افغانستان کی تعمیر نو کے لیے لندن کانفرنس

ایڈیٹوریل  اتوار 7 دسمبر 2014
پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے، یہ افغانستان کے حالات کی پیدا کردہ ہے۔  فوٹو:رائٹرز/ فائل

پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے، یہ افغانستان کے حالات کی پیدا کردہ ہے۔ فوٹو:رائٹرز/ فائل

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ہونے والی لندن کانفرنس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں امریکا اور نیٹو ممالک نے 2024ء تک افغانستان کی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سہ ملکی سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، ان کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون اور افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے شرکت کی جب کہ کانفرنس میں تینوں ممالک کے اعلی سطح کے وفود نے بھی معاونت۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ایک مستحکم، خوشحال اور جمہوری افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کی یہ بات در اصل ان الزامات اور اعتراضات کی برملا تردید تھی کہ افغانستان کی بدامنی اور حالات کی خرابی میں پاکستان کا کوئی ہاتھ یا عمل دخل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے افغان اور برطانوی قیادت پر زور دیا کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ واضح رہے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ افغانستان پر سوویت روس کی فوج کشی کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جس میں وقفے وقفے سے ڈھائی سے تین ملین تک افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہو گئے۔

ان میں سے کچھ خاندانوں نے دیگر پڑوسی ممالک کا رخ بھی کیا لیکن سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے حصے میں ہی آئی۔ ان افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی بھی بار بار کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر جن لوگوں نے پناہ گزین بستیوں سے نکل کر شہروں میں بسیرے کر لیے بلکہ بہت سوں نے یہاں کاروبار بھی قائم کر لیے جس کے نتیجے میں ان کا واپس جانے کا ارادہ بدل گیا۔ مگر اس قدر کثیر تعداد میں مہاجرین کی آمد سے نہ صرف پاکستان کی معیشت پر بہت بوجھ پڑا بلکہ پاکستان کی معاشرت بھی متاثر ہوئی۔ اب جب کہ افغانستان میں حکومت سازی کے بعد وہاں امن و سکون قائم ہونے کی امید روشن ہو رہی ہے تو بہتر ہو گا کہ پناہ گزین افغانوں کی ان کے وطن واپسی کے ٹھوس انتظامات کیے جائیں اور اگر ضروری ہو تو اس مقصد کے لیے امریکا اور برطانیہ سے بھی معاونت طلب کی جائے۔

لندن میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے درمیان بھی ملاقات ہوئی۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ انھوں نے دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پاکستان کی کوششوں میں اپنی حکومت کے تعاون کا یقین دلایا۔ لندن کانفرنس میں شریک تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے ایک مستحکم، خوشحال اور پرامن افغانستان کے لیے ملکر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا نیز دہشتگردی کے خلاف بھی مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان نے افغان قیادت کو انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کی یقین دہانی کراتے ہوئے افغان مہاجرین کی واپسی ممکن بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔

دونوں ملکوں میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور اشتراک سے دونوں پڑوسی ممالک میں غلط فہمیوں کے ازالے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ افغانستان نے بھی جوابی طور پر مہاجرین کا مسئلہ جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جب کہ برطانوی قیادت نے یقین دلایا ہے کہ افغانستان سے فورسز کا انخلا تو ہو رہا ہے لیکن جس طرح سوویت جنگ کے بعد افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا اب وہ والی صورتحال نہیں پیدا ہونے دی جائے گی۔ افغان صدر اشرف غنی نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ مشکل وقت میں اس شورش زدہ ملک کو تنہا مت چھوڑیں تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ ان کے ملک کو مستقبل میں غیر ملکی فوج کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن جنگ سے تباہ حال افغانستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے مالی امداد بہت ضروری ہے۔

انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد فوری طور پر مالی امداد میں کمی نہیں کی جانی چاہیے۔ افغان صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل اور ان کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان نے اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ماضی کی تلخ تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ لندن کانفرنس سے خاصی حوصلہ افزا باتیں سامنے آئی ہیں۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔

پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے، یہ افغانستان کے حالات کی پیدا کردہ ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ دس سال میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو 80 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے جب کہ 50 ہزار شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہی افغانستان کے بحران کے نتیجے میں ہوا تھا اور توقع کی جا سکتی ہے کہ جوں جوں افغانستان میں امن قائم ہو گا خطے میں دہشت گردی میں بھی تخفیف ہوتی جائے گی۔ اس حوالے سے افغانستان کے حکمرانوں کو بھی زمینی حقائق کے مطابق کردار ادا کرنا ہو گا اور برطانیہ اور امریکا کی حکومت کو بھی ایسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی جس کے تحت پاکستان کے مفادات کا بھی تحفظ ہو اور افغانستان میں بھی امن قائم ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔