انوکھا بادشاہ، جو ہزاروں میل دور رہ کر امورِ سلطنت چلا رہا ہے

ندیم سبحان  منگل 9 دسمبر 2014
گھانا کے خودمختار سرحدی علاقے ہوہوئی کا بادشاہ سیفس بانسا تعلیم کے حصول کی غرض سے جرمنی آیا تھا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔  فوٹو: فائل

گھانا کے خودمختار سرحدی علاقے ہوہوئی کا بادشاہ سیفس بانسا تعلیم کے حصول کی غرض سے جرمنی آیا تھا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ فوٹو: فائل

سیفس بانسا ایک افریقی ملک کا بادشاہ ہے۔ مگر وہ ایسا بادشاہ ہے جسے اپنی سرزمین پر قدم رکھے کئی عشرے ہوچکے ہیں۔

نوجوانی کے زمانے ہی سے وہ جرمنی میں مقیم ہے اور وہیں سے اپنی مملکت کے امور چلا رہا ہے۔ سیفس دراصل افریقی ملک گھانا کے خودمختار سرحدی علاقے ہوہوئی کا بادشاہ ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ہوہوئی گھانا کا حصہ ہے مگر انتظامی طور پر یہ خود مختار علاقہ ہے جہاں بانسا خاندان کی بادشاہت چلی آرہی ہے۔ سیفس کی رعایا میں دولاکھ سے زائد مرد و زن شامل ہیں۔ جرمنی کے شہر Ludwigshafen میں مقیم سیفس ٹیلی فون، فیکس، ای میل اور اسکائپ کے ذریعے اپنی سلطنت کے امور چلاتا ہے۔

چھیاسٹھ سالہ سیفس 1970ء میں فنی تعلیم کے حصول کی غرض سے جرمنی آیا تھا۔ یہ ملک اسے اتنا بھایا کہ وہ یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اسے فنی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی، چناں چہ اس نے ایک کمپنی میں اپرنٹس شپ شروع کردی۔ سیفس نے اس دوران زرعی مشینری اور عام گاڑیوں کے مکینک کے طور پر تربیت مکمل کی۔ مشینوں کے علاوہ اسے باکسنگ کا بھی شوق تھا۔  فارغ وقت میں وہ باکسنگ کی مشق کیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ  اس کھیل میں اسے اتنی مہارت ہوگئی کہ 1975ء میں وہ اپنے ضلعے کا چیمپیئن بن گیا۔

جرمنی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے سیفس نے کہا تھا،’’ یہاں مقیم ہونے کی دو وجوہ ہیںِ؛ پہلی بات تو یہ کہ اپرنٹس شپ کے دوران میں نے جو ہنر سیکھے تھے ان سے فائدہ اٹھانا اور دوسرے جرمن قوم کے مختلف رویوں کا مشاہدہ کرنا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے میں بادشاہ کی حیثیت سے اپنے لوگوں کے زیادہ کام آسکتا ہوں۔‘‘

سیفس کی رسم تاج پوشی 16 اپریل 1992ء کو ہوئی تھی۔ اس کی تاج پوشی کا قصہ بھی دل چسپ ہے۔ عام طور پر بادشاہ کی موت یا اقتدار سے دستبرداری کے بعد اس کا بیٹا ہی تخت نشین ہوتا ہے مگر سیفس کو اس کے دادا کی موت کے بعد بادشاہ منتخب کرلیا گیا حالاں کہ اس کے والد اور بڑے بھائی بھی حیات تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیفس کے بھائی اور والد بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ مقامی عقیدے کے مطابق وہ حکمرانی کے اہل نہیں ہوسکتے تھے کیوں کہ ہوہوئی میں بائیں ہاتھ کو ناپاک سمجھا جاتا ہے۔

سیفس اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ Ludwigshafen میں رہتا ہے۔ یہاں اس نے ایک ورک شاپ کھول رکھی ہے جہاں وہ گاڑیوں اور زرعی آلات کی مرمت کرتا ہے۔ اپنی سلطنت سے ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود وہ بادشاہ کی حیثیت سے تمام ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔  زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اپنی رعایا کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کی خاطر ایک این جی او قائم کی۔

Ludwigshafen میں سیفس کی اچھی شہرت کی بہ دولت اس این جی او کو عطیے میں کثیر فنڈز کے علاوہ زرعی ساز و سامان بھی ملا جو اس نے گھانا منتقل کردیا۔ پھر اس نے واٹر پمپ اور پانی کے پائپ بھیجے جن کی مدد سے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کے حصول میں آسانی ہوگئی۔ ہوہوئی کے واحد اسپتال میں بھی سیفس کی کوششوں سے جدید آلات اور مشینری نصب ہوئی۔ اس کے علاوہ اسپتال کو نئی ایمبولینس ، وہیل چیئرز بھی مل گئیں۔ اس نے اپنی رعایا کے علاج معالجے کے لیے بائیس جرمن ڈاکٹرز کو بھی ہوہوئی جانے پر راضی کیا۔ بعدازاں بادشاہ نے دریائے ڈیائی پر نیا پُل بھی تعمیر کروایا۔ یہ تمام کام اس نے جرمنی میں رہتے ہوئے انجام دیے۔

گاڑیوں اور مشینری کی مرمت کے علاوہ سیفس کو موسیقی سے بھی دل چسپی ہے۔ وہ ماہر گلوکار ہے اور کئی چینلز پر اپنے فن کا مظاہرہ  بھی کرچکا ہے۔ وہ ٹیلی ویژن پروگراموں میں شرکت کرتا رہتا ہے۔ اس کے شو آسٹریا سمیت کئی ممالک میں نشر کیے گئے ہیں۔

سیفس کی رعایا اپنے بادشاہ سے خوش  ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی تمام ضروریات  پوری ہورہی ہیں، اس لیے انھیں اپنے بادشاہ سے کوئی شکایت نہیں۔ دوسری بات یہ کہ شاہ کے دیدار کی خواہش اسکائپ کے ذریعے پوری ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔