اس تصور سے نکلیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 12 دسمبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

معروف گلوکار محمد رفیع 1924ء میں دسمبر کے مہینے میں پیدا ہوئے، ان کی وجہ شہرت گلوکاری تھی، لیکن وہ حضرت محمد ﷺ سے بے پناہ عشق رکھتے تھے، جس کا ثبوت ایک اہم واقعہ ہے، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ایک مرتبہ لندن میں کانگریس جماعت کی کانفرنس تھی جس میں گاندھی جی نے گلوکار محمد رفیع کو بھجن گانے کے لیے بلایا، بھجن کے بعد گاندھی جی نے گلوکار محمد رفیع کی بے پناہ تعریف کی اور کہا کہ کچھ چاہیے تو بتائیں۔

گلوکار محمد رفیع نے جواب دیا کہ انھیں کچھ نہیں چاہیے البتہ ایک خواہش ہے اگر آپ پوری کر سکیں، گاندھی جی کے کہنے پر محمد رفیع نے کہا کہ ان کے گائے ہوئے گانوں کی جب آل انڈیا ریڈیو سے اناؤنسمنٹ ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’اب آپ گلوکار رفیع کا فلاں نغمہ سنیے‘، میری خواہش ہے کہ جب بھی میرے کسی گائے ہوئے نغمے کی اناؤنسمنٹ ہو تو میرا پورا نام ’محمد رفیع‘ لیا جائے۔گاندھی جی نے ان کی یہ خواہش پوری کی اور باقاعدہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن جاری کرا دیا کہ آیندہ جب بھی آل انڈیا ریڈیو سے گلوکار محمد رفیع کا کوئی بھی نغمہ نشر ہو تو اناؤنسمنٹ میں پورا نام ’محمد رفیع‘ لیا جائے۔

یہاں میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، اختر حسین رائے پوری اور خالد علیگ کا واقعات کا تذکرہ بھی ضرور کرنا چاہوں گا، فیض احمد فیض کو ان کی خدمات پر سابق سوویت یونین کی جانب سے ایک ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، جب سانحہ بنگلہ دیش پیش آیا اور یہ راز بھی آشکار ہوا کہ اس وطن عزیز کو ٹکڑے کرنے میں جن عالمی طاقتوں کا ہاتھ تھا ان میں سوویت یونین بھی شامل تھا تو فیض احمد فیض نے احتجاجاً اپنے اس اعزاز کو واپس کر دیا۔حبیب جالب کے نام اور کردار سے کون ہے جو واقف نہ ہو؟ یہ بھی ایسے باکردار اور قول و فعل کے پکے کہ بے نظیر کی جانب سے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی پیش کش کو ٹھکرا دیا یہ کہہ کر کہ میرے ملک کے غریب عوام کو تو یہ سہولت حاصل نہیں۔ایک اور نام خالد علیگ کا ہے جن کا ایک مشہور شعر ہے کہ

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

خالد علیگ بھی ایک اصول پرست اور خوددار انسان تھے، قول و فعل ایک جیسا، بیمار ہوئے، کافی بیمار ہوئے، گورنر سندھ چیک لے کر آئے کہ علاج معالجے کے لیے کچھ امداد کر دی جائے، لیکن حکمرانوں سے مدد کو غیرت نے گوارا نہ کیا اور چیک واپس کر دیا۔ایک اور نام اختر رائے پوری کا ہے جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو اپنا مسکن بنایا اور مغربی پاکستان کے گورنر بھی بنے، اختر رائے پوری نے پاکستان میں آنے کے بعد اپنی بھارت میں رہ جانے والی جائیداد کے بدلے کسی قسم کا کلیم داخل نہیں کیا بلکہ اس معاملہ پر ان کا موقف تھا کہ جب بھارت کو اپنی مرضی سے چھوڑا تو پھر کلیم کس بات کا؟ ایک مرتبہ ان کی بیگم کے والد نے پلاٹ گفٹ کرنے کی کوشش کی تو بھی وہ ناراض ہوئے اور کہا کہ جب اس ملک کے تمام عوام کو رہنے کے لیے اپنا ذاتی مکان میسر نہیں تو ہم کیوں ایک سے زائد مکانات رکھیں؟ایک مرتبہ سندھ کے معروف قوم پرست جی ایم سید جو گرفتاری کے ڈر سے روپوش تھے۔

اختر حسین رائے پوری کے پاس رات کے وقت آئے اور کہا کہ وہ ایک اخبار نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر خراب حالات کے سبب اب یہ ممکن نہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ پریس کسی ایماندار اور اہل شخص کو دے دیں اور آپ ہی میرے نزدیک ایسے شخص ہیں۔ جی ایم سید نے راتوں کو کئی چکر لگائے مگر اختر رائے پوری تیار نہ ہوئے حالانکہ وہ خود ایک پریس لگانے کا خواب پورا کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لیے ان کے پاس رقم نہ تھی۔ اختر رائے پوری کا کہنا تھا کہ ان کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ایک مجبور شخص سے کوئی فائدہ اٹھایا جائے۔مذکورہ بالا تمام افراد جن کا راقم نے یہاں تذکرہ کیا، یہ سب کلمہ گو تو ضرور تھے مگر بہت زیادہ مذہبی تشخص نہیں رکھتے تھے۔

نہ ہی اس حوالے سے مشہور تھے۔ اختر رائے پوری کے گھر میں تو نماز بھی نہیں پڑھی جاتی تھی۔آج مسلمانوں کی رہنمائی کے دعوے کرنے والوں، تحریکیں چلانے والوں اور طرح طرح کے ناموں سے انجمنیں وغیرہ بنانے والوں کا طرز زندگی، اسلوب گفتگو، قول و فعل کے معاملات، لباس، معاشرت، لین دین کے طریقے، اخلاقیات، انسانیت سے سلوک، طرز محفل، محفل کے آداب، دین سے بے غرض محبت ہمارے اسلاف سے بہت مختلف نظرآتا ہے، ان سب کا مجموعہ کہیں دیکھنے کو مشکل ہی ملتا ہے، الغرض مسلمانوں کی رہنمائی اور انقلاب کے دعوے کرنے والے مذکورہ بالا خوبیوں کے حامل ہمارے اسلاف کے Resemble نظر نہیں آتے اور اگر نظر آتے ہیں تو مسلکی اختلافات کے فرق پر عمل کرتے ہوئے۔

آج بہت کم تعداد میں ایسے افراد ہیں جو رہنمائی کا دعویٰ بھی کریں اور سراپا شعائر اسلامی کا مظہر بھی ہوں۔راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اسلام کے Representative اور Resemble کے فرق کے حوالے سے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والوں کی کوتاہیوں کا ذکر کیا تھا جس کو پسند بھی کیا گیا مگر ایک قاری کا اصرار تھا کہ جناب دور حاضر کی ضرورت کے تحت ’کچھ چیزیں چلتی ہیں اس کا برا نہیں ماننا چاہیے‘۔ گزارش ہے کہ راقم نے یہاں جن شخصیات کا ذکر کیا ہے ان کے دور میں بھی ’کچھ چیزیں چلتی تھیں‘ خاص کر روپیہ پیسہ تو ہر دور میں ہر ایک کی ضرورت رہا ہے اور انعامات و ایوارڈ بھی، یہ سب لوگ جن کا یہاں تذکرہ ہوا ہے۔

جدید معاشیات کے بانی آدم اسمتھ کے اس تصور کے بعد کی پیداوار ہیں جس کے مطابق ’ورچو مین‘ (virtue man) ہی معیشت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، حقیقی ’ورچومین‘ دولت ہے، اعلیٰ و ارفع انسان نہیں۔ لہٰذا یہ افراد بھی چاہتے تو آدم اسمتھ کے تصور کو اپناتے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ راقم کی یہاں یہی گزارش ہے کہ آیئے ہم سب بھی آدم اسمتھ کے اس تصور ورچومین سے باہر نکلیں، خاص کر جن کا دعویٰ مسلمانوں کی رہنمائی کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔