ایک دردمندانہ مشورہ

سعد اللہ جان برق  اتوار 7 دسمبر 2014
barq@email.com

[email protected]

جناب کپتان عمران خان صاحب

تسلیمات بے نہایات

ہمارے پاس تو وقت ہی وقت ہے لیکن چونکہ آپ کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت، لہذا ادب و آداب میں وقت ضایع کیے بغیر سیدھے مطلب کی بات کرتے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ ہم آپ کے کتنے بڑے فین ہیں۔

سادگی بانکپن اغماض شرارت شوخی

تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک کہ تمہارے انداز

دل میں وہ میرے سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دراصل آپ جو بھی باتیں کرتے ہیں، یوں کہئے کہ ہمارے منہ کی بات چھین لیتے ہیں یہ جو پاکستان پر باریوں کی باریاں بلکہ باری بخار مسلط ہیں، ان سے ہمیں بھی اتنی الرجی ہے جتنی آپ کو، بلکہ اگر تولا جائے تو شاید ہماری الرجی زیادہ نکلے کیوں کہ آپ کو تو ابھی تازہ واردان بساط ہوائے دل ہیں لیکن ہم اس زمانے سے ان کے نیچے ہانپ رہے ہیں جس زمانے میں آپ کے کھیلنے کودنے کے دن تھے، مطلب یہ کہ

فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے

کہ مجنون لام الف لکھتا تھا دیوار دبستان

باری باری کی ان بھاری بھرکم سواریوں نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور پیٹھ کی ہڈیاں یوں داغ داغ ہو چکی ہیں کہ پنبہ کجا کجا نہم، بلکہ اگر سچی بات کہیں تو ہماری حالت اس ’’سواتی‘‘ کی سی ہو چکی ہے جس کے ہاتھوں سے ایک ہندو کا قتل ہو گیا تھا، یہ واقعہ موجودہ مدائن کے آس پاس کے کسی درے میں ہوا تھا، سوات میں قتل کا یہ واقعہ بالکل ہی نیا تھا کیوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سوات نے آج کل جتنی ترقی نہیں کی تھی وہاں کے حاکم نے والی صاحب کو ہینڈل والے فون پر اطلاع دی تو والی صاحب نے کہا کہ مقتول کو قاتل کے اوپر لاد کر سیدو شریف بھیجا جائے، حاکم نے گارڈ کی نگرانی میں مقتول کی لاش کو قاتل کی پیٹھ پر لدوایا اور روانہ کر دیا، دو دن میں یہ قافلہ سیدو شریف میں والی صاحب کے پاس پہنچا تو والی صاحب نے کہا کہ میں نے تو بعد میں حاکم کو فون کر کے ہدایات دے دی تھیں تم خواہ مخواہ اسے میرے پاس لے آئے اب اسے ترنت واپس حاکم کے پاس لے جاؤ، وہی فیصلہ کرے گا ۔ لاش کو پھر قاتل کے اوپر لاد دیا گیا۔

دو دن کے بعد حاکم کے پاس پہنچے تو حاکم نے کہا کہ والی صاحب نے پھر اپنا حکم بدل دیا تھا اور لاش کو پھر سیدو شریف لے جایا جائے، سوات میں سردی ہونے کے باوجود اتنے دنوں تک لاش سڑنے لگی تھی، گارڈ تو دور رہتے تھے لیکن ’’لدو قاتل‘‘ کی حالت بالکل ہی ناگفتہ بہ ہو رہی تھی۔ اوپر سے مسلسل چار پانچ دن تک لاش کو پیٹھ پر لیے پھرنا، لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات سیدو شریف کی طرف قافلہ پھر روانہ ہو گیا، لیکن والی صاحب نے اس مرتبہ درشن دیے بغیر کہلوایا کہ لاش کو ایک مرتبہ پھر حاکم مدائن کے پاس لے جایا جائے، اب کے جب یہ قافلہ پہاڑی راستہ طے کرنے لگا تو قاتل جس کے اوپر مقتول کی بدبودار نعش پڑی ہوئی تھی اچانک ایک اونچی پہاڑی سے نیچے کھائی میں کود پڑا اور یوں اس بلائے عظیم سے نجات پا گیا۔

اس شخص نے تو پھر بھی قتل کے جرم کا ارتکاب تو کیا تھا ہم نے تو نہ ہندو نہ مسلمان بلکہ کوئی مچھر تک نہیں مارا تھا، صرف سندباد جہازی کی طرح اتنی غلطی کی تھی کہ پیرتسمہ پا کو اپنے اوپر لادنے کی نیکی کی تھی، سندباد جہازی کی قسمت بھی اچھی تھی کہ صرف ایک ہی پیر تسمہ پا سے پالا پڑا تھا، ہماری قسمت میں تو ’’تسمہ پاؤں‘‘ کے پورے خاندان آئے ہیں۔ ایک سے نجات پاتے ہیں تو اس سے پہلے دوسرا ہماری پیٹھ پر بیٹھ چکا ہوتا ہے، ایسے میں آپ آئے ہماری ’’بگیا‘‘ میں تو پھول کھلے گلشن گلشن، ہم خوش ہوئے کہ اب ان دراڑوں، سوراخوں اور بلوں میں سے ڈسنے والے سانپوں بچھوؤں اور اندھیرے میں ناچتے ہوئے بھوت پریتوں اور ڈائنوں چڑیلوں سے نجات مل جائے۔

سحرم دولت بیدار بہ بالین آمد

گفت برخیز کہ آں خسرو شیریں آمد

قدمے درکش و سرخوش بہ تماشا بخرام

تابہ بینی کہ نگارت بہ چہ آئین آمد

یعنی صبح دم آفتاب عالم تاب نے ہمارے سرہانے آ کر مژدہ سنایا کہ اب اٹھ بھی جا کہ تیرا خسرو شیرین چلا آ رہا ہے، پیالہ اٹھا خوشی سے جھوم تا کہ تو دیکھ سکے کہ تیرا محبوب کس شان سے خراماں خراماں چلا آرہا ہے، ہم جاگے ہم اٹھے ہم بیٹھے ہم اترے ہم چل پڑے بلکہ دوڑ پڑے اور آپ کے پیچھے ہو لیے۔ تمنائیں جاگ اٹھیں، ارمان سرسبز ہوئے اور آرزوئیں انگڑائیاں لینے لگیں، ہوبہو وہی کیفیت ہوئی جو فیضؔ کی دشت تنہائی میں ہوئی۔ آپ بولتے رہے، ہم سنتے رہے، سر دھنتے رہے، جو توقعات آپ نے پیدا کیں سوچا آج نہیں تو کل۔۔۔۔۔ کل نہیں تو پرسوں ہم منزل مراد کو پا لیں گے کیوں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، دیر سویر کی کوئی بات نہیں۔

مطلب یہ کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وعدے پر وعدے ہو رہے ہیں اور تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے، اصل پرابلم کچھ اور ہو گئی ہے اور وہی بتانے جا رہے ہیں، ممکن ہے کہ ہم غلط ہوں لیکن ہمیں تو کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے لہجے سے ’’ہم‘‘ کی جگہ میں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ سے محبت کرنے والوں کا ہجوم آپ کے ساتھ ہے اور آپ کو ’’ہم‘‘ زیادہ بولنا چاہیے، پاکستان کے لٹے پٹے ترسے ترسائے کچلے کچلائے عوام آپ سے محبت کرتے ہیں اور صرف اس لیے کہ یہ محبت کرنے والے لوگ ہیں، کسی کی ادا پر مرتے ہیں تو سب کچھ ہارنے کو تیار ہو جاتے ہیں، کسی پر دل آتا ہے تو ٹوٹ کر چاہنے لگتے ہیں۔ آپ ان کی رہنمائی کریں، باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔