مسائل کا آسان حل…

شیریں حیدر  اتوار 7 دسمبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں کوشش کر رہی تھی کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو جائے اور اس گاڑی کا ڈرائیور اپنی گاڑی کو واپس موڑ لے، اسکول کے سامنے کی سڑک یک طرفہ ٹریفک کے لیے تھی اور جہاں سے وہ داخل ہوا تھا ، وہاں بہت نمایاں بورڈ بھی لگا ہوا تھا، اب عین سو گز سڑک کے درمیان میں پہنچ کر وہ غلط سمت سے اور میں درست سمت سے ’’ آمنے سامنے ‘‘ تھے، وہ میرے واپس مڑنے پر اصرار کر رہا تھا جب کہ میں اسے سمجھا رہی تھی کہ وہ غلط سمت سے آیا تھا، میں اسے تنبیہ کرکے جانے بھی دیتی مگر مسئلہ یہ ہو چکا تھا کہ اب میرے پیچھے گاڑیوں کی طویل قطار تھی اور وہ سب درست سمت میں تھے اور وہ لیٹ بھی ہو رہے تھے کیونکہ سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی غیر قانونی پارکنگ کے باعث راستہ تنگ بھی تھا۔میں اپنی گاڑی سے نکل کر اپنے پیچھے کھڑے لوگوں کو اشارے سے ہارن بجانے سے منع بھی کر رہی تھی کیونکہ ہم ایک اسکول کے باہر تھے… مگر … یہ رواج مہذب ممالک اور قوموں میں ہوتا ہے کہ اسکول اور اسپتال کے باہر ہارن نہیں بجانا چاہیے۔

’’ دیکھئے محترم، شاید آپ نہیں جانتے کہ یہ ایک یک طرفہ ٹریفک والی سڑک ہے… ‘‘

’’ نہیں… میں ہر روز اسی راستے سے جاتا ہوں !!‘‘ وہ سخت لہجے میں بولا۔’’ اس کا مطلب ہے کہ آپ ہر روز قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ؟ ‘‘

’’ تسیں پولس بلا لو بی بی… ‘‘ اس کے اندر وہ خود نہیں بلکہ وہ اتھارٹی بول رہی تھی کہ وہ کسی ’’ بڑے ‘‘ باپ کا مگر چھوٹے ذہن کا لڑکا تھا۔’’ میرا خیال ہے کہ ان چکروں میں نہ پڑا جائے… ‘‘ میں نے انتہائی رسان سے کہا، ’’ ہم سب کا وقت ضایع ہو گا اور میرا خیال ہے کہ اس وقت ہم سب وہی لوگ ہیں جنھیں اپنے اپنے کام پر پہنچنا ہوتا ہے … ‘‘

’’ ہا ہا ہا ہا … ‘‘ وہ منہ پھاڑ کر ہنسا، ’’ کام بھی ہوتا ہے اس ملک میں کیا ؟ آپ سب کام کرتے ہیں… ‘‘ اس نے مجھ سمیت سب کو ایک ہی تھیلے میں سمیٹ لیا۔’’ چلیں اب آپ احتیاط سے اپنی گاڑی کو ریورس میں لے جائیں تاکہ سب کا راستہ کھل جائے… ‘‘ میں نے پھر بھی اس کی بات کو برداشت کیا ۔’’ نہیں جاتا… ‘‘ وہ گاڑی سے نکل کر ، ٹیک لگا کرباہر کھڑا ہو گیا، میری برداشت کا کڑا امتحان تھا، پہلے بھی کئی بار ایسی نوبت آ چکی ہے مگر عموما لوگ بات کو سمجھ جاتے ہیں مگر یہ ذرا nut ثابت ہو رہا تھا۔’’ آپ ہٹیں میڈم جی… ‘‘ ہمارے اسکول کے گارڈ نے مجھے کہا اور اس کے روبرو کھڑا ہو گیا ۔

’’ ہر گز نہیں… ‘‘ میں نے اسے روکا، ’’ اس طرح بات بڑھ جائے گی!!‘‘ ’’ بڑھنے دیں بات جی… بہت برداشت کر لیا ہے اب ان لوگوں کی بدتمیزیوں کو… ‘‘ گارڈ اپنے پورے غصے کے عروج میں تھا، کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ پچھلے پندرہ منٹ میں وہ نرم لہجے سے متاثر نہ ہوا تھا۔ میں اس سے سختی سے اس لیے بات نہیں کرنا چاہتی تھی کہ نا معلوم ان آج کل کے نوجوانوں میں سے کس کے پاس کس وقت اسلحہ نکل آئے، اسی ایک بات کو لے کر میں گارڈ کو بھی منع کر رہی تھی ، اس کے پاس بھی اسلحہ تھا اور بات بڑھ جاتی تو کسی کا نقصان ہو جاتا۔

’’ آپ اپنی گاڑی کی چابی دیں میڈم اور اندر جائیں، ہم دیکھ لیتے ہیں اسے… ‘‘ اس نے باقی گارڈز کو بلایا، اسکول کے ڈرائیور کو بھی بلایا، دو لوگوں نے اس نوجوان کو پکڑا، وہ اس وقت تک پر اعتماد تھا، جونہی انھوں نے اسے پکڑا اس نے مغلظات کا طوفان برپا کر دیا۔ فون غالبا اس کی گاڑی میں تھا، انھوں نے اسے گھسیٹ کر ہٹایا، ڈرائیور نے اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کی گاڑی کو ریورس میں ہٹایا، میں نے اپنی گاڑی چلائی اور اسے اس کی مخصوص جگہ پر پارک کر دیا، ساری پھنسی ہوئی ٹریفک لمحوں میں کھل گئی، سب لوگ لیٹ ہو چکے تھے ، اسکول کی صبح کی اسمبلی بھی ختم ہو چکی تھی، مگر میں نے اندر جا کر ساری صورت حال واضح کی تا کہ وہ تمام بچے جو اس ہنگامے کی وجہ سے پھنسے ہوئے تھے، انھیں جرمانہ نہ ہو… مگر میں باقی لوگوں کے لیے کیا کر سکتی تھی جو اپنے اپنے کاموں پر بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد پہنچتے ہیں۔

ابھی انھیں ٹریفک کے طوفان کا سامنا بھی کرنا تھا۔کسی بڑے کی اولاد کے ساتھ ہونیوالے سلوک نے دن بھر بے چین اور منتظر رکھا کہ جانے اس کا ’’ بڑا‘‘ باپ اب کیا کرے گا، مگر دن بھر کچھ نہ ہوا، اندازہ یہی ہے کہ اس کے باپ کو سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ اصل غلطی اس کی اولاد کی ہے اور جب خلق خدا جاگ جائے تو حاکموں کو فرار کی راہ تلاشنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ہر جگہ ایسا کرنا ممکن نہیں جیسا لاہور میں پولیس نے کیا… آپ سب جانتے ہیں کہ کس طرح معذوروں کے عالمی دن کے پر امن احتجاج کو پولیس کی بربریت نے ’’ بریکنگ نیوز ‘‘ بنا دیا… بینائی سے محروم افراد اس بات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے کہ معذور افراد کے لیے حکومت کی طرف سے مختص کیا گیا کوٹہ کہیں نہ کہیں ’’ ہائی جیک ‘‘ ہو رہا ہے… وہ بے چارے قدرت کی طرف سے بھی محروم اور ہم سب کی غفلت کا شکار بھی، وہ نہیں دیکھ سکتے تو وہ سمجھے کہ شاید یہ حکومت بھی نہیں دیکھ سکتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، وہ کیا جانیں کہ حکومت دیکھ تو سب رہی ہے مگر آنکھیں بند کر کے سمجھتی ہے کہ وہ ان مسائل کا سامنا کرنے سے بچ رہی ہے۔

کیا ہم معذور افراد کو ان کے تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے حق سے محروم کر کے خود ملک میں گداگروں کے اعداد و شمار میں اضافہ نہیں کر رہے؟ جن کو سہارا دینا مقصود ہے ، جانے کس کے اشارے پر ان معصوموں کے ساتھ پولیس نے بربریت کا یہ کھیل کھیلا۔ اسکول کے باہر پیش آنے والا واقعہ صرف اس ضمن میں لکھا ہے کہ حکمران طبقہ خود کو ہر معاملے میں حق بجانب، اپنے غلط کو بھی درست اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے، اور جوکچھ ہمارے گارڈز نے کیا وہ غلط ہونے کے باوصف بھی اس لیے درست ثابت ہوا کہ یہی زبان یہ بڑے لوگ خود بھی سمجھتے ہیں۔احتجاج ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے اور اسے اس حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا، کسی کے احتجاج کو سننا، اسے سمجھنا ، اسے اہمیت دینا، اس کے تدارک کی کوشش کرنا، یہ سب مہذب خاندان، معاشرے اور ملک کی روایات کا حصہ ہونا چاہیے۔بھٹو کے دور حکومت میں ایک لطیفہ زبان زد عام ہوا تھا، بھٹو کے وزیر نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ غربت کے خاتمے کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ غریبوں کو ختم کر دو۔

اس وقت چونکہ سوشل میڈیا نہ تھا اس لیے لطائف سینہ گزٹ اور پرنٹ میڈیا سے پھیلتے تھے۔ لاہور میں پیش آنے والا حالیہ واقع نہ صرف پولیس کی بربریت کی ’’ شاندار ‘‘ مثال ہے بلکہ مجھے تو شک ہوا کہ بھٹو کا کوئی وزیر موجودہ وزراء میں شامل تو نہیں… یا ان کا کوئی بیٹا یا پوتا، شاید اس نے مشورہ دیا ہو گا کہ جو احتجاج کرے،ا س کے احتجاج کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ احتجاج کرنیوالوں کا قلع قمع کر دو… سانحہء ماڈل ٹاؤن اور حالیہ واقعہ اس کی دو مثالیں ہیں، اس کے علاوہ بھی ملک کا چپہ چپہ ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب میڈیا ’’ ہر خبر پر نظر ‘‘ رکھنے والا ہے۔کوئی تسلی کے الفاظ، کوئی عمل، کوئی پھاہے۔

ان مظلوموں پر کیے گئے ظلم اور جبر کی تلافی نہیں کر سکتے، ماسوائے اس کے کہ حکومت کی طرف سے معذرت کی جائے اور یہ معذرت خالی معذرت نہیں بلکہ ان کے وفد سے ملاقات، ان کے مطالبات کی شنوائی اور ان پر عمل درآمد کیا جائے… چیونٹی کی بھی موت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں، امید ہے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی ورنہ اب عوام نے بھی قانون ہاتھ میںلینا شروع کر دیا ہے اور یہ دو طرفہ ’’ غیر قانونی ‘‘ حالات کسی قانونی انجام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔