وزیراعظم 25 جولائی تک خط لکھ دیں ورنہ کارروائی ہوگی، سپریم کورٹ

ایکسپریس اردو  جمعـء 13 جولائی 2012
 یہ عدالت کے حکم پرعملدرآمد کا سیدھا سادہ کیس ہے،کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ فوٹو/ایکسپریس

یہ عدالت کے حکم پرعملدرآمد کا سیدھا سادہ کیس ہے،کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ فوٹو/ایکسپریس

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے این آراوفیصلے پرعملدرآمدسے متعلق وزیراعظم کا جواب مسترد کردیا ہے اور25جولائی تک سوئس حکام کوخط لکھنے کے فیصلے پر عمل کرکے رپورٹ جمع کرنے کاحکم دیاہے۔عدالت نے قراردیا کہ فیصلے پرعمل نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعظم کے خلاف آئین و قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے نیب کے وکیل شائق عثمانی کی طرف سے التوا کی درخواست پر عدنان اے خواجہ اور ملک قیوم کے معاملے پر مزیدکارروائی موخرکر دی ۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میںپانچ رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کوبتایاکہ انھوں نے وزیر اعظم سے اس سلسلے میں ملاقات کی اور عدالت کاحکم ان تک پہنچایا۔انھوںنے بتایا کہ وزیراعظم نے انھیںزبانی ہدایات دیںکہ سوئس حکام کوخط لکھنے کامعاملہ کابینہ کے اجلاس میںاٹھایاگیا اورکابینہ نے اتفاق رائے سے اسے وزارت قانون کوبھیجنے کا فیصلہ کیاہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم نے انھیںبتایاکہ جب وزارت قانون کی رائے موصول ہوگی توپھراس حوالے سے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیاجائے گا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کابیان نوٹ کرنے کے بعدسماعت کچھ دیرکیلیے ملتوی کی۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی توعدالت نے حکم سناتے ہوئے قراردیاکہ موجودہ وزیراعظم کے پیشرو کو بھی این آراوفیصلے پرعملدرآمدکاحکم دیاگیا تھاکیونکہ این آراوفیصلے کے خلاف حکومت کی نظرثانی درخواست مستردہونے کے بعد اس فیصلے کو حتمی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اوراس پرعملدرآمدان کی ذمے داری تھی۔عدالت نے اس ضمن میںگزشتہ سماعت کے احکامات کااعادہ کیااور قراردیاکہ یہ عدالت کے حکم پرعملدرآمدکا سیدھاسادہ کیس تھاجس میںوزیر اعظم کونہ تو کسی سے مشورہ کرنے، اجازت لینے یاہدایات لینے کی ضرورت تھی اورنہ ہی وہ اپنی ذمہ داری کسی مشیرپرڈال سکتے تھے کہ انھیںصائب مشورہ نہیںدیا گیا۔

عدالت نے قراردیاکہ ان ہدایات کااطلاق موجودہ وزیراعظم پربھی ہوتاہے اورانکے پاس عدالت کے حکم پرعمل کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے،اس لیے موجودہ وزیر اعظم کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر این آر او فیصلے پر عملدرآمد کریں۔ عدالت نے اپنے حکم میںبدھ کوکابینہ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات کی پریس کا نفرنس کا نوٹس بھی لیااورکہاگیا ہے کہ وزیراطلاعات نے دو ٹوک الفاظ میںکہا کہ آئین پاکستان سوئس حکم کو خط لکھنے کی اجازت نہیںدیتااس لیے اس حوالے سے عدالتی حکم پر عمل نہیںکیا جاسکتا۔حکم میںکہا گیا ہے کہ حکومت کے دیگر عہدیداروں نے بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یہی روش اختیارکی ہے اور اس کیلئے وہ صدر مملکت کے استثنٰی کی شق248 کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ عدالت نے اس سے پہلے 10جنوری 2010کو اسی کیس میں چند آپشن دیے تھے جس میں ایک آپشن یہ تھا کہ اب تک استثنٰی کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔

لہٰذا اگرکوئی سمجھتا ہوکہ اس پروسیڈنگ سے استثنٰی کی شق متاثر ہوگی تو عدالت کے سامنے یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن عدالت کی طرف سے یہ موقع دینے کے باوجود اس کا سہارا نہیں لیا گیا۔عدالتی حکمنامے میںکہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت کیس میں عدالت کو بتایا کہ وہ اس پر بات نہیںکریںگے اور انہوں نے صرف بین الاقوامی استثنٰی پر بات کی جس پر عدالت نے یہ قرار دیا کہ بین الاقوامی استثنٰی کا معاملہ غیر ملکی عدالت کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے اس عدالت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ توہین عدالت کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل یا نظر ثانی نہ ہونے کے باعث اس کو حتمی حیثیت حا صل ہوگئی ہے اس لیے استثنٰی کے معاملے پر اب بات نہیںکی جاسکتی ہے۔

ثناء نیوزکے مطابق سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے فیصلے پر فوری طور پر عمل کیا جائے اور اگر عدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو عدالت کوئی بھی حکم دے سکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ وزارت قانون کو بھیج دیا گیا ہے ۔وزارت قانون عملدر آمدکے حوالے سے اپنی رائے دے گی جوکابینہ کے سامنے رکھی جائے گی اور وفاقی کابینہ آئینی شقوںکے مطابق کیس کا فیصلہ کرے گی،عدالت نے سیکرٹری قانون اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ عمل کب تک مکمل ہو جائے گا، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سیکرٹری قانون اور وزیر قانون نئے آئے ہیں۔وزارت قانون عدالتی احکامات دیکھ کر رائے دے گی۔اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ معاملہ کوگرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک موخرکر دیا جائے کیونکہ وہ خود بھی چھٹیوں پر جا رہے ہیں۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ سوئٹزرلینڈ جا رہے ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں وہ کسی اور جگہ جا رہے ہیں۔عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم آپ کے جواب کا جائزہ لیں گے اور اس معاملہ پر اپنا حکم جاری کریں گے۔تھوڑی دیربعدعدالت نے سماعت دوبارہ شروع کرکے حکم نامہ لکھوایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔