مارکس وادی میر گل خان نصیر

زاہدہ حنا  ہفتہ 6 دسمبر 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بلوچستان اور جبر و نا انصافی کے خلاف مزاحمت اور بغاوت لازم و ملزوم ہیں اسی لیے میر گل خان نصیر نے بہ بانگ دہل کہا:

ستم کو ستم، ظلم کو ظلم کہوں گا، چپ نہ رہوں گا
تختہ دار پہ بھی سچ کہوں گا، چپ نہ رہوں گا

شہید نوروز خان اور ان کے بیٹوں کی سولیاں وقایع نگار کے خیال میں ماضی کا حصہ ہوئیں لیکن میرگل خان نصیر کے اشعار ان شہیدوں کی جدوجہد کو حال اور مستقبل میں بھی زندہ رکھیں گے۔ یہ وہ بغاوتیں ہیں، مزاحمت کا وہ نعرہ مستانہ ہے جسے سن کر ہزاروں برس پرانی وہ عظیم شاہراہ یاد آتی ہے جو سلطنت روما کو جاتی تھی۔

سیکڑوں میل طویل اس شاہراہ پر 6000 باغی مصلوب کیے گئے جن میں ان کا سردار اسپارٹکس بھی تھا۔ صلیب پر چڑھائے جانے والوں کا لہو قطرہ قطرہ گرتا رہا اور وہاں سے گزرنے والی رومن اشرافیہ کو دہشت زدہ کرتا رہا۔ یہ بغاوت کی وہ ناقابل شکست طاقت تھی جو کچل دیے جانے کے بعد بھی مغرور جرنیلوں کو خوف زدہ کرتی تھی۔ وہ جو نشان عبرت بنا دیے گئے، ان کے پنجر برسوں بعد بھی اپنے قاتلوں کو ڈراتے رہے۔ بغاوت کی یہی ناقابل شکست قوت میر صاحب کا حسب نسب ہے۔ وہ والٹیر کے اس جملے کی تصویر تھے کہ ’جب میں قلم اٹھاتا ہوں تو حالتِ جنگ میں ہوتا ہوں۔‘

شاعری لب و رخسار اور زلفِ مشکبار کے ذکر کا دوسرا نام سمجھی جاتی ہے اور کبھی وصال کی کیفیتیں اور ہجر کی اذیتیں اشعار میں رقم ہوتی ہیں لیکن میر صاحب کی محبوبہ ان کی دھرتی تھی۔ اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے آخری سانس تک وہ اپنے لوگوں کی آزادی اور ان کے لیے انصاف اور مساوی حقوق کے حصول کے لیے حالت جنگ میں رہے۔ ایک بھولے بسرے گیت کا مصرعہ یاد آ رہا ہے کہ :

آپ زلف جاناں کے خم نکالیے صاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

زندگی کی زلفوں کو سنوارنے کے لیے میر صاحب نے زندگی کے تیس برس پاکستانی جیلوں میں بسر کر دیے۔ ان ہی دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’’1941ء سے1973ء تک مجھے کئی بار جیل جانا پڑا ۔ غالباً اِس عرصے میں کوئی سال ایسا نہیں گیا جس میں مجھے جیل کی زیارت نہیں کرنی پڑی۔ نوشکی، مستونگ، قلات، مچھ، کوئٹہ کلی کیمپ، کراچی، ساہیوال اور حیدر آباد کے جیل خانوں میں مجھے جو سزائیں بھگتنی پڑیں، اُن سے اگرچہ جسمانی بیماریاں کئی لگ گئیں، سیاسی مزاج میں یاس و اُمید کے کئی دور آئے اور گزر گئے لیکن میری شاعرانہ کیفیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اُس کی آگ بھڑکتی ہی رہی۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو اِتنے کٹھن برسوں کی جدوجہد سے مجھے حاصل ہوا اور جس پر چاہے دوسرے کچھ بھی کہیں، مَیں فخر کرتا ہوں اور اُسے اپنا مایہ ناز سرمایہِ حیات سمجھتا ہوں۔‘‘

ان کا یہ سرمایہ حیات، ان کی زندگی بلوچستان ہے۔ شاہ محمد مری نے اس بلوچستان کا نقشہ ان کے اشعار سے لفظ اور خیال چن کر یوں بیان کیا ہے کہ: وہ بلوچستان کو اپنی ماں قرار دیتے ہیں، اپنا سیر شدہ شکم، اپنا مال، اپنی جان گردانتے ہیں۔ وہ بلوچستان کی ماہتاب دوشیزاؤں کو حور، بہادر اور غیرت مند کہتے ہیں۔ وہ اس کے نوجوانوں کو قول کے پکے، وطن کے متوالے کہہ کر پکارتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان ہماری زندگانی بھی ہے اور قبر بھی۔ اس کی شان دائم اس کی سرحدیں قائم اور اس کا وجود ابدی ہے۔ یہ لیلیٰ ہے، میری جان، روح اور بدن ہے۔ یہ ہمارا گھر، ہمارا پانی، ہماری روٹی ہے۔ یہ شتر بانوں کے لیے چراگاہ، چرواہوں کا حسین منظر اور کسانوں کی جنت ہے۔ یہ دیہاتوں کا منظر نامہ، گاؤں کی زنجیر اور بہادروں کا بازار ہے۔ بلوچستان معدن کا خزانہ، دُر کا دانہ، زندگی کی متاع ہے۔ بلوچستان پاک مسجد ہے، میری ماں اور عورت کا دوپٹہ ہے…‘‘

اسی بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ وہ نکتہ تعلیم کرتے ہیں کہ
شجاع و شہسوار بن………دلیر و جاں نثار بن
جوانِ کامگار بن……… عدو پہ برق بار بن جلا کے ان کو خاک کر
وطن کوان سے پاک کر ………قبائے رسم چاک کر
نہ خوف کر نہ باک کر………لگا نشانہ تاک کر

میر صاحب نے صرف دلوں کو گرمانے والی شاعری ہی نہیں کی، انھوں نے تحقیقی کتابیں بھی لکھیں۔

ان کا مشن یہ بھی رہا کہ وہ ترجمے کے وسیلے سے اپنے نئی نسل کو دوسروں کے خیالات و افکار سے آگاہ کر سکیں ۔ 1954ء میں پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن پر پابندی لگی تو فیض صاحب، گل خان نصیر، شیخ ایاز، ڈاکٹر حسان، ابراہیم جویو اور کئی دوسروں نے ’عوامی ادبی انجمن‘ قائم کی۔ میر صاحب نے اس کا منشور بلوچی میں ترجمہ کیا۔ یہ وہ منشور ہے جو ان کے دل کی آواز تھا۔ وہ لکھتے ہیں ۔

’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ادیب، دانشور اور فنکار معاشرے کا ضمیر اور سماج کے حساس اور باشعور عناصر ہوتے ہیں۔ اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے معاشرے اور عام انسانی سماج کی بہتری اور ترقی میں مدد دینا ہمارا ایک سماجی اور اخلاقی فرض ہے۔ ہم اس کا شعوری احساس رکھتے ہیں کہ ادیب بھی دوسرے شہریوں کی طرح اجتماعی زندگی کا ایک فعال حصہ ہوتے ہیں۔ اپنے فرض کا یہ احساس ہمارے اس ادبی نقطۂ نظر کی دین ہے کہ سارا ادب حقیقت میں سماجی زندگی کی پیداوار ہوتا ہے اور ایک صحیح اور صحت مند ادب زندگی کی عکاسی ہی نہیںکرتا بلکہ اس کا معمار اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ زندگی کی تنقید کرنا ا س کا حق ہے، اور سائنسی اور عقلی بنیادوں پر اس کی تبدیلی میں مدد دینا اس کا فرض۔

میر صاحب شاعری کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ جیل میں جب ان سے پینسل اور کاغذ لے لیا گیا تو وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپے اور وہ جی دار شخص جس نے کوڑے کھاتے ہوئے اف نہ کی تھی، وہ ایک پنسل کے لیے اپنے صیاد کے سامنے سوالی بن گیا۔ شاعری ان کے بدن میں لہو کی طرح گردش کرتی تھی۔ وہ جب آزاد ہوتے اور سیر و شکار کو جاتے تو اپنی بیاض اور قلم ساتھ لے جاتے۔ ان کی لخت جگر، نور نظر گوہر ملک کہتی ہیں کہ ’’جب کبھی وہ شکار کھیلنے جاتے تو کاپی اور قلم ضرور ساتھ لے جاتے۔ ایک دن جب وہ شکار سے واپس گھر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کا تھیلا بھرا بھرا سا ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ آج والد صاحب نے ڈھیر سارے پرندے مارے ہیں۔ مگر جب میںنے تھیلا کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ تھیلا پرندوں کے بجائے پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ جب میں نے میر صاحب سے پوچھا کہ یہ سب کچھ کیا ہے تو وہ ہنستے ہوئے بولے کہ ’’ آج میں کاپی گھر بھول گیا تھا۔ ان پتھروں کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز نہیں تھی جس پر میں اپنے شعر لکھتا۔ اس لیے میں نے اِن چھوٹے پتھروں پر اپنے شعر لکھ کر کام چلایا۔‘‘

میر صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے وہاں علم سے فیض یاب ہونے والی عورت کا کوئی تصور نہ تھا لیکن وہ مارکس وادی تھے اور عورتوں کو سماجی برابری دینے کی بات کرتے تھے۔ قدیم روایات کے مطابق عورت کی خرید و فروخت ان کے لیے کلنک کا ٹیکہ تھی۔ 1959ء میں جب وہ کوئٹہ کے بدنام زمانہ عقوبت خانے کلی کیمپ میں اذیتوں سے گزر رہے تھے، انھوں نے 25 اشعار کی ایک نظم لکھی جس میں بلوچ عورت کی تعلیم کی بات کی ۔

ان کے خواب بھی نرالے تھے۔ ایک ایسے ہی خواب میں وہ جام دٌرک سے ملاقات کرتے ہیں اور اسے ایک نئے معاشی نظام اور اس کے خالق کارل مارکس کے بارے میں بتاتے ہیں انھوں نے ایک ترانہ لکھا جس کی دھوم تمام انقلابیوں میں مچ گئی۔ اس ترانے کا ترجمہ فیض صاحب نے یوں کیا:

اے ہمدمِ شب، گریۂِ خونناب سلامت
اے سُرخ دیے تیری تب و تاب سلامت
باقی ہے ابھی رات سیہ رنگ فضا ہے
للکار عدو کی، کہیں خطرے کی صدا ہے
ہر ایک طرف سایوں کا طوفان بپا ہے
رستے کا نشاں کوئی، نہ منزل کا پتہ ہے
بجھ جائیں فلیتے تو رگِ جاں کو جلا لو
روغن کی کمی ہو تو مرے خوں میں نہا لو
جیسی بھی ہے، یہ دولتِ بیدار سنبھالو
ہم سوختہ جانوں کی شب تار اُجالو
کچھ اور چمک، صبح چمن دُور نہیں ہے
بیداری اربابِ وطن دور نہیں ہے
تسخیرِ کہستان و دمن دور نہیں ہے
بربادی آثار کہن دور نہیں ہے
اے ہمدم شب گریہ خونناب سلامت
اے سُرخ دیے تیری تب و تاب سلامت

انھیں پھیپھڑوںکا کینسر ہوا اور آتی جاتی سانس دہری دھار کا خنجر بن گئی تب بھی انھوں نے اپنی اذیت کا چرچا نہیں کیا۔ ان کی آنکھوں میں بلوچستان کی سنہری دھوپ جب بجھنے لگی تو رخصت ہوتے ہوئے بھی ان کے دل میں امید کی یہ شمع روشن رہی کہ ان کے بعد آنے والے ان کے افکار سے وہ مشعلیں جلائیں گے جن کی ضو ان کی آزادی اور آبادی کی راہیں منور کرے گی ۔
(کوئٹہ کے ’میر گل خان نصیر انٹرنیشنل سیمینار‘ میں پڑھا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔