بُک شیلف

ڈاکٹر آصف محمود کی کتابوں کے نام 2،3 لفظوں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔۔ فوٹو: فائل

ڈاکٹر آصف محمود کی کتابوں کے نام 2،3 لفظوں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔۔ فوٹو: فائل

تھر، پیاس اور پانی

مصنف: ڈاکٹر آصف محمود جاہ،قیمت: 450روپے

ناشر: علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ،40۔ اردو بازار لاہور

ڈاکٹر آصف محمود جاہ جتنے اچھے انسان ہیں، اتنے ہی اچھے معالج ہیں اور اتنے ہی اچھے مصنف۔کمال کی بات یہ ہے کہ جو لکھتے ہیں اسے دو تین لفظوں کے عنوان میں بند کردیتے ہیں۔ اب تک ان کی جتنی کتابیں آئی ہیں ان کے نام دو، تین لفظوں ہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ’اللہ، کعبہ اور بندہ‘،’ سندھ ، سیلاب اور زندگی‘،’ دوا، غذا اور شفا‘،’ ڈوبتے شہر‘،’ فیملی ہیلتھ‘ اور ’ ٹین ایج گائیڈ‘۔ ان میں سے زیادہ تر کتابوں کے عنوان دیکھ کر ہی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کیا کرتے ہیں مثلاً’ سندھ ، سیلاب اور زندگی‘،’ ڈوبتے شہر‘ اور زیرنظرکتاب’ تھر، پیاس اور پانی‘۔ جی ہاں! ڈاکٹرصاحب لوٹ مارکرنے والے ڈاکٹرنہیں ہیں، وہ اپنی ضرورت کے لئے کماتے ہیں اور باقی سارا وقت کسی آفت زدہ علاقے میں گزارتے ہیں اور اپنا تن، من اور دھن آفت سے پریشان لوگوں کے لئے وقف کئے ہوتے ہیں۔

2005ء میں زلزلہ آیاتو ڈاکٹرصاحب زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچ گئے، اس کے بعد سیلاب نے سندھ میں تباہی مچائی تو ڈاکٹرصاحب کے شب وروز وہاں بسرہونے لگے، اب تھر میں المیہ نے جنم لیا تو ڈاکٹر صاحب ان پیاسے لوگوں کے درمیان پہنچ گئے۔ ڈاکٹرصاحب ان علاقوں میں وقت گزارتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس علاقے کے مسائل کو نوٹ کرناشروع کردیتے ہیں، کچھ اپنی آنکھ سے اور کچھ مصیبت زدہ لوگوں کی زبان سے۔بعدازاں ان معلومات، مشاہدات اور تجربات کو کتاب کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔

زیرنظرکتاب میں جہاں تھر کی تاریخ کا مفصل ذکرکیاگیاہے، وہاں تھر کے بے شمار مصیبت زدہ لوگوں کی کہانیاں لکھی گئی ہیں، جن سے تھر کے اصل مسائل سے آگہی ملتی ہے۔ یہ تھر میں قحط ، بھوک اور بیماری سے سسکتی انسانیت کی پکارپر عزم وہمت اور ایثار کے سفر کی ایک لازوال داستان ہے،اس کا مطالعہ آپ کے لئے ایک دلچسپ تجربہ ہوگا۔

 زیب داستاں

مرتبہ: ڈاکٹر بصیرہ عنبریں،قیمت: 400 روپے

ناشر: بک ہوم‘ بک سٹریٹ‘ 46۔ اے مزنگ روڈ لاہور

اردو افسانے کی طرح فارسی افسانے نے بھی صرف ایک سو سال قبل جنم لیا اور اسی کی عمر خاصی مختصر ہے۔ تاہم اتنی کم مدت میں بھی اردو و فارسی‘ دونوں زبانوں میں کئی معیاری افسانے تخلیق ہو چکے۔ محمد علی جمال زادہ (1997-1892ء)‘ صادق ہدایت (1951-1903ء) بزرگ علوی (1951-1903ء) اور صادق چوبک (1998-1916ء) ایرانی افسانے کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں‘ محض ڈیڑھ سو سال پہلے فارسی ہندوستان کی سرکاری و عوامی زبان تھی۔ تاہم اب پاکستان میں یہ کالجوں‘ یونیورسٹیوں تک محدودا ہے۔ اسی لئے وقتاً فوقتاً ایرانی ادب کے اردو ترجم سامنے آتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی 16 فارسی افسانوں کے تراجم پر مشتمل ہے۔

کتاب کی مرتب‘ ڈاکٹر بصیرہ عنبریں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں اردو پڑھاتی ہیں۔ تاہم فارسی زبان و ادب سے بھی شغف رکھتی ہیں۔ اسی لگاؤ کا نتیجہ زیرہ تبصرہ کتاب کی صورت سامنے آیا۔ اس میں معروف ایرانی افسانہ نگاروں‘ صادق چوبک‘ جمال میرصدقی‘ ابراہیم گلستان وغیرہم کے افسانے شامل ہیں۔ جو جدید ایرانی معاشرے کی ہمہ رنگ تصاویر سامنے لاتے ہیں۔

ایرانی افسانہ نگار عوامی فارسی میں کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی درس گاہوں میں فارسی پڑھنے والے انہیں بہ مشکل سمجھ پاتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر بصیرہ صاحبہ نے ایرانی افسانوں کا رواں رواں اور قابل فہم انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ یوں ہر افسانے کی روح برقرار رہی اور وہ قابل مطالعہ بن گیا۔ کتاب کی پیش کش معیاری اور کاغذ عمدہ ہے۔ غیر ملکی افسانے پڑھنے کے پرستار اسے قابل تعریف کتاب پائیں گے۔

مدحت (سہ ماہی)

مدیر: سرور حسین نقشبندی

قیمت: 3 سوروپے،  پبلشر: طہٰ پبلی کیشنز، لاہور

بلاشبہ ہمارے ہاں ادبی دنیا میں نعتیہ شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جو اس کا حق بنتا ہے۔ ادب کی ترقی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے آج ملک بھر میں کسی نہ کسی سطح پر ادبی محافل اور شعری نشستوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، لیکن ان محافل میں نعتیہ شاعری کی ادبی اہمیت کو عملی طور پر تسلیم کرنے کا بھرپور تاثر نہیں ملتا۔ مدحت رسالہ اس ضمن میں قابل ستائش ہے کہ اس نے نعتیہ شاعری اور ادب کی سربلندی کا علم اٹھا رکھا ہے۔

مدحت کے اس نئے شمارے میں خاص طور پر ادباء کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے اس معاملہ کو اٹھایا گیا ہے کہ ’’کیا نعت پاکستانی ادب، فن اور ثقافت کا حصہ نہیں؟‘‘ نعتیہ شاعری اور ادب کو بھی وہی وقار اور عزت دینے کی ضرورت ہے، جو ہم دوسری شعری اصناف کو دیتے ہیں۔ رسالے میں بڑے بڑے اہل علم و ادب کے خیالات کی روشنی میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ منتخب کلام بھی پیش کئے گئے ہیں۔

کافیاں (چونواں کلام)

شاعر: ڈاکٹر شہزاد قیصر، قیمت: 200 روپے

ناشر : سچیت کتاب گھر، چوک سر گنگارام ہسپتال، لاہور

ڈاکٹر شہزاد قیصر سابقہ بیوروکریٹ ہیں ،علمی و ادبی شخصیت ہیں فلسفہ ان کا میدان ہے ۔سادہ مزاج اور منکسرالمزاج شخصیت کے حامل اس بیوروکریٹ کے اندر ایک صوفی چھپا بیٹھا ہے اس کا عام لوگوں کو خصوصاً اہل علم کو پہلے علم نہیں تھا لیکن اب کافیوں کی صورت میں ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی سامنے آگیا ہے۔ کافی کی روایت بڑی پرانی ہے ۔ اسکے رنگ اور انگ بھی بہت سے ہیں لیکن اس کا نفس مضمون ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے وحدت الوجود ۔شاہ حسین ؒ، بلہے شاہؒ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ، سچل سرمست ؒ اور خواجہ فرید ؒ ایسے صوفی شعراء نے اس صنف کو  اوجِ کمال تک پہنچایا ۔شہزاد قیصر اسی روایت سے جڑے ہوئے ہیں اور تصوف، عرفان ِ ذات اس کے راستے ذات باری تعالی ٰ کی پہچان کی منزل تک پہنچنے کی سبیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ان کی کافیوں میں عشق و محبت کا مضمون بھی ہے ،فلسفہ بھی ہے اور خیال کی گہرائی بھی ، رچاو بھی ہے اور غنائیت بھی ہے ۔ یوں محسو س ہوتاہے جیسے خیالات کا ایک وفور ہے جو کسی دریا کی مانند روانی کے ساتھ بہتا چلا جارہاہے ۔ڈاکٹر مہر عبدالحق شہزاد قیصر کی کافیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں وحدت الوجود شہزاد قیصر کا خاص من بھاونا موضوع ہے اور ان کی ساری کافیاں اسی عقیدے کے محور کے گرد گھومتی ہیں ۔کافیوں کا یہ انتخاب سچیت کتاب گھر کے مقصود ثاقب کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہے ۔اہل ادب کیلئے ان کافیوں کامطالعہ یقینا ان کے ذوق کی تسکین کا باعث بنے گا۔

فسونِ چشم

شاعر : صفدر حسن صفدر

قیمت: 400 روپے، ناشر: نستعلیق مطبوعات، اردو بازار، لاہور

’’فسونِ چشم‘‘ صفدر حسن صفدر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ان کی سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدصرف چا ر سالوں کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ صفدر حسن صفدر معروف شاعر جوہر نظامی کے صاحبزادے ہیں ۔ ان کے چار بھائی بھی قادرالکلام شاعر ہیں ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بچپن ہی سے شعری ماحول میسر آنے کے باوجود شاعری کاآغاز انہوں نے ادھیڑ عمر بلکہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے کیا اور پھر ایسے رواں ہوئے کہ صرف چار برسوں میں ایک خوبصورت مجموعہ منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوگئے ۔ زیر نظر مجموعہ زیادہ تر ان کی غزلوں پر مشتمل ہے تاہم قطعات اور نظمیں بھی اس میں شامل ہیں۔مختصر بحر کی غزلیں شگفتہ اور دلپذیر ہیں جن میں کہیں کہیں عبدالحمید عدم اور کہیں کہیں ظفر اقبال کے رنگ کی چھاپ بھی دکھائی دیتی ہے۔

ان کی شاعری میں رومانویت اور حسن و عشق کے مضامین جابجا ملتے ہیں ۔خود انہی کے الفاظ میں اس شعری مجموعے میں ’’جمال ِہم نشیں ، وصال ِ یار، محبت کے فسوں، ہجر کے چرکے ، دکھ سکھ، خوشی وغم، دوستوں کی بے اعتنائی، اپنوں کی بیگانگی ، رنج و الم ، فطر ت کی عکاسی ،معاشرتی ناہمواریاں ، ارتکاز دولت، ناانصافیوں اور محرومیوں ،الغرض داخلی اور خارجی کیفیات اور محسوسات کی جھلک موجود ہے‘‘۔اگرچہ بعض اشعار میں فنی سقم بھی پایا جاتا ہے جو شائد ان کی عجلت پسندی کی وجہ قراردیا جاسکتاہے لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ نقش ِ اول سے بہرحال بہتر ہوگا۔

سیاحت ضلع قصور

مصنف: سیدظفرعباس نقوی

قیمت:650 روپے، ناشر: کلاسیک، 42۔ دی مال لاہور

ماضی میں مسلم ، ہندو، سکھ اور جین تہذیبوں کا مرکز رہنے والا قصور، صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے55 کلومیٹر دور واقع ہے۔اس ضلع نے سیاست اورسفارت دونوں اہم ترین ریاستی شعبوں میں بہت سے افراد پیدا کئے۔ یہاں سے ابھرنے والے زعما، منتظمین اور دانشوروں کی تعداد بھی کم نہیں۔ اسی طرح یہ ضلع ماحولیاتی ، سیاحتی اور تاریخی مقامات سے بھرا پڑاہے جن کی اہمیت اور محل وقوع سے مقامی شہری تک لاعلم ہیں۔

چھانگا مانگا بہاریہ میلہ، ہیڈبلوکی، گنڈاسنگھ والا، گرین پارک،قصورمیوزیم، عجائب خانہ علی عادل خاں، اکبری بارہ دری چونیاں، پیروپریمن، ہردوسہاری، رام تھمن، پھول نگر، سرائے چھیمبہ اور سرائے مغل، بی آربی اور مقبرہ وکیل خان کی تاریخی اور سیاحتی اہمیت کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ بالخصوص فاتح ملتان گنڈا سنگھ کا تعارف الگ سے پیش کیاگیاہے،اس کے علاوہ پورے ضلع قصور میں پائے جانے والے پرندوں جبکہ چھانگا مانگا جنگل میں پائے جانے والے چرندوپرند کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف نے ضلع قصور کو اس کی تمام تر تاریخی اور سیاحتی اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔ یہ ایک قابل قدر کاوش ہے۔

ریاضت سے مہارت تک

مصنف: رابرٹ گرین، قیمت: 320روپے

ناشر: تخلیقات، 6بیگم روڈ مزنگ لاہور

رابرٹ گرین معروف امریکی مصنف ہیں،ان کی متعدد کتابیں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شامل ہوئیں۔ زیرنظرکتاب ’The 48 Laws of Power‘ کا اردوترجمہ ہے۔اس میں مصنف نے ثابت کیاہے کہ قابلیت کا حقیقی اظہار مہارت کے ذریعے ہوتاہے۔ مائئیکل فراڈے، کارل یونگ، یوکی میٹ سوکا اور دیگراساتذہ کی زندگیوں کا مطالعہ اور تجزیہ کرکے رابرٹ گرین نے بتایا کہ کیسے ان لوگوں نے پہلے اپنے اساتذہ کے علم اور مہارت کو اپنے ذات میں شامل کیا، پھر اپنی ذہانت اور لیاقت کی بدولت زندگی کے سفر میں اس مقام پر پہنچے جو ان کے اساتذہ کو بھی نصیب نہیں ہواتھا۔

گرین نے کتاب کا آغاز گوئٹے کے اس قول سے کیاہے کہ جس طرح ایک مجسمہ ساز اپنے خام مال کو من پسند صورت میں ڈھال سکتاہے، اسی طرح ہرانسان کی قسمت بھی اس کے اپنے ہاتھ میںہوتی ہے۔ تاہم اسے بھی دوسرے لوگوں کی طرح فنکارانہ تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرناپڑتاہے، ہم پیدائشی طورپر ان صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں۔‘‘

کتاب کا پہلاباب: مقصدحیات، دوسرا: حقیقت کو تسلیم کریں، تیسرا:مرشد اور استاد کی پیروی، چوتھا: لوگوں کے چہرے پہچانیں، پانچواں: وسیع ذہن بیدارکریں اور چھٹا: الہامی اور عقلی مہارت کا امتزاج۔

کتاب میں بتایاگیاہے کہ حتمی طاقت کیاہوتی ہے اور مہارت میں ترقی کیسے کی جاتی ہے؟آسان طریقے کیاہیں؟ پریکٹس کا طریقہ، مہارت کے اہم نکات، مہارت کے اصول، حصول مہارت کے اصول، حصول مہارت کے راز، حصول مہارت کی حکمت عملی سمیت دیگراہم ترین سوالات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ زندگی میں کمال حاصل کرنے کے خواہش مندوں کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔

کلیات فراق گورکھپوری

مرتبہ: مطرب نظامی، قیمت: 600 روپے

ناشر: بک کارنر‘ مقابل اقبال اسٹریٹ‘ جہلم

ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب ’’مقدمہ و شاعری‘‘ شائع ہوئی۔ اس میں مولانا حالی نے’’غزل‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ بہت سے اردوشعرا دیگر اصناف میں شاعری کرنے لگے۔ حتیٰ کہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صنف غزل صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ اسی نازک اور میں غزل کے لرزتے ستون کو جن شعراء نے یادگار غزلیں تخلیق کر کے سہارا دیا ان میں فراق گھورکپوری بھی شامل ہیں۔ انہوں نے حسرت موہانی‘ شاد عظیم آبادی‘ اصغر گونڈی اور جگر مراد آبادی کے ساتھ غزل کو نئی آب و تاب دی اور اسے نیا رنگ و آہنگ دے کر لطیف بنا دیا۔

اردو غزل کی ترقی و ترویج میں فراق کی یوں بھی بڑی اہمیت ہے کہ وہ ہندو تھے۔ بیشتر ہندوؤں کے برعکس وہ عاشق اردو زبان تھے اور اس کی اشاعت کے لئے ہر دم متحرک و مستعدد رہتے۔ فراق نے دیگر اصناف شاعری پر بھی طبع آزمائی کی مگر آپ کو جدید اردو غزل کا ستون سمجھا جاتا ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں فراق کی منتخب غزلیں و نظمیں شامل ہیں۔ فراق کی شاعری کے سات مجموعے شائع ہوئے تھے۔ مرتب نے ان میں غزلوں اور نظموں کا عمدہ انتخاب پیش کیا ہے۔

کتاب کی پیش کش عمدہ ہے اور کاغذ معیاری‘ قیمت بھی مناسب ہے۔ روایتی اردو غزل پڑھنے کے شوقین اس کتاب کو دل پسند پائیں گے۔

گلزار (نظمیں و غزلیں)

مرتب: گل شیر بٹ ،قیمت:999 روپے

ناشر: بک کارنر، بالمقابل اقبال لائبریری، بک سٹریٹ، جہلم

امریکی شاعر، رابرٹ فراسٹ کا قول ہے: ’’جب ایک جذبے کو خیال مل جائے اور خیال کو الفاظ تبھی شاعری وجود میں آتی ہے۔‘‘ سمپورن سنگھ بھی جب پاکستان سے بھارت ہجرت کرتے ہوئے ہمہ رنگ جذبات کے ہجوم میں سے گزرے اور انہیں خیالات کی شکل دی، تو شاعر بن گئے۔ انہوں نے پھر اپنے قلمی نام ’’گلزار‘‘ سے عالمی شہرت پائی۔

گلزار صاحب سکھ ہیں مگر گرومکھی یا پنجابی سے زیادہ اردو انہیں عزیز ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اوائل عمر ہی میں وہ ہندی (یعنی اردو) فلموں میں گیت لکھنے لگے۔ فلم نگری میں داخل ہونے سے قبل وہ کار مکینک تھے۔ تاہم جذبات و خیالات کی فراوانی نے انہیں شاعر و ادیب کے سانچے میں ڈھال دیا تھا اور انہوں نے اردو ہی کو ذریعہ اظہار جذبات بنایا۔ گلزار کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہجرت کی مشکلات و مصائب نے انہیں منفی راہ پر گامزن نہیں کیا۔ کسی کا برحق قول ہے’’: محبت کو چھونے پر انسان شاعر بن جاتا ہے۔‘‘

زیر نظر کتاب میں گلزار صاحب کی منتخب نظمیں، غزلیں، گیت اور تروینیاں شامل ہیں۔ موصوف کی شاعری میں انسان کو خوشی یا غم دینے والا کوئی نہ کوئی جذبہ… پیار، دکھ، جدائی، تکلیف وغیرہ ضرور مل جاتا ہے۔ اسی لیے گلزار کی شاعری انسان کو بھاتی اور وہ اشعار میں ڈوب کر تلخ و شیریں یادوں کے جہاں میں کھو جاتا ہے۔

کتاب کی خصوصیت ’’تروینی‘‘ ہے یعنی تین اشعار والی تخلیق جسے دور جدید کی آزاد نظم کہہ لیجیے۔ گلزار صاحب کی کہی کئی تروینیوں میں وہ گہری باتیں پوشیدہ ہیں جنہیں بیان کرتے بہت سے صفحے کالے ہوجائیں۔ ایسی کچھ تروینیاں پیش ہیں، پڑھیے، سمجھئے اور لطف اٹھائیے:

کبھی کبھی بازار میں یوں بھی ہوجاتا ہے
قیمت ٹھیک تھی، جیب میں اتنے دام نہیں تھے
ایسے ہی اک بار میں تم کو ہار آیا تھا

٭٭

کیا پتہ کتنی بار مارے گی
بس میں تو زندگی سے ڈرتا ہوں
موت تو ایک بار مارے گی

٭٭

تیرے شہر پہنچ تو جاتا
رستے میں دریا پڑتے ہیں
پل سب تو نے جلا دیئے تھے

درج بالا چند نظمیں بطور مشتے از خرار ے تحریر کی گئیں، ورنہ کتاب میں فکر کو جلا بخشنے والی کئی تخلیقات موجود ہیں۔ ’گلزار‘‘ کی طباعت عمدہ ہے اور کاغذ بہترین! مجموعی طور پر پیش کش معیاری ہے جسے دیکھتے ہوئے قیمت طبع نازک پر گراں نہیں گزرتی۔ شاعری کے دلدادہ اسے پسندیدہ کتاب پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔