یرغمالی ریاست

رئیس فاطمہ  اتوار 7 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ پاکستان 1950ء کے بعد سے ایک ایسا بحری جہاز ہے جسے مختلف قزاقوں، لٹیروں، ڈاکوؤں نے ملی بھگت سے اغوا کیا ہوا ہے تو یقیناً آپ مجھ سے مکمل اتفاق کریں گے۔ لیکن اگر آپ خود ان قزاقوں کے خاندان سے وابستہ ہیں تو ہر صورت میں ان لٹیروں کی ہر چوری کو جائز قرار دیں گے۔ پاکستانی عوام اپنی کم علمی اور تعلیم کے فقدان کی بدولت قبضہ گروپ کو ’’بلائے آسمانی‘‘ سمجھنے کے بجائے انھیں ’’آکاش وانی‘‘ سمجھتے ہیں۔ آئیے ذرا مختصراً ان قزاقوں کے طریقہ واردات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کن کن ہتھیاروں سے انھوں نے معصوم اور سیدھے سادے لوگوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔

سب سے پہلے یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ پاکستان جن علاقوں پہ مشتمل ہے۔ وہاں ابتدا ہی سے قبائلی کلچر اور قبائلی روایات نے لوگوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ 1947ء کے بعد پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کی آمد کے بعد بڑے شہروں میں سول سوسائٹی کی بنیاد پڑی۔ لاہور چونکہ فلمی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس لیے یہاں تنگ نظری کو اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ مل سکا۔ لیکن سندھ، بلوچستان اور سرحد میں کسی بھی سول سوسائٹی کا وجود نہ تھا۔ لڑکیوں کی جبری شادی، ان کی خریدوفروخت اور ہر طرح کا استحصال آج بھی ان کی علاقائی روایات کا حصہ ہے۔ اور آیندہ بھی رہے گا۔ کراچی اور لاہور اپنی ثقافتی، سماجی، تعلیمی اور تہذیبی شناخت کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔

لیکن چاروں صوبے جو لسانی بنیادوں پہ قائم ہیں۔ وہاں صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے۔ مختلف نعرے ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ لیکن دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں سردار، خان، چوہدری اور وڈیرے کی حکمرانی ہے۔ یہ چاروں ایک بات پہ متفق ہیں کہ کسی بھی طور سے اپنے اپنے ہاری، دہقان، مزارع اور کسان کی اولاد کے لیے تعلیم شجر ممنوعہ ہی رہنی چاہیے۔ کیونکہ اگر ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کر لی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنا سیکھ جائیں گے کہ خدا نے تو انسان کو ایک جیسا ہی پیدا کیا ہے تو پھر حکومت کرنے کا حق صرف ان لٹیروں اور ان کی اولاد ہی کو کیوں ہے؟ کیا صرف وہی قابل ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج سے ڈگری لاتے ہیں؟ اس لیے کہ ان کے آبا و اجداد نے اپنی ہی قوم کے آزادی کے رکھوالوں کی مخبری کے عوض سر اور خان بہادر کے خطابات بھی پائے۔ زمینیں اور جاگیریں بھی الاٹ کروائیں۔ ان ظالموں نے غربت کو ان معصوموں کا مقدر بنا دیا ہے اور یہ کمزور، لاچار اور بدنصیب سمجھتے ہیں کہ وڈیرہ سائیں کو، سردار، خان اور چوہدری کو خدا نے اپنی مرضی سے ان کا آقا بنایا ہے۔

ان بدنصیبوں کی قسمت میں خدا نے غلامی لکھی ہے۔ یہ بات اتنی شدت کے ساتھ ان کے دماغوں میں بٹھا دی گئی ہے کہ یہ اپنے اپنے آقاؤں، پیروں اور جاگیرداروں کے سامنے بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ صرف ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہ سکتے ہیں۔ یہ اپنے حال میں مست اور مطمئن ہیں۔ اسی لیے ان کے مرنے کے بعد مردہ خانوں کو بھی عزت دینے پہ مجبور ہیں۔ حالانکہ جو کثیر رقم ان کے تعمیر کرنے پر صرف کی گئی ہے اس میں پورا ایک گاؤں آباد ہو سکتا تھا، اسپتال اور اسکول بن سکتے تھے، تھر میں مرنے والے بچوں کو غذا مل سکتی تھی۔ کیونکہ جہالت کی کوکھ میں پلنے والے بچے جنم لینے کے بعد جب بھوک سے مر جاتے ہیں تو وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ ’’بابا! بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے مرے ہیں‘‘ کوئی بتائے کہ بھوک کہاں سے جنم لیتی ہے؟ کیا بھوک اور غربت کا آپس میں وہی تعلق نہیں ہے جو دولت اور عیاشی میں ہے۔

پاکستان پہ قابض قزاقوں کے پاس دولت کہاں سے آئی؟ اپنی اپنی اولاد کے لیے یورپ اور امریکا کی درس گاہیں اور عام پاکستانی کے بچوں کے لیے وہ سرکاری اسکول جو سندھ میں اوطاق اور پنجاب کے دیہاتوں میں چوپال، بلوچستان اور سرحد میں گائے بھینسوں، دنبوں اور بھیڑوں کے باڑے۔ اس جہالت کی بنا پر یہ قزاق اس ملک پہ قابض ہیں۔ مگر کب تک؟ عمران خان کی بدولت جہالت اور مردہ پرستی کی دھند چھٹ رہی ہے۔ کوؤں کا ایکا بالکل سیاست دانوں کی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک پر زد پڑ رہی ہو تو دوسرا سہارا دینے کے لیے ٹوپی لگا کر حاضر۔ مگر کب تک؟

ان قزاقوں نے آپسی گٹھ جوڑ سے پوری سوسائٹی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ پہلے اسمبلیوں میں اپنے اپنے کارندے بٹھائے، انھوں نے اداروں کو ہائی جیک کیا۔ اہم اداروں کا سربراہ خاص طور سے ان اداروں کا جہاں کرپشن کرنے کی آسانی ہو۔ وہاں اپنے عزیز و اقارب کو مسلط کر دیا۔ سلوگن بنا ’’کھاؤ اور کھانے دو‘‘۔ غلام ابن غلام ہاتھ باندھے، حلق میں لاؤڈ اسپیکرز فٹ کیے ان کے تحفظ کے لیے اس لیے تیار کہ قزاق اور لٹیروں کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کی اوقات بھی دو کوڑی کی نہ رہے گی۔ لیکن کب تک؟ بچہ بھی جب تک روتا نہیں ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم گروہوں میں تقسیم ہو کر ان قزاقوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنے کے بجائے متحد ہو جائیں اور اپنا حق ان سے چھین لیں۔ اگر کچھ سادہ لوح ان لٹیروں اور چوروں کی چکنی چپڑی باتوں پہ یقین کر کے بیٹھ گئے، تو پھر وہی ہو گا جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ یعنی ’’چور کا بھائی گرہ کٹ‘‘ ابھی لوگوں کا شعور عمران اور ڈاکٹر طاہر القادری کی بدولت بیدار ہوا ہی ہے تو اس احتجاج اور دھرنوں کی بدولت۔ پٹرول کی قیمتوں میں چند ٹکوں کی کمی ہوگئی۔ لیکن وہ بھی اس طرح کہ جیسے بھوکوں کے آگے روٹی کا ایک ٹکڑا ڈال دیا۔ تا کہ ان کی بھوک نہ مٹے۔ پھر اگلے ماہ ایک اور ٹکڑا۔ اور اپنے لیے غیر ملکی دورے۔ کروڑوں اور اربوں روپے ڈالروں کی شکل میں جو ان کی عیاشیوں پہ صرف ہو رہا ہے۔ وہ کس کا ہے؟ ہمارا ہے، اور ہمیں یہ ان سے چھیننا ہو گا۔ بس بہت ہو گیا۔ اب عوام کے ہاتھ ان قزاقوں کے گریبانوں تک پہنچ جانے چاہئیں۔ ہمیں صرف پاکستانی بن کر سوچنا چاہیے۔ عمران خان کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے سب کو احساس دلا دیا کہ اصل ہمارے اندر یہ ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں۔

انگریز کی غلامی سے نجات سب نے مل کر حاصل کی تھی۔ ہندو، مسلمان اور سکھ سب اکٹھے تھے۔ آج بھی کایا پلٹ سکتی ہے۔ بس ذاتی مفاد ایک طرف رکھ کر صرف انسان اور پاکستانی بن کر سوچیے کہ روز محشر اپنے پروردگار کے سامنے اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ بجائے مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے کے ظالم کا ساتھ دیا؟ سرسید احمد خان کہتے تھے کہ ’’قیامت کے دن جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ میں نے دنیا میں کون سا نیک کام اپنی قوم کے لیے کیا، تو کہوں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوائی‘‘ اب مانگنے کا نہیں بلکہ گردنیں ناپنے اور اپنا حق چھیننے کا وقت آ گیا ہے۔ کیا عام پاکستانی ہمیشہ غربت، افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا اور ان قزاقوں کے خاندان ہمیشہ ہمیں لوٹنے کے لیے کمربستہ رہیں گے۔ ہمیں اس وقت تک ان ظالموں سے نجات نہیں مل سکتی، جب تک ہم خود نہ چاہیں گے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب ہم مسلک، مذہب، زبان اور صوبائی عصبیت سے بلند ہوکر سوچیں۔

نوجوان نسل میں کیوں اتنی کڑواہٹ ہے؟ وہ کیوں ہتھیار اٹھانے اور جرائم کرنے پہ مجبور ہوئے؟ کوئی بھی پیدائشی چور نہیں ہوتا۔ حالات، بھوک، بے روزگاری اور بیماریاں ایک کے بعد ایک منہ کھولے کھڑی ہوں، بچے اسکول نہ جا سکیں، ایک کمرے کا گھر میسر نہ ہو، ایک کثیر آبادی کوڑے کے ڈھیر میں سے رزق تلاش کرنے پہ مجبور ہو جائے اور دوسری طرف لاکھوں کروڑوں روپیہ قزاقوں کی جیبوں میں کرپشن کے ذریعے چلا جائے۔ ایک دانت نکوسنے والا لٹیرا ہوائی جہاز بھیج کر بھنڈے کھانے کو منگواتا ہو اور دوسرے کے معدے میں سری پائے، حلیم اور کباب غیر ملکی دوروں میں بھی فراہم کرنا سفیروں کے اولین فرائض میں شامل ہو تو پھر کیا اقبال کا کہنا غلط ہے کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

ان قزاقوں کی اب اتنی ہمت بڑھ گئی ہے کہ یہ اعلیٰ ترین اور حساس ترین اداروں اور ان کے سربراہوں کو ان کی منہ مانگی قیمت پہ خرید کر ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ لیکن ذرا یہ تو سوچیے کہ ان بڑے لوگوں کو خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ ہمارا پیسہ ہے، قوم کا پیسہ ہے جو یہ بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔