اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی ضرورت

ایم آئی خلیل  ہفتہ 6 دسمبر 2014

چند دن قبل ’’اوپیک‘‘ ممالک نے ویانا کے اجلاس کے موقعے پر فیصلہ کیا کہ رکن ممالک تیل کی یومیہ پیداوار میں کمی نہیں کرینگے۔تیل کی یومیہ پیداوار 3 کروڑ بیرلز سے زائد ہے جسے برقرار رکھا جائے گا۔ تیل کی عالمی قیمت جوکہ طلب میں کمی کے باعث چند ماہ سے پہلے ہی گر رہی تھی ان فیصلوں کے ساتھ ہی اس میں مزید کمی واقع ہوکر 4 سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ قیمت 60 ڈالر تک بھی گرسکتی ہے۔

اوپیک ممالک کی تنظیم نے 70 کی دہائی میں زبردست قوت حاصل کرلی تھی لیکن 80 کی دہائی کے بعد اپنی سابقہ قوت برقرار نہ رکھ سکی۔ 1973 میں اوپیک ممالک نے دنیاکو اس وقت تیل کے زبردست بحران سے دوچارکردیا تھا جب تیل کی عالمی قیمت 12 ڈالر سے بڑھ کر 60 ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ اس موقعے پر ترقی یافتہ ممالک کو زبردست دھچکا پہنچا تھا۔ مغربی ممالک کے معاشی اشاریے زبردست منفی رجحان کا اظہار کر رہے تھے۔ اکتوبر 1973 میں شروع ہونے والا یہ بحران مارچ 1974کو اس وقت ختم ہوا جب سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کردیا جب کہ 70 کی دہائی میں عراق اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کی خاطر دیگر طریقوں سے بھی منڈی میں تیل فروخت کیا کرتا تھا۔

اوپیک کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تیل کے 70 فیصد ذخائر ان ملکوں میں موجود ہیں جو کہ اوپیک کے ممبر ہیں۔ اوپیک کے اصل مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قیمت بڑھانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ قیمت کو متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ طلب و رسد میں توازن بھی برقرار رکھا جائے۔ اس وقت چین کی سست رفتار ترقی یورپی ممالک کی مالی طور پر مشکلات اور دنیا کی معاشی ترقی میں قدرے کمی کے باعث تیل کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔ نیز امریکا کی طرف سے طلب میں کمی اور چین کی طرف سے طلب میں کمی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی طلب کم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف اوپیک ممالک نے اپنے اجلاس میں پیداوار میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

گزشتہ دنوں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ایک دفعہ پھر 71 ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 64 ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ لیکن اس فیصلے سے کئی رکن ممالک مشکلات کا شکار ہوکر رہ جائیں گے جن میں ایران شامل ہے۔ دوسری طرف تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث روس شدید مشکلات کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔ کچھ عرصے سے روس پر عالمی پابندیوں کے باعث بھی روس مالی مسائل سے دوچار رہا ہے۔ لیکن روسی حکومت نے یہ عندیہ دیا تھا کہ اسے کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے اور روس کو بھی اپنے مالی مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تیل کی قیمت کم ازکم 100 ڈالر فی بیرل ہو۔ لیکن اس وقت قیمتوں میں کمی کے باعث اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث بہت سے ممالک جوکہ تیل برآمد کرنے والے ہیں انھوں نے اپنے بجٹ میں کمی کا عندیہ دے رکھا ہے۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک کے تیل کے درآمدی بلوں میں کمی کے باعث ان کی معیشت کے اشاریے مثبت رجحان کے حامل ہوجائیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی صارفین کے حلقوں سے یہ مطالبہ سامنے آنے لگا کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ ٹرانسپورٹرز بدستور پہلے کی طرح بڑھے ہوئے کرایے وصول کر رہے ہیں۔ جہاں تک کرایوں کا تعلق ہے تو ٹرانسپورٹرز کو ترغیب دینے کی خاطر یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر ریل کے کرایوں میں کمی کی جائے۔

اسی طرح مال گاڑیوں کے کرایوں میں بھی کمی کی جائے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے کرایوں میں کمی کے خاطر خواہ اثرات ٹرانسپورٹرز پر مرتب ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ٹرینوں کو وقت کا پابند بھی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے جہاں ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایوں میں کمی کی جانی ضروری ہے۔ اور یہ کمی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تناسب سے ہونا چاہیے نا کہ معمولی کمی کرکے بھی کرایہ پھر بھی پہلے جتنا ہی وصول کرتے رہنا۔ کرایوں میں کمی کے سلسلے میں ٹرانسپورٹرز جوکہ سی این جی استعمال کرتے ہیں اب یہ راگ الاپنا شروع کردیا ہے کہ سی این جی کی قیمتوں میں کمی کی جائے پھر کرایوں میں کمی کی جائے گی۔ نیز حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی لانے کی ضرورت ہے تاکہ مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جاسکے۔ اس وقت ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کے لیے واضح لائحہ عمل طے نہ کرسکی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی میکانزم تیار کیا جاسکا ہے۔

عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی سے جہاں اس بات کی توقع پیدا ہوگئی ہے کہ ماہ جنوری میں پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے اثرات پر بھی اگر عوام خوشگوار نہ محسوس کرسکے تو یہ حکومت کی قیمتوں میں کنٹرول پر ناکامی کا باعث ہوگا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باعث پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں بھی سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کی بچت ہوگی۔ قیمتوں میں کمی کی خاطر ضروری ہے کہ ڈالر کی قیمت بھی کم رہے اس میں مزید اضافہ نہ ہو بلکہ کسی حد تک قدرے کمی ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات کو زائل کردیتا ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تجارتی خسارہ زیادہ نہ بڑھ جائے جس سے روپیہ دباؤ کا شکار ہوکر رہ جائے۔ نیز بجلی کی قیمتوں میں کمی سے بھی اشیا کی لاگت میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے مہنگائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو لیکن بجلی گیس کی قیمت بڑھ گئی تو ایسی صورت میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہوکر رہ جاتا ہے لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں بھی پہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجلی گیس کی قیمتوں میں کمی کے مثبت اثرات اشیا خورونوش پر بھی مرتب ہوں۔ اور مجموعی طور پر بجلی گیس کی قیمتوں میں کمی سے بالاخر جب اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی بجلی کے بل کم ہوں گے نیز اوور بلنگ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے دیگر ریلیف ملنے کے بعد بھی عوام حقیقی معنوں میں حقیقی ریلیف محسوس کریں گے۔

بصورت دیگر پچھلے ماہ نومبر میں قیمت میں کمی کی گئی ماہ دسمبر میں کئی روز ہوگئے لیکن کسی شے کی قیمت میں کمی نہ ہوسکی۔ لہٰذا حکومت آگے بڑھے ایک واضح حکمت عملی اختیار کرے اس موقعے سے فائدہ اٹھائے تمام تر اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی کرایوں میں نمایاں کمی پر سختی سے عملدرآمد کرے تاکہ غریب عوام کو آٹا، چینی، دودھ، گھی اور دیگر اشیائے خورونوش سستی ملنے لگیں تو عوام بھی حقیقی معنوں میں ریلیف محسوس کرسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔