آرٹس کونسل‘ چند تجاویز

رئیس فاطمہ  جمعـء 12 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ اتوار کے کالم کے حوالے سے جو ای میل موصول ہوئی ہیں، ان میں تقریباً سبھی نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کی تباہی کی بنیادی وجہ میرٹ کا قتل عام، سفارشی کلچر کی نشوونما اور آبیاری کے ساتھ ساتھ من پسند لوگوں کو اداروں کا سربراہ بنانا ہے۔ یہ سفارشی سربراہ یا تو اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کرلیتے ہیں جو بظاہر تو ان کی مدد کرتے نظر آتے ہیں، لیکن بہت جلد یہ  لوگ ادارے کے سربراہ کی خامیوں اور نااہلی کی بدولت خود ’’پس پردہ‘‘ اصل طاقت بن جاتے ہیں۔

اس طرح اصل سربراہ ایک طرح سے ان موقع پرست اور مطلبی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے اور جو وہ کہتے ہیں وہی سربراہ کو کرنا پڑتا ہے۔ سربراہ اگر قابل ہو تو اسے ان ’’ہائی جیکروں‘‘ کی مدد کبھی نہ لینی پڑے۔ لیکن کیا کریں عہدہ تو خوشامد سے بھی مل جاتا ہے۔ اگر اور اونچا اڑنے کی ہوس ہو تو اکثر و بیشتر ہاتھ پیر دبانے سے بھی خواہش جلد پوری ہوجاتی ہے۔ یہ موصولہ ای میل بہت کڑوی مگر سچی ہے۔ بہت سے ادبی و علمی اداروں کی کارکردگی پہ سوال اٹھائے گئے ہیں۔ چند سطریں اس طویل ای میل کی حاضر ہیں۔ بھیجنے والے ہیں انجینئر اقبال صدیقی۔

’’آپ نے جس موضوع پہ قلم اٹھایا ہے۔ وہ ہر اس پاکستانی کی آواز ہے، جو سفارشی کلچر کے خلاف ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات پاکستان، اردو ڈکشنری بورڈ، انجمن ترقی اردو، الحمرا آرٹس کونسل اور کراچی آرٹس کونسل جیسے موقر اداروں کی تباہی و بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ آپ ہی نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ ’’یہ ادارے کتاب کلچر کو فروغ دینے اور کتابیں شایع کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کا شکار ہوکر صرف اپنی خدمت کر رہے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کا بجٹ ایم۔ڈی اور چیئرمین کے ٹھنڈے کمروں کی آرائش و زیبائش اور لکڑی کے قیمتی فرش بنوانے پہ صرف ہو رہا ہے۔

کیونکہ جو لوگ ان علمی و ادبی اداروں کے نگران بنے بیٹھے ہیں، انھیں یہ ملازمتیں اور عہدے سیاسی اور سفارشی تعلقات کی بنا پر عطا کیے گئے ہیں۔‘‘ محترمہ! ذرا اس پہ بھی روشنی ڈالیے کہ ہمیشہ یہ آرٹس کونسلیں چند مخصوص خواتین و حضرات ہی کو کیوں مدعو کرتی ہیں؟ پاکستان کے مختلف شہروں سے بلائے گئے ادیب اور شاعر سبھی ہمیشہ کے لیے بک کردیے گئے ہیں۔ اقبال صدیقی صاحب نے کئی چبھتے ہوئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جن پر میں کئی کالم پہلے بھی لکھ چکی ہوں۔

لیکن صورت حال بالکل ویسی ہی ہے کہ پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پرنالہ وہیں گرے گا۔ لہٰذا آج کا کالم ہم بوجوہ کراچی آرٹس کونسل کے نام کر رہے ہیں۔ 2015 کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس بار چار پینل مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ آرٹس کونسل ایک ادبی اور ثقافتی ادارہ ہے۔ اکثر و بیشتر بڑی اچھی موسیقی کی محفلیں منعقد ہوچکی ہیں، لیکن دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کی یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ آرٹس کونسل میں مغرب کے بعد عمومی طور پر صرف ’’آرٹ لورز‘‘ (Art Lovers)ہی رونق افروز ہوتے ہیں۔ جن کے جلوے، بعض اوقات ثقہ اور سنجیدہ ادبا، شعرا، اور فنکاروں کے ذہنوں پہ گراں گزرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسے کالم جن میں کوئی بھی کالم نگار کچھ مشورے دے اور عہدیداروں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلائے ردی کی نذر کردیے جاتے ہیں۔

البتہ الیکشن قریب ہوں تو ہر تنقید کو خوش مزاجی اور فراخدلی سے سنا جاتا ہے اور آیندہ وہ سنگین غلطیاں نہ دہرانے کا عہد بھی کیا جاتا ہے۔ جن کی بدولت بدنامیاں گلے پڑیں اور ووٹ بینک بھی کم ہوا۔ سو اسی لیے سوچا کہ کچھ شکایات اور کچھ تجاویز عہدیداروں کو ضرور دی جائیں۔ صرف آپس میں باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ضروری ہے کہ آرٹس کونسل کے ممبران اپنی بات کھل کر کہیں اور اپنی شکایات کو انتظامیہ اور حکومت کے سامنے لائیں، کیونکہ ممبران صرف ووٹر نہیں ہیں۔ بلکہ آرٹس کونسل ان ہی کے لیے قائم کی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ’’آرٹ لورز ووٹرز‘‘ کا پلڑا بھاری ہے۔

ایک قلم کار، صحافی، ادیب، پروفیسر، گلوکار، موسیقار، رقاص، مجسمہ ساز اور شاعر کی کیا اوقات ہے۔ یہ سب کو صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ ایسے  لوگوں کی ہمتیں اس لیے اتنی بڑھ گئی ہیں کہ سنجیدہ ممبران نے احتجاج کا قانونی حق استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپالیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کی ہمت بڑھ گئی ہے۔ عمومی رائے عامہ کا نچوڑ یہ ہے کہ ادب، فن اور ثقافت کے نام پر اس ادارے کی نیک نامی کو بحال کیا جائے۔ اور وہ لوگ جو بعد از مغرب یہاں جلوہ نما ہوتے /ہوتی ہیں، ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ بحیثیت مجموعی چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔

(1)۔الیکشن میں کامیابی کے بعد ہارنے والے پینل کو مذاق کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس رویے سے ایک منفی تاثر عہدیداران کے لیے ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی دوسرا پینل فراخدلی سے اپنی شکست تسلیم کرے اور ان وجوہات کو ڈھونڈے کہ شکست کے اسباب کیا تھے؟(2)۔قانونی طور پر ایسا فارمولا طے کیا جائے جس میں اول تو آرٹس کونسل کا صدر، کوئی فنکار ادیب یا شاعر ہو۔ اس کا کوئی کام سامنے ہو۔(3)۔صدر، نائب صدر، جنرل سیکریٹری اور دیگر عہدیدار صرف دو بار الیکشن لڑسکتے ہیں۔ یعنی کامیابی کے بعد ایک بار اور وہ کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جس عہدے سے چپک گئے تو چپک گئے۔

کوئی بھی عہدیدار تیسری مرتبہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ آرٹس کونسل کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔(4)۔علمی، ادبی، اردو کانفرنس میں عموماً چند مخصوص چہرے ہی اسٹیج پہ نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جو چند ’’ہستیاں‘‘ ہمیشہ ہر سیشن میں اور ہر دن اسٹیج پہ کسی نہ کسی طور پر جلوہ افروز ہوتی رہی ہیں وہی تمام پروگرام اور معاملات طے کرواتی ہیں۔ کون مقالہ پڑھے گا؟ کون اندرون ملک سے بلایا جائے گا؟ اور کس کا معتبر اور معروف نام حسد کی بنا پر پروگرام میں سے نکلوا دیا جائے گا۔

مہمانوں کی فہرست بھی ان ہی بزعم خود معتبر ہستیاں ہی طے کرتی ہیں۔ اس میں ان کا کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد ضرور پنہاں ہوتا ہے۔ خاص کر ان ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، قلم کاروں کو بلوایا جاتا ہے جو اپنے اپنے شہر اور وطن واپس جاکر اپنے میزبانوں کو جواب میں بلاسکیں اور ان کے تمام اخراجات بھی اٹھا سکیں۔(5)۔بیرون ملک سے آنے والے ادیبوں کو کوئی نہ کوئی ہستی ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتی ہے۔ اسے کہاں جانا ہے اور کن لوگوں سے ملنا ہے۔ یہ ہائی جیکر طے کرتا ہے۔ تاکہ وہ اپنا راستہ بنا سکے اور مہمان کے ساتھ خود بھی مسند صدارت کے آس پاس موجود ہے۔ یہ ایک طریقہ کا Investment ہے۔

جو بعد میں کام آتا ہے اور بے چارہ مہمان واپس جاکر میزبانی کا قرض اتار دیتا ہے۔ (6)۔اسٹیج پر بطور مہمان گرامی کے طور پر ہر نشست میں الگ الگ لوگ ہونے چاہئیں۔کیا اس شہر میں ان چند ہائی جیکروں کے علاوہ کوئی قابل قدر ہستی نہیں جو اسٹیج کو رونق بخشے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔