تیل کے نرخوں میں مسلسل کمی، اوپیک اور امریکی کمپنیوں کے درمیان جاری ’’پرائس وار‘‘ کا نتیجہ

ندیم سبحان  اتوار 7 دسمبر 2014
تیل کے گرتے ہوئے نرخ عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

تیل کے گرتے ہوئے نرخ عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

حکومت پاکستان نے دو ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں نمایاں کمی کی ہے۔ اس عرصے کے دوران پیٹرول کے نرخ 19.09پیسے اور ڈیزل کے نرخ 13.80 روپے کم ہوئے ہیں۔

حکومت اس ’تاریخی‘ کمی کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنی گراوٹ ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ حکم رانوں کو عوام کے مصائب کا احساس ہوگیا ہے اور انھوں نے لوگوں کو منہگائی، غربت اور بے روزگاری سے نجات دلانے کا تہیہ کرلیا ہے، بل کہ اس کا سبب عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ہیں۔

تیل کے عالمی نرخوں میں ہونے والی مسلسل کمی نے حاکمانِ وقت کو مجبور کیا کہ وہ اس گراوٹ کا فائدہ، کُلی نہ تو جزوی طور پر ہی سہی، عوام کو منتقل کریں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے لیے عوام کو پاکستان تحریک انصاف کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے، جس کی حکومت مخالف مہم سے حکم رانوں پر دبائو میں اضافہ ہوا کہ وہ تیل کے نرخ کم کرکے عوامی ہم دردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔

وطن عزیز کی داخلی سیاسی صورت حال سے قطع نظر گذشتہ تین ماہ کے دوران تیل کے عالمی نرخ تیزی سے گرے ہیں۔ 27 نومبر کو تیل کے نرخ کم ہوکر تین برس پہلے کی قیمتوں، 70 ڈالر فی بیرل کی سطح تک آگئے۔  وجہ یہ تھی کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم، اوپیک نے تیل کی پیداوار میں کمی لانے سے انکار کردیا تھا۔ اوپیک کے ارکان میں سعودی عرب، عراق، ایران، ونیزویلا، متحدہ عرب امارات ، قطر، نائجیریا، لیبیا، کویت، ایکواڈور، انگولا اور الجیریا شامل ہیں۔

اوپیک کے اجلاس سے قبل توقع کی جارہی تھی کہ گرتے ہوئے نرخوں کو سہارا دینے کے لیے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، تاہم ایسا نہ ہوسکا، جس کے بعد تیل کی قیمتیں تین برس پہلے والی سطح تک گرگئیں۔ تیل کے گرتے ہوئے نرخ عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس تبدیلی نے اوپیک اور امریکا کی تیل نکالنے والی کمپنیوں کے درمیان جاری ’’ پرائس وار‘‘ کے بطن سے جنم لیا ہے۔

اوپیک اس امید میں تیل کے نرخوں میں کمی کا راستہ نہیں روک رہی کہ اس طرح امریکی سرزمین سے تیل نکالنے کے نئے منصوبے (امریکی) حکومت کے لیے غیرنفع بخش ٹھیریں گے اور انھیں بند کردیا جائے گا۔ اوپیک کا یہ اقدام نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس کے بیشتر اراکین کا بجٹ اسی صورت متوازن ہوسکتا ہے، جب تیل کے نرخ نیچے نہ آئیں۔ اس سلسلے میں ایران کی مثال دی جاسکتی ہے جو معاشی سطح پر مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ’’ پرائس وار‘‘ اس امر کا بھی اشارہ ہے کہ تیل کی عالمی مارکیٹ پر اوپیک کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔

2014ء میں تیل کے نرخ کیوں گررہے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں گذشتہ عشرے کا اجمالی جائزہ لینا ہوگا۔ پچھلی دہائی میں تیل کی قیمتوں کو پَر لگ گئے تھے، وجہ سیدھی سادی تھی کہ تیل کی طلب بڑھ گئی تھی (بالخصوص چین میں اس کی کھپت میں نمایاں اضافہ ہوا تھا) اور رسد محدود تھی۔ طلب اور رسد کے فرق کی وجہ سے 2011 ء سے 2014ء کے درمیان تیل کے عالمی نرخ 100 ڈالر  کے گرد ڈولتے رہے۔  تیل کے نرخوں میں برق رفتار اضافے کے باعث تیل کے درآمدی ممالک پر معاشی دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ اسی بات کے پیش نظر توانائی کے متبادل ذرائع پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔

2011ء میں امریکا تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا مگر ستمبر 2013ء میں یہ ’اعزاز ‘ چین نے اپنے نام کرلیا۔ امریکا کی تیل کی درآمدات میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ امریکا کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (ای آئی اے) کے مطابق رواؓں برس کے ابتدائی نو ماہ کے دوران تیل کی درآمدات میں دو برس پہلے کے مقابلے میں 15 فی صد کمی آئی۔ اس عرصے کے دوران امریکا نے اوسطاً 7.4 ملین بیرل خام تیل روزانہ درآمد کیا جب کہ 2012 ء میں ہر روز 8.7 ملین بیرل تیل امریکی سرزمین پر اُترتا تھا۔

تیل کی درآمد میں کمی کا سبب یہ ہے کہ امریکا کی بیشتر انرجی کمپنیوں نے بڑھتے ہوئے نرخوں کے تناظر میں درآمدی تیل کا متبادل ڈھونڈنے پر توجہ مرکوز کی، اور انھیں ’’شیئل گیس‘‘ کی صورت میں اس کا متبادل نظر آگیا (واضح رہے کہ مغرب میں مائع ایندھن یعنی تیل کو بھی گیس ہی کہا جاتا ہے)۔ توانائی کا یہ ذریعہ پہلے بھی ان کی نگاہوں میں تھا مگر چوں کہ یہ گیس زیرزمین کولتاری چٹانوں میں ’ قید ‘ ہوتی ہے، اور اسے نکالنے کے لیے جو طریقے ماضی میں وضع ہوئے تھے ان پر آنے والی لاگت زیادہ تھی جس کی وجہ سے یہ چٹانی گیس، عام قدرتی گیس سے منہگی ہوتی۔ مگر تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے انھیں ایک بار پھر شیئل گیس کی یاد دلادی۔

چناں چہ ’’فریکنگ‘‘ اور ’’ہوریزونٹل ڈرلنگ‘‘ نامی تیکنیکوں کے ذریعے سب سے پہلے شمالی ڈکوٹا اور ٹیکساس میں گیس نکالی جانے لگی۔ 2001ء میں امریکا میں قدرتی گیس کی پیداوار کا 1فی صد شیئل گیس پر مشتمل تھا۔ 2010 ء تک گیس کی 20 فی صد ضروریات شیئل گیس سے پوری کی جانے لگی تھیں۔ ای آئی اے کے مطابق 2035 ء تک قدرتی گیس کی ضرورت کا 46 فی صد شیئل گیس سے حاصل ہوگا۔  شیئل گیس کی بڑھتی ہوئی پیداوار کی وجہ سے تیل کی امریکی درآمدات میں کمی واقع ہونے لگی، جس کے نتیجے میں 2008ء تک عالمی مارکیٹ میں تیل کی یومیہ فراہمی میں چار ملین بیرل کا اضافہ ہوگیا۔

اس اضافے میں روس اور کینیڈا کا بھی حصہ تھا۔ تیل کی عالمی پیداوار 75 ملین بیرل یومیہ تھی، اس طرح چار ملین بیرل تیل کافی اہمیت رکھتا تھا۔ تاہم اسی عرصے کے دوران تیل کی پیدوار والے خطے سیاسی عدم استحکام اور تصادم کا شکار ہوگئے۔ مثلاً لیبیا میں خانہ جنگی چھڑ گئی، عراق بھی امریکی جارحیت کے نتیجے میں امن و سکون سے محروم ہوچکا تھا۔ علاوہ ازیں امریکا اور یورپ نے ایران پر پابندیاں لگادی تھیں جس کا اثر اس کی برآمدات پر پڑا تھا۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے تیل کی یومیہ پیداوار تین ملین بیرل کم ہوگئی تھی۔ چناں چہ امریکی کی درآمدات میں کمی اور کینیڈا اور روس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں اضافے کا اثر نظر نہیں آیا۔

تاہم 2014 ء کے آغاز سے صورت حال میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔ تیل کی پیداوار والے ممالک میں جاری شورش مدھم پڑگئی اور وہاں امن و سکون کی فضا قائم ہوگئی۔ لیبیا میں دوبارہ اسی رفتار سے تیل نکالا جانے لگا۔ تیل کی امریکی درآمدات تو پہلے ہی زوال پذیر تھیں، اب یہ ہوا کہ ایشیا، بالخصوص چین ، جاپان اور جرمنی نے بھی تیل کی درآمد محدود کردی۔ چناں چہ طلب کے مقابلے میں تیل کی رسد بڑھ گئی، نتیجتاً قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئیں۔ اور تیل کے نرخ جو 115ڈالر فی بیرل تک جا پہنچے تھے رفتہ رفتہ 70 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئے۔

تیل کی عالمی پیداوار کا 40 فی صد اوپیک میں شامل ممالک پیدا کرتے ہیں۔ عشروں سے یہ تنظیم پیداوار میں کمی بیشی کے ذریعے اس اہم ترین جنس کے نرخ کنٹرول کرتی آرہی ہے۔ اوپیک کے اجلاس کے دوران رکن ممالک کے درمیان تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے طریقۂ کار پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ونیزویلا اور ایرا جیسے ممالک چاہتے تھے کہ تنظیم ( جس کی باگ ڈور عملاً سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے ) تیل کی پیداوار میں کمی لائے تاکہ قیمتیں اوپر آئیں۔ ونیزویلا اور ایران کے اصرار کی وجہ یہ تھی کہ ان ممالک کے بجٹ میں تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ان کی تجویز کی سعودیہ نے مخالفت کی، جو دنیا میں تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔

سعودیہ کے انکار کا سبب شاید ماضی کا تجربہ تھا۔ 1980ء کی دہائی میں جب تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں تو سعودی عرب نے قیمتوں میں اضافے کے لیے پیداوار کم کردی تھی، مگر اس اقدام کا نتیجہ توقع کے برعکس نکلا تھا۔ پیداوار محدود کرنے کے باوجود قیمتیں زوال پذیر رہیں، الٹا نقصان یہ ہوا کہ مارکیٹ میں سعودیہ کا حصہ کم ہوگیا تھا۔ اجلاس کے دوران سعودیہ نے عندیہ دیا کہ اگر تیل کے نرخ محدود وقت کے لیے 80ڈالر فی بیرل بھی رہتے ہیں تو اس کے لیے قابل برداشت ہیں۔ سعودیہ کے اس موقف کی وجہ یہ ہے کہ وہ زرمبادلہ کے بھاری ذخائر کی مدد سے اپنا تجارتی خسارہ پورا کرسکتا ہے۔ اجلاس کے اختتام پر اوپیک کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ تنظیم اگلے چھے ماہ تک تیل کی پیداوار 30 ملین بیرل یومیہ پر برقرار رکھے گی۔

اس طرح اب اوپیک اور امریکی سرزمین سے تیل نکالنے والی کمپنیوں کے درمیان ٹھن گئی ہے، تاہم اس جنگ کا نتیجہ اوپیک کے حق میں برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور کویت کے صحرا سے تیل بہت کم لاگت پر نکل آتا ہے، مگر ٹیکساس اور شمالی ڈکوٹا کی زیرزمین چٹانوں سے تیل نکالنے پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ چناں چہ اگر تیل کے نرخوں میں گراوٹ جاری رہتی ہے تو پھر امریکی کمپنیوں کے لیے ’’شیئل گیس‘‘ نکالنا نفع بخش نہیں رہے گا، اور انھیں مجبوراً اپنے منصوبے ترک کرنے پڑیں گے۔

نتیجتاً امریکا ایک بار پھر تیل کی درآمد بڑھانے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس صورت میں تیل کی قیمتیں مستحکم ہوجائیں گی اور امریکی مارکیٹ میں اوپیک کا حصہ پھر سے بڑھ جائے گا  اور یہی سعودی عرب چاہتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ جاری رہتی ہے تو ایران، ونیزویلا سمیت کئی ممالک کی معیشتیں بری طرح متاثر  ہوں گی۔ اس طرح تیل کے نرخوں میں کمی بیشی کی موجودہ صورت حال پیچیدہ رُخ اختیار کرگئی ہے۔ ماہرین  معاشیات کے مطابق یہ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا تیل کے گرتے ہوئے نرخ واقعی امریکا میں شیئل گیس کے منصوبوں پر اثرانداز ہوں گے یا پھر امریکا اس کا کوئی اور حل ڈھونڈ لے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔