کیسے دور ہوں خوف کے سائے؟

منیرہ عادل  پير 8 دسمبر 2014
ذرا سی توجہ سے بچوں کے ڈر دور کیے جاسکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ذرا سی توجہ سے بچوں کے ڈر دور کیے جاسکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

بچے پیدائشی طور پر ڈرپوک یا بزدل نہیں ہوتے، بلکہ زندگی کے حالات و واقعات ان کے دل میں کسی خوف کو جنم دیتے ہیں۔ کبھی اندھیرے کا خوف، کبھی کسی جانور کا خوف یا کبھی سخت گیر والدین کا خوف اور کبھی اپنی ہی سوچوں اور اندیشوں سے پیدا کردہ اَن جانے خوف۔

بسا اوقات بچپن کے یہ معمولی خوف انسان کی شخصیت کو تباہ کر کے ان سے جینے کی امنگ ہی چھین لیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جو افراد ذہنی دباؤ، اضطراب، بے چینی، بے سکونی وغیرہ کا شکار ہوتے ہیں، وہ بچپن میں ان کیفیات کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں، لیکن عمر بڑھنے کے  ساتھ ساتھ ان میں دوبارہ وہی کیفیات زیادہ شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین، اہل خانہ اور اساتذہ ایسے بچوں پر بھرپور توجہ کے ذریعے اس کیفیت پر قابو پالیں۔ والدین کی توجہ، پیار، وقت اور مثبت طرز عمل بچوں کو خوف کی دلدل میں دھنسنے سے بچا سکتا ہے۔

اگر ہم عام طور پر بچوں میں پائے جانے والے خوف کا مشاہدہ کریں، تو جو چند خوف زیادہ پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک خوف کسی جانور سے متعلق ہوتا ہے۔ مثلاً بلی، چوہا، کتا، خرگوش یا مرغی وغیرہ۔ جب کہ ماہرین نفسیات کی رائے میں چھوٹے بچے جانوروں سے بالکل خوف محسوس نہیں کرتے۔ یہ خوف در حقیقت سیکھا یا سکھایا ہوا جذبہ ہے۔ اہل خانہ، دوست، تربیت، تجربات اور ماحول اس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

معصوم اور ننھا بچہ ابتدا میں صرف تیز آواز یا شور سے پریشان ہوتا ہے۔ جانوروں کی اس کو پرواہ نہیں ہوتی۔ کتے سے اکثر لوگ ڈرتے ہیں۔ والدین کو خوف کا اظہار کرتے دیکھ کر بچے یہ خوف سیکھتے ہیں۔ لہٰذا والدین کو بھی حقائق کے ادراک کے ساتھ ذہانت کے ساتھ اپنی تربیت خوف سے نجات پانے میں معاون ثابت ہوگی۔ کھیل کود کے دوران اکثر بچے اپنے ساتھیوں کو ڈراؤنے ماسک  یا چہرے پر پینٹ کے ذریعے ڈراؤنی شکل بناتے ہیں، جس سے دوسرے بچے خوف سے چیخنے، چلّانے لگتے ہیں۔ ڈرانے والے بچوں کے لیے یہ محض ایک تفریح ہوتی ہے، لیکن ڈرنے والا بچہ بعض اوقات کافی عرصے تک اس خوف کے حصار سے نکل نہیں پاتا۔

اگر آپ کا بچہ اپنے دوستوں یا بہن بھائیوں کو ڈراتا ہے، تو سختی سے منع کیجیے، تنبیہ کیجیے۔ اگر آپ کے بچے کو ڈرایا گیا ہے، تو اپنے بچے کی شخصیت کو مضبوط اور متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ عموماً بچے بار بار اس خوف ناک منظر کو دُہراتے رہتے ہیں۔ ان کو جبراً خاموش کرنے کے بہ جائے ان کی بات توجہ سے سنیں اور نرمی سے خوف پر قابو پانا سکھائیں۔ اس کو عام سے ماسک لا کر دیں اور چہرے پر پہن کر سمجھائیں کہ بچے نے اس طرح چہرہ بدلا تھا۔ خوف کے حوالے سے کی گئی منطقی گفتگو بچے کے اندر مثبت تبدیلیاں لائے گی۔

اکثر ملازمت پیشہ والدین کے بچوں کو والدین کے بغیر کافی وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے بھی بچے تنہائی کے خوف کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہیں اپنے خالی گھر میں ڈر لگتا ہے، ہر آہٹ پر چونک جاتے ہیں۔ جب تک سب گھر میں نہ آجائیں، ان کو نیند نہیں آتی۔ ایسی صورت میں کوشش کیجیے کہ اپنے ملازمت کے اوقات کار ایسے منتخب کریں کہ بچوں کی گھر آمد سے قبل پہنچ جائیں۔ بہ صورت دیگر آپ دفتر سے وقتاً فوقتاً فون کر کے ان کی دل چپسی کی کوئی بات کریں، ان کو مصروف رکھیں۔ مثلاً میں نے آپ کے لیے فلاں پسندیدہ چیز بنائی ہے۔ ابھی آپ کے فلاں کام کا وقت ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر میں گھر آؤں گی، تو بتائیے گا کہ کیا ہوا وغیرہ وغیرہ۔

بچوں کے پسندیدہ مشاغل سے متعلق چیزیں ان کو معلومات فراہم کریں، تاکہ وہ مصروف رہیں۔ انہیں وقت کا بہترین استعمال سکھائیں۔ اس طرح ان کی کارکردگی کی قوت اور ذہنی سکون میں اضافہ ہوگا۔ نیند بہتر ہوگی اور خوف بھی بے حقیقت معلوم ہو گا۔ بعض اوقات بچے والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے غیر ارادی طور پر بھی خوف کا سہارا لیتے ہیں کہ شاید کسی کو احساس ہو، لیکن یہ ان کے اپنے لیے ہی زحمت بنتا ہے۔ جب انسان ایک بار کسی بھی طرح کے خوف کو اپنے اندر جگہ دے دیتا ہے، تو اس سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے مضبوط قوت ارادی کا سہارا لے کر مسلسل کوشش کرنی ہوتی ہے۔ انسان کو اپنے خیالات پر اتنا کنٹرول ہونا چاہیے کہ وہ جس طرح کے خیالات کو چاہے دماغ میں جگہ دے اور جس کو چاہے دماغ سے نکال دے۔

فی زمانہ حالات و حادثات بھی خوف کو جنم دیتے ہیں۔ بہت سی خبریں خوف زدہ کردینے والی ہوتی ہیں۔ کبھی بھی کچھ ہو جانے کا خوف اس دور میں بہت بڑھ کر سامنے آیا ہے۔ اس کا شکار افراد یا بچوں کے سامنے ایسی تکلیف دہ باتیں، واقعات یا خبریں اور ان کی جزئیات دُہرانے سے گریز کریں۔ ہر جگہ ہمیشہ بری خبر نہیں ہوتی۔ اچھی باتیں اور اچھی خبریں بھی ہیں۔ یہ آپ کی اپنی پسند ہے کہ توجہ کہاں جاتی ہے۔ کچھ بچے رات میں سوتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ اس لیے رات میں انہیں اچھے خیالات کے ساتھ سلائیں، تاکہ ان کا ذہن مثبت سمت میں رہے، ساتھ ہی انہیں مختلف دعاؤں کی بھی عادت ڈالیں۔

امتحان کے دنوں میں ناکامی یا نا اہلی کا خوف ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتا ہے۔ یہ کیفیت شدت اختیار کرلے، تو وہ کچھ نہیں کر پاتے، ایسے بچے اور افراد ذہنی طور پر مریض ہو جاتے ہیں۔ گھبراہٹ، خوف، احساس کمتری، مایوسی ان کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں ان کو پیار سے سمجھا کر پر سکون کریں۔ امتحانی نتائج سے زیادہ بچوں کی قابلیت، اعتماد کو اہمیت دیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کے کم نمبروں کی وجہ ان کا محنت نہ کرنا ہو۔ بچے کے تعلق سے اصل بات والدین کا اعتماد اور بھروسا ہوتا ہے۔

چھوٹے بچوں کی شرارتیں، اچھل کود، تنگ کرنا، بسا اوقات تھکن کے شکار والدین کو مشتعل کر دیتا ہے اور ایسی صورت میں وہ بچوں کو مارپیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے۔ درحقیقت تشدد سے بچوں کی تربیت اور اصلاح کا کام ممکن ہی نہیں۔ سزا اور سختی بچے کو جبری فرماں برداری پر تو مجبور کر سکتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں بزدلی، بے بسی، کم ہمتی، احساس کمتری، بے اعتمادی اور خوف پیدا ہونے کے خدشات شدید ہوتے ہیں جب کہ محبت کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو متوازن اور مضبوط  شخصیت کا مالک بنا سکتے ہیں۔ بچوں کی نفسیات، اصلاح و تربیت کے حوالے سے کتابیں پڑھنا والدین کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔