہ وہ ہوامیں باقاعدہ پروازکررہے ہیں۔واپسی پرمیں نے زندگی میں پہلی مرتبہ آزادماحول میں گینڈے انتہائی قریب سے دیکھے۔

ان تمام جانوروں کوعلم ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔لہذاوہ انسانوں سے بالکل نہیں ڈرتے۔آپ ان کے قریب جاکرگاڑی کھڑی کردیں توبھی وہ آرام سے کھڑے رہتے ہیں۔آپ ان کی تصویریں لیں،توبھی ان کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ سیاح گاڑیوں میں کیمرے لے کرجانوروں کی تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔پورے ساؤتھ افریقہ میں کوئی چڑیا گھرنہیں ہے۔یہاں جانوروں کوقیدمیں رکھنے کاکوئی رواج نہیں ہے۔صرف والڈلائف پارکس ہیں۔پوری دنیاسے سیاح یہاں آکر حیرت انگیز نظارے دیکھتے ہیں۔یہ تمام شعبے حکومت نے نجی کمپنیوں کودے رکھے ہیں۔ان لوگوں کوادراک ہے کہ سیاحت ان کی آمدنی اورخوشحالی کاذریعہ ہے۔یہ لوگ جانوروں کی مکمل حفاظت کرتے ہیں کیونکہ ان جانوروں سے ان کارزق وابستہ ہے۔میں نے ساؤتھ افریقہ میں ایک خاص چیز محسوس کی۔

اسے آزادہوئے صرف بیس برس ہوئے ہیں مگریہاں مقامی انگریزوں نے دلی طورپراس تبدیلی کوقبول کرلیاہے۔سیاہ فام اورانگریز مل جل کرپورانظام چلارہے ہیں۔حکومت اس وقت سیاہ فام لوگوں کے پاس ہے۔ انگریز اب حکومتی اداروں میں موجودضرورہیں مگروہ ادارے میں باس قطعاًنہیں ہیں۔یہ اَمرمیرے لیے حیران کن تھاکہ انھوں نے اس تبدیلی کومسئلہ نہیں بننے دیا۔پاکستانی ہزاروں کی تعدادمیں ہیں۔وہ ہرطرح کاکاروبارکررہے ہیں۔موبائل فون کے کاروبارمیں ان کی مکمل اجارہ داری ہے۔مجھے بتایاگیاکہ تقریباًنوے فیصد کاروبار پاکستانیوںکے پاس ہے۔ چائنہ مارکیٹ اور دوسرے بازاروں میں  ہمارے لوگوں کی لاتعداد دکانیں ہیں۔

میں کراچی کے ایک تاجرسے ملا۔وہ تقریباًچالیس سال کاتھا۔اس نے پری ٹوریاکے نزدیک صابن اورکیمیکل بنانے کاکارخانہ لگایاہواہے۔ میں جب  وہاں گیاتو سیکڑوں لوگ کام کررہے تھے۔یہ ساؤتھ افریقہ کاصابن بنانے کاسب سے بڑاکارخانہ تھا۔اس نوجوان نے یہ کاروبارصرف دس سال میں مستحکم کیاتھا۔اپنے ہم وطن کوپھلتے پھولتے دیکھ کر عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

میں کئی سرکاری اداروں میں گیا اور محسوس کیاکہ ان لوگوں کے ذہنوں میں ہمارے ملک کے متعلق کئی سوالیہ نشان ہیں۔ ایک میٹنگ میں باقاعدہ ہمارے وفدکوکہاگیاکہ وہ ہم لوگوں سے کچھ سوال پوچھناچاہتے ہیں۔اس نشست میں دس بارہ افرادتھے۔ان میں ہرایک تفصیل سے پاکستان کے حکومتی امورکوسمجھنے کی کوشش کررہاتھا۔یہ نشست گھنٹوں پرمحیط تھی مگر سوال ختم نہیں ہوئے۔دہشت گردی کے حوالے سے وہ باربار پوچھتے تھے کہ ہمارامسئلہ کیاہے اورہم اسے حل کیوں نہیں کرپا رہے؟ کئی سوالات بہت مشکل تھے۔ان کاہمارے ملک کے متعلق تجسس حیرت انگیزتھا۔

پاکستان سفارت خانہ پری ٹوریامیں ہے۔جب میں سفارت خانہ میں گیاتووہاں بجلی نہیں تھی۔معلوم ہواکہ ہماری طرح یہاں بھی لوڈشیڈنگ کی بلاموجودہے۔ہم لوگ تولوڈشیڈنگ کے عادی ہوچکے ہیں۔مگر وہاں  یہ مسئلہ  نیا ہے۔ پورے ملک میں کم ازکم تین سے چارگھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔اس معاشرے کے چندتکلیف دہ پہلوبھی سامنے آئے۔ایک توجرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔دوسرایہ لوگ ابھی تک آزادی کے تمام فوائدحاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔کرپشن پورے معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے۔

ہمارے وفدکوبارباربتایاگیاکہ رات کوہوٹل سے باہرنکلنے میں احیتاط کریں۔ہرگھرمیں حفاظتی اقدامات واضح طورپر نظر آتے ہیں۔اونچی اونچی دیواریں،کیمرے اوربرقی تاریں ہرگھرمیں موجودہیں۔جرائم کی اصل وجہ وہی ہے جوہمارے ملک میں ہے۔دولت کاچندمخصوص ہاتھوں میں غیرمعمولی ارتکاز۔رشوت  عام سی چیزہے۔جوترقی انگریزوں نے اپنے دورمیں کی تھی،اُسی ترقی کی بنیادپریہ ملک قائم ہے۔یہ عمل کتنے عرصے جاری رہتاہے۔اس پرحتمی طورپرکچھ کہناممکن نہیں مگرجرائم اورکرپشن نے اس ملک کوکافی حدتک غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔

مجھے پری ٹوریاسے باہرنکل کرکئی مقامی بستیاں دیکھنے کااتفاق ہوا۔جابجاکوڑے کے ڈھیر،ٹین کے بنے ہوئے مکانات اورگندے بازارہرجگہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ تمام سیاہ فام لوگ ابھی تک ملکی معیشت سے مستفیدنہیںہوپائے۔غریب انتہائی غریب ہے اورامیر انتہائی امیر۔آپ بے روزگاری کااس اَمرسے اندازہ لگائیے کہ ہمارے وفدکی گاڑی کاڈرائیور انجینئرتھا۔اسے انجینئرنگ کیے ہوئے چھ سات سال ہوچکے تھے۔مگرروزگارنہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈرائیوربننے پرمجبورتھا۔

پاکستان کے سفیرنجم ثاقب بھرپورانسان ہیں۔میری ان سے پہلی ملاقات تھی مگراجنبیت کااحساس نہیں ہوا۔جب میں ان کے گھرگیاتوڈرائنگ روم کی دیوارپردوہولڈنگزلگی ہوئی تھیں۔منیرنیازی،افتخارعارف اوردیگرشعراء کے نام پڑھ کرچونک گیا۔مجھے اس وقت تک معلوم نہیں تھاکہ نجمؔ ایک صاحب دیوان شاعرہیں۔مجھے ان کی شاعری سننے یاپڑھنے کااتفاق نہیں ہواتھا۔میری درخواست پرانھوں نے اپنی دو کتابیں مجھے دیں۔ان میں سے ایک شاعری کی کتاب اور ایک ناول تھا۔میں نے یہ دونوں کتابیں بڑے اطمینان سے دوراتوں میں پڑھ ڈالیں۔شاعری انتہائی متاثرکن تھی۔دوسری نشست میں میں نے انھیں کلام سنانے کے لیے کہا۔کلام اوراس کی ادائیگی پُرتاثیرتھی۔نجم ثاقب نے اپنی ادبی زندگی اورسرکاری مصروفیت میں ایک توازن قائم رکھاہواہے۔دوسری نشست میں کمرشل قونصلرقمربھی تھے۔وہ تقریباًایک سال سے سفارت خانہ سے منسلک ہیں۔ مگر انھوں نے مجھے بتایاکہ نجم صاحب نے پہلی بارانھیں شعرسنائے ہیں۔

میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ ایک انسان شاعربھی ہواورلوگوں کوشعرنہ سنائے۔شائداس کی وجہ وہ انکساری اورعجزہے جواس شخص میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔دوسری نشست اس لحاظ سے بے مثال تھی کہ اس میں مجھے انتہائی خوبصورت شاعری سننے کاموقع ملا۔ سرکاری ملازمت میں اپنی حِس ادب کوقائم رکھنا،عام بات نہیں ہے۔یہ یادگارنشست تقریباًدوگھنٹے جاری رہی۔ ساؤتھ افریقہ دیکھ کرمیرے ذہن میں یہ خیال باربار آرہاہے کہ اگرتمام مشکلات کے باوجودیہ ملک ترقی کررہاہے توہماراکیامسئلہ ہے۔انٹرنیٹ پرجب بھی اخبار پڑھنے کاموقع  ملاتو نعرے اورالزامات کی بوچھاڑکے سوا کچھ نظرنہیں آسکا۔

اب توایک دوسرے پرکیچڑاچھالتے ہوئے تہذیب اورشائستگی کادامن بھی ہاتھ سے نکل چکاہے۔ مجھے ایسالگتاہے کہ ہماراملک ایک ساکت بس کی طرح ہے۔اس کاانجن نکال لیا گیاہے۔ ٹائرچوری ہوچکے ہیں اور یہ اینٹوں پرکھڑی ہے مگر سیاسی قیادت ہمیں یقین دلارہی ہے کہ یہ انتہائی تیزرفتاری سے چل رہی ہے۔کھڑی ہوئی بس کی سواریوں کوروز بتایا جا رہا ہے کہ منزل بہت نزدیک ہے،صرف ایک موڑکاسفرباقی رہ گیاہے۔کم ازکم ساٹھ سال سے یہ توموڑنہیں آسکا، معلوم نہیں کتناانتظارباقی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔