(پاکستان ایک نظر میں) - سزائے موت کے قیدی اور ہمارا عدالتی نظام

محمد عثمان فاروق  منگل 9 دسمبر 2014
جیلوں میں سزائے موت کے منتظر لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت نہ اُن کو معاف کررہی ہے اور نہ سزا دے رہی ہے جس کے سبب سیکڑوں لوگوں کی جگہ میں ہزاروں قیدیوں کو رکھا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کروڑوں کی لاگت الگ آرہی ہے۔ فوٹو: فائل

جیلوں میں سزائے موت کے منتظر لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت نہ اُن کو معاف کررہی ہے اور نہ سزا دے رہی ہے جس کے سبب سیکڑوں لوگوں کی جگہ میں ہزاروں قیدیوں کو رکھا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کروڑوں کی لاگت الگ آرہی ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سزائے موت کا قانون موجود ہے ۔جب کسی مجرم کو سزائے موت سنائی جاتی ہے تو یہ صرف مجرم کے لیے تکلیف دہ عمل نہیں ہوتا بلکہ اسکے قریبی عزیزو اقارب کے لیے بھی ہوتا ہے اور یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک پھانسی کی سزا ہو نہ جائے۔

سزا سے اپنے عزیز کو بچانے کے لیے وہ مہنگے سے مہنگا وکیل کرتے ہیں مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لگتا ہے، پھر  تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ اِس پورے مرحلے میں دو خاندان ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں،  ایک وہ جن کا بندہ قتل ہوگیا اور دوسرا وہ جن کا بند ہ اس قتل کے الزام میں پکڑا گیا ۔ مقدمہ جیسے جیسے طول پکڑتا ہے یہ دونوں خاندان کنگال ہونے لگتے ہیں اور پھر کئی کئی سالوں بعد معلوم چلتا ہے کہ آیا مجرم کو لٹکایا جائے گا،  بری کیا جائے گا یا پھر دیت لے کر چھوڑا دیا جائے گا ۔

دنیا بھر کے قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دیر سے ملنے والا انصاف،  انصاف نہیں ہوتا ۔اسوقت پاکستان کی جیلوں میں سزائے موت کے آٹھ ہزار سے زائد قیدی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں اور انکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔سابقہ پیپلز پارٹی کے دور میں یہ ’’سنہری ‘‘ روایت شروع ہوئی کہ سزائے موت کے قیدیوں کو نہ تو سزائے موت دی جائے گی اور نہ انکے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا ۔کہ انکو اگر سزائے موت نہیں دی جائے گی تو پھر انکا کیا کیا جائے گا ؟ انکو جیل میں رکھا جائے گا تو کتنی دیر رکھا جائے گا ؟ چھوڑا جائے گا تو کس قانون کے تحت اور کتنی قید کاٹنے کے بعد چھوڑا جائے گا ؟موجودہ حکومت نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور حکومت فی الحال بالکل اس مسئلے پر سوچنے کے موڈ میں نہیں ہے کہ اسکے کیا خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں ۔

اسوقت جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کے صرف کھانے پر حکومت کا ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ آٹھ ہزار روپے سالانہ اخراجات کا سامنا ہے اور جیلوں میں ان قیدیوں کی کیا حالت ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کے لیے سو ڈیٹھ سیل ہیں جن میں سے چوبیس سیل جیل کے اندر جرائم کرنے والوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور بقیہ 76سیلوں میں فی سیل آٹھ دس قیدی ٹھونسے ہوئے ہیں اور سزائے موت کے قیدیوں میں سے بیشتر ایسے ہیں جو اپنی قسمت کے فیصلے کے انتظار میں 25سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں ۔اس سے پہلے کہ میں اس ساری تباہ کن اور لرزہ خیز صورت حال کو درست کرنے کے لیے کچھ تجاویز دوں میں حکومت وقت سے نہایت ادب واحترام سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ۔جناب وزیراعظم صاحب ہمارا عدالتی نظام 1860 کا بنا ہوا ہے یہ نظام2014 کے مسائل حل کرنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ اِس لیے  براہ کرم یا تو اسے درست کیا جائے یا پھر عدالتوں کو بند کردیا جائے کیونکہ جب عدالتوں سے انصاف ہی نہیں ملنا تو انکا فائدہ کیا ہے ؟

سزائے موت کے وہ قیدی جو بم دھماکوں میں ملوث ہیں اور ان پر جرم ثابت ہوچکا ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انکو چھوڑنا کسی صورت معاشرے کے لیے بہتر نہیں ہے تو انکے ڈیٹھ وارنٹ جاری کرکے حکومتی رٹ کا ثبوت دیا جائے اور سزائے موت کے وہ قیدی جو آپس کے جھگڑوں میں سزائے موت حاصل کرچکے ہیں انکے لیے ایک دو ماہ کی تاریخ مقرر کی جائے جس میں وہ مخالف پارٹی سے صلح کرلیں یا پھر دیت کی رقم دے کر جان کی خلاصی کروالیں اور  جو لوگ دیت کی رقم ادا نہیں کرسکتے انکی طرف سے یہ رقم حکومت ادا کرے اور جو لوگ ان تمام طریقوں کے باوجود سزائے موت سے گلو خلاصی نہ کرواسکیں انکو سزائے موت دے کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے ۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے چونکہ مقدمے بہت زیادہ ہیں اس لیے اِنہیں نمٹانے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ تو جناب جب ایک مقدمے کو پچیس سال تک لٹکایا جائے گا تو پھر تو مقدموں کی تعداد لازمی بڑھے گی۔ اگر قتل کے جرم میں ملوث افراد کو بروقت اُن کے جرم کی سزا دی جانے لگی تو یقینی طور پر جرائم کی شرح میں 50 فیصد کمی آجائے گی کیونکہ جب انصاف نہیں ملتا غیر ریاستی عناصر کو پاوں جمانے کا موقع ملتا ہے۔

اِس لیے حکومت کو اپنی آنکھیں اور کان کھول کر عالمی حالات اور اپنے مسائل کو دیکھنا ہوگا۔  اگر ہم اپنے ملک میں انصاف کا نظام درست کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نہ صرف دہشتگردی سے بچ سکتے ہیں اور ملک میں انصاف کا بول بالا بھی ہوگا ۔ اور شاید اِسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں مگر ظلم کے ساتھ نہیں ۔۔۔لیکن ہم مسلسل ظلم و انصافی کی تعفن زدہ لاش اٹھا ئے ترقی کے انہونے سپنے دیکھنے میں مصروف ہیں ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔