زندہ لوگ

راؤ منظر حیات  منگل 9 دسمبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ایک دن پہلے لاہور پہنچاہوں۔سفرکی کوئی تھکن نہیں مگر ایک شب سے اخبارات کے مطالعہ اورٹی وی مباحثوں نے اتنی ذہنی تھکان پیداکردی ہے کہ لگتاہے ساؤتھ افریقہ سے جہازپر نہیں بلکہ پیدل آیا ہوں۔ وہی سنسی خیزبیانات، جذباتیت،بے سروپابحث اور منافقت۔ معاشرے میں دلیل کی طاقت کمزور نہیں بلکہ ختم ہوچکی ہے۔مذہب پرتو بات کرنے کی جرات تواب خیرکسی کے پاس نہیں۔ ہرایک کواپنی زندگی عزیزہے لیکن عمومی طورپرمعاشرے کے ہرحصہ کوکیا ہوچکاہے؟مجھے کسی جانب بھی توازن نظرنہیں آتا۔

میرے جودوست امریکا یالندن میں مقیم ہیں۔ اکثر مجھ سے بحث کرتے ہیں کہ اس ملک میں ہم کیسے زندگی گزار رہے ہیں اورکیوں؟میرٹ اورتحفظ کے بغیر۔ میں ہمیشہ یہ کہہ کرسب کوخاموش کردیتاہوں،کہ مجھے اپنے ملک سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے اورمیں یہیں رہوں گا۔مگرتنہائی میں اب میں اپنے آپ سے یہ سوال کرنے لگ گیاہوں کہ کیا میرا فیصلہ بالکل صحیح ہے؟اس مشکل سوال کوذہن سے نکال کر پھر میں گھنٹوں کے لیے سوچنابندکردیتاہوں اورکسی بیکارسے سرکاری کام میں مصروف ہوجاتاہوں۔

میرے ذہن میں چند بنیادی سوالات ہیں لیکن ان کاکوئی جواب نہیں ملتا۔مطالعے سے ذہن کی کئی گھتیاں کھل نہیں سکتیںاورمشاہدہ کئی جگہ خطاکھاجاتاہے۔ جمہوریت کیا صرف الیکشن کانام ہے؟نہیں بالکل نہیں۔ جمہوریت میری نظرمیں ایک رویہ ہے۔مقصد عام لوگوں کی فلاح اور خوشحالی ہے۔پہلی بات تویہ کہ ہمارے موجودہ نظام میں سو فیصد شفاف الیکشن منعقدہوناناممکن ہے۔ ہمارے پاس اس اعلیٰ درجہ کی غیرجانبدارافرادی قوت موجود ہی نہیں ہے جواپنے مفادات سے بالاترہوکر شفاف الیکشن کی طرف قدم بڑھا سکے۔

دوسرا ہمارا معاشرہ اتنے بگاڑکاشکارہے کہ اکثریت الیکشن میں صرف اپنے وقتی مفادکوسامنے رکھ کرووٹ ڈالتی ہے۔مجھے تربیت یاکردارکے بلنداوصاف کسی جگہ پربھی نظرنہیں آتے۔ اور تواور، ہمارے اہل قلم اوراہل دانش بھی گروہی تقسیم کاشکارہیں۔کوئی ایک سیاستدان کی بے جاحمایت میں مصروفِ کار،تودوسرااپنے محسنوں کے نام کی مالاجپتے ہوئے نظرآتاہے ۔چندگنے چنے لوگ کھڑے ہیں مگروہ کب تک اس طوفان میں قائم رہ سکتے ہیں،کوئی نہیں جانتا۔

میں نے اس عظیم ملک کو بتدریج تباہ ہوتے دیکھاہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے وقت تومیں اسکول میں تھا۔اس لیے کوئی گزارش نہیں کرسکتاتاہم بعد کے کئی واقعات میری نظر میں منجمد ہیں۔ویسے تومطالعہ کی بنیاد پرمیں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کودولخت کرنے کی بنیاد صدرایوب کے دور میں انتہائی محنت سے رکھی گئی تھی۔ضیاء الحق کے دورمیں سیاسی کرپشن،مذہبی شدت پسندی اورعصبیت کاوہ طوفان آیا،جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ضیاء الحق کے تیار کردہ سیاستدانوں کی فوج آج بھی عوام کی گردن  پرسوار ہے۔ آپ جومرضی کہہ لیجیے،سیاست کی بساط پرضیاء الحق کے مہرے جیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ضیاء الحق کی سوچ آج بھی اس ملک پرحاوی ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوچ جیت چکی ہے۔

دوسرارخ بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔پیپلز پارٹی وہ عظیم پارٹی ہے جس کی بنیاد میں ہزاروں کارکنوں کالہوشامل ہے۔ ذاتی قربانی اورنقصان کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بیان کرتے تکلیف ہوتی ہے۔میں دومثالیں دیناچاہتاہوں۔پنجاب کے ایک انتہائی محترم شخص کوان کی اہلیہ سمیت1977میں لاہورشاہی قلعہ میں قیدکردیاگیا۔ انھیں حکم دیاگیاکہ لکھ کردیں کہ وہ پیپلزپارٹی چھوڑچکے ہیں۔ انھوں نے انکار کردیا۔ مگر انکارکی گنجائش نہیں تھی۔ان کے سامنے ان کی اہلیہ کے لباس میں چھپکلیاں، کوک روچ اورچوہے داخل کردیے گئے۔پھر اس شریف آدمی نے مجبوراًلکھ کردے دیاکہ وہ سیاست سے دست بردار ہوتا ہے۔ ایک اورانتہائی متحرک طالبعلم رہنماجو آج بھی ایک بینک میں کام کررہے ہیں۔انھیں بھی قلعہ میں قید کرنے کے بعد کہا گیاکہ وہ پیپلزپارٹی چھوڑ دیں۔

انکار کرنے پرانھیں اسی کوٹھٹری میں ایک قبرمیں لیٹا دیاگیا اور سر پر ایک بلب لگادیاگیا۔انھوں نے ایک کاغذ پر دستخط کردیے کہ اس کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس طرح کی ہزاروں تکالیف تھیں جس میں سے سیاسی کارکن گزرے، مگر انھوں نے اپنی پارٹی کوبربادنہیں ہونے دیا۔میں ضمناً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھٹوصاحب نے بھی پہاڑجیسی غلطیاں کیں اور شائد  کفارہ بھی اداکر دیا‘یہی وجہ ہے کہ پارٹی زندہ رہی۔

پچھلے دورمیں سوائے پنجاب کے ہرجگہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔محترم زرداری صاحب پوری طرح با اختیار تھے۔ مگر انھوں نے ایسی غلطیاں کیں کہ ان کی پارٹی ایک  علاقائی تنظیم میں تبدیل ہوگئی‘اب وہ ایک مختصرسندھی گروہ کے رہنماہیں۔ پنجاب سے ان کی پارٹی کے سنجیدہ لوگ اب اس دوراہے پرہیں کہ وہ کیاکریں اور کیا نہ کریں؟کارکن اب خاموش بیٹھے ہیں۔ کہاں محترمہ بے نظیر بھٹوکالاہورمیںعظیم الشان استقبال اور کہاں زرداری صاحب کاگوجرنوالہ میں چندسو پرمشتمل بے جان ساہنگامہ۔ بخدا!اب توترس آتاہے، پارٹی کہاں تھی اورکہاں پہنچادی گئی۔ خیرفیصلہ مورخ ہی کرے گا۔

میں اشرافیہ سے مایوس ہوں مگرعام لوگوں سے نہیں۔ ہمارے لوگ خوش رہنے کافن جانتے ہیں ۔اس کا ثبوت میں آپ کو دیتا ہوں۔فیصل آبادمیں ایک لٹریری کونسل تشکیل دی گئی ہے۔اس کی عمرمحض دوماہ ہے۔ اسے ایک مقامی اسکول “فرسٹ اسٹیپز” (First Steps)کے پلیٹ فارم سے تشکیل دیا گیا ہے۔ کوئی ایک ماہ پہلے اس کی ایک غیررسمی سی نشست ہوئی۔فیصلہ ہواکہ فیصل آباد میں ایک ادبی میلہ منعقد کیا جائے۔بنیادی طورپریہ محترمہ سارہ حیات کا آئیڈیاتھاجو فرسٹ اسٹیپزکی پرنسپل ہیں۔ تقریب کامرکزی خیال”ادب اور فنونِ لطیفہ کی صورتحال”رکھاگیا۔توشیبہ سرور صاحبہ نے رابطہ کی ساری ذمے داری سنبھالنے کااعلان کیا۔لاہورمیں ان کی Consultancyکمپنی ہے۔اصغرندیم سیداوران کی اہلیہ ڈاکٹرشیبہ عالم صاحبہ نے ادیبوں اورشعراء کرام کے نام فائنل کرنے شروع کردیے۔ اصغرندیم سیدصاحب کی اہلیہ لاہور کنیرڈکالج میں شعبہ اردوکی ہیڈہیں۔خدانے ان دونوں کو شائستگی اور تہذیب کی دولت سے نوازرکھاہے۔جب یہ نام موزوں کیے جارہے تھے تومیں کسی حدتک اس میں ایک خاموش کارکن کی حیثیت سے شامل تھا۔

عبداللہ حسین کے مشہورناول”اداس نسلیں”کوپچاس برس کاعرصہ ہوچکاہے۔یہ عظیم تصنیف آج بھی اہل دانش و علم کے دل میں قدرومنزلت سے دیکھی جاتی ہے۔فیصلہ ہواکہ یہ تقریب اس عظیم ادیب کی پچاس سالہ کاوش کے طورپرمنائی جائے اور عبداللہ حسین اس”لٹریری فیسٹیول” کی صدارت کرینگے۔

تقریب کوسات حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی نشست کی صدارت توعبداللہ حسین کی تھی۔ مگراس میں انتظار حسین صاحب کاکلیدی خطبہ تھا۔اصغرندیم سیداور دیگر صاحبان کی کوششوں کی بدولت ادبی دنیاکے گوہرنایاب فیصل آباداکھٹے ہوگئے۔آرٹس کونسل کاہال خصوصی طورپر تیار کروایا گیا۔آپ شرکاء کے نام دیکھیں توحیرت ہوتی ہے۔ مستنصرحسین تارڑ،عطاالحق قاسمی، انورمقصود ،فریال گوہر،سلیمہ ہاشمی،کشورناہیداورعارفہ سیدہ۔ محترمہ تہمینہ درانی صاحبہ ملک میں نہیں تھیں،اسلیے وہ تشریف نہ لاسکیں۔اسی طرح جگنومحسن،راحت کاظمی اورساحرہ کاظمی بھی دیگرمصروفیات کی بدولت اس ادبی نشست میں شامل نہ ہو پائے۔

یہ انتطامات اپنی جگہ پر،مگرمجھے فیصل آبادکے لوگوں کے ردعمل نے حیران کرڈالابدقسمتی سے میں اس نشست میں شامل نہیں ہوسکاکیونکہ اس وقت ملک میں نہیں تھا۔مگرجب مجھے اس کی بے مثال کامیابی کے متعلق بتایاگیا تو واقعی میں سوچنے پرمجبورہوگیا۔ میں نے پروگرام کی سی ڈی انتہائی توجہ اور غور سے دیکھی۔تمام مہمان گرامی کو بغور سناگیا،بغیرکسی خلل اور آوازکے۔گھنٹوں بیٹھ کرشعراء اکرام اورادیبوں کواس احترام سے سناگیاکہ مجھے سامعین پررشک آنے لگا۔ بتایا گیا کہ لوگوں کے شوق کایہ عالم تھاکہ وہ صبح سے شام تک ہال میں بیٹھے رہے ۔یہ امرقابل فخربھی ہے اورقابل تقلیدبھی۔

اس ادبی محفل میں جن اداروں کی مالی معاونت حاصل رہی،اس میں کریسنٹ گروپ اورانٹرلوپ سرفہرست تھے۔ الطاف سلیم جوکریسنٹ گروپ کے روح رواح ہیں۔بذات خودصبح سے لے کرشام تک ہال میں موجودرہے۔یہ ان کی ادب دوستی کی مثال ہے۔اسی طرح “انٹرلوپ”کے مالک مصدق ذوالقرنین اوران کی اہلیہ بھی پوری دلچسپی سے وہاںبیٹھے رہے۔چوہدری عمردرازاپنی پیرانہ سالہ کے باوجودوہیل چیئرپرپوری نشست میں موجودرہے۔ایک اورحیرت انگیزانکشاف بھی کیاگیا۔ کسی اہم شخصیت نے پروٹوکال کامطالبہ نہیں کیا۔جسے جہاں جگہ ملی،وہ وہیں بیٹھ گیا۔یہ اچھی روایت ہے۔

یہ اہلیان فیصل آبادکی علم دوستی کی ایک مثال بھی ہے۔میں شروع میں محض انتظامی طورپراس میں شریک کاررہا، مگربدقسمتی سے انھی دنوں بیرون ملک کے سرکاری سفرکی وجہ سے اس تقریب کی چاشنی سے محروم رہا۔ مجھے اس کادکھ ہے! مگرجہاں زندگی میں اتنے دکھ ہیں،وہاںایک یہ چھوٹاساغم اورسہی۔میں جب اپنے ملک کے حالات پرغورکرتاہوں تودل بیٹھنے لگتاہے۔اپنے مقتدرحلقوں کی بے حسی اورجہالت کومحسوس کرتاہوں تو ہرطرف اندھیرا نظرآتاہے! مگر صاحبان! جب اس ملک کے عام لوگوں پرنظردوڑاتاہوں تومیرے ذہن سے مایوسی کاتاثر ختم ہوجاتاہے اور امید کے سورج کی طرف دیکھناشروع کردیتاہوں۔ ہمارے لوگ محض سانس نہیں لینا چاہتے، یہ زندہ رہناچاہتے ہیں۔ یہ خوش رہناچاہتے ہیں۔ فیصل آبادمیں منعقداس ادبی تقریب نے یہ ثابت کردیاکہ ہم لوگ حقیت میں زندہ لوگ ہیں۔ یہ رودادمحض ایک شہرکی نہیں۔اس ملک کاقریہ قریہ اورذرہ ذرہ، پہاڑجیسی مشکلات کے باوجودزندگی کی حرارت کومحسوس کرتاہے۔ہم زندگی کی روشنی سے بھرپورانسان ہیں۔”واقعی جیتے جاگتے زندہ لوگ”!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔