مسائل کو بھو کا رکھو !

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 13 دسمبر 2014

ہم بڑے ہی دلچسپ واقع ہوئے ہیں ہروقت کسی نہ کسی کو رو رہے ہوتے ہیں اور جب سب کو کوس چکے ہوتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم نے کبھی یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم اس حالت پر پہنچے کیسے اور اب اس سے باہر نکلیں گے کیسے۔ ٹیگور نے کہا تھا فکر فکر کودورکرتی ہے لیکن ہم اس قدر بے فکر واقع ہوئے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔شاعر جان کیٹس نے اپنے بھائیوں کو ایک خط لکھا جس میں اس نے تخلیق کاری سے متعلق اپنے تازہ ترین خیالات کا اظہار کیا۔

اس نے لکھا کہ ہمارے اردگردکی دنیا ہمارے تصورسے کہیں زیادہ پیچید ہ اورگنجلک ہے اپنے محدود شعور کی وجہ سے ہم حقیقت کی ایک جزوی سی جھلک ہی دیکھ سکتے ہیں ۔سادہ الفا ظ اور خیالات اس پیچیدگی کا احاطہ ہیں کرسکتے، ایک روشن خیال انسان کے لیے اس کا واحد حل یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں آنے والی ہر بات اور خیال پرکوئی فیصلہ صادرکیے بغیر ذہن کو قبول کرنے کا موقع دے۔

اس حالت میں جب ہمارا ذہن اس کائنات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرے گا تو حقیقی اور متنوع خیالات جنم لیں گے جب کہ عجلت میں نتائج اخذ کرنے یا فیصلہ صادر کرنے سے ایسا ممکن نہیں ۔ اس نے لکھا کہ ایسا تب ہی ممکن ہے اگر ہم اپنی انا اور تعصب کی نفی کر نے کی صلاحیت رکھتے ہوں ہم فطرتاً ایک خوفزدہ اور غیر محفوظ مخلوق ہیں ہم نامعلوم اور نامانوس باتوں سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے ازالے کے طور پر ہم ایسے آئیڈیاز اور آرا کوقبول کرتے ہیں جن سے ہمیں یقین اور طاقت مل سکے ان میں سے بہت سی باتیں ہماری اپنی فکر و دانش کے بجائے دوسرے لوگوں کی سوچ پر مبنی ہوتی ہیں اور جب ہم ایک مرتبہ ان خیالات کو درست مان کر قبول کرلیتے ہیں تو پھر ان کو غلط کہنے سے ہماری انا مجرو ح ہوتی ہے۔

چارلس ڈیگال نے کہا تھا ’’ کامیابیاں عظیم لوگوں کے بغیر ناممکن ہیں اور عظیم لوگ وہ ہیں جو عظیم بننے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ‘‘ اگر آپ متواتر اس کوشش میں ہیں کہ کوئی مثبت تبدیلی لائیں لیکن پھر بھی آپ ایسا نہیں کرپا رہے ہیں تو اس بات کے امکانات بہت شدید ہیں کہ آپ جانتے ہی نہیں ہیں کہ آپ کون ہیں آپ جان لیں آپ کو اپنی شناخت کی نشوونما کرنی ہوگی اسے بدلنا ہوگا شناخت کا بحران اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اپنے آپ پر شک کرنے لگتے ہیں اور ایسے عمل کرتے چلے جاتے ہیں انھیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں ۔

امریکا کی ترقی کا راز ایک سادہ سے لفظ میں چھپا ہواہے وہ لفظ ریسر چ (تحقیق ) ہے وہاں ہر چیز پر ریسرچ ہوتی ہے وہاں بہت سے لوگوں نے اس بات پر بھی ریسرچ کی ہے کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہے اور ناکامی کو کس طرح دوبارہ کامیابی میں تبدیل کیاجاسکتاہے ۔

ریسر چ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی آدمی ہمیشہ کے لیے ناکامی سے محفوظ زندگی حاصل کر سکے۔ یہاں بہر حال آدمی کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اکثر کامیاب انسانوں کی کامیابی کی کہانی میں ملتا ہے کہ جب وہ ناکام ہوئے تو انھوں نے اپنی ناکامی کو آخری لفظ نہیں سمجھا اور اس ریسرچ کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کو سوچنے کا آرٹ بتایا جائے کیوں کہ غلط سوچ آدمی کو ناکامی کی طرف لے جاتی ہے اور صحیح سوچ کامیابی کی طرف ۔

امریکا کے ایک شخص نے 1831 میں تجارت کی اس میں وہ ناکام ہوگیا،1832 میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی، 1834 میں اس نے دوبارہ تجارت کی اس بار بھی وہ اپنی تجارت کو چلانے میں ناکام رہا 1841میں اس کے اعصاب جواب دے گئے 1843میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگریس کی ممبری کے لیے نامزد کر دے گی مگر آخر وقت تک اس کی امید پوری نہ ہوسکی اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کو فہرست میں نہیں آیا۔

1855میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینیٹ کے لیے کھڑا ہوا مگر وہ الیکشن ہارگیا۔ 1858 میں دوبارہ سینیٹ کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور شکست کھائی یہ باربار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن تھا جو 1860 میں امریکا کا صدر منتخب ہوا اس نے امریکا کی تعمیر میں اتنا بڑا کام کیا کہ آج وہ نئے امریکا کا معمار سمجھا جاتا ہے ابراہام لنکن کو امریکا کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیاجائے ہار ماننے کے بعد آدمی فوراً اس حیثیت میں ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر دے کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں ۔

انگریزی کی ایک مثل ہے مسائل کو بھوکا رکھو ،مواقعے کو کھلاؤ ، آدمی ہمیشہ دو قسم کی چیزوں کے درمیان رہتا ہے ایک مسائل اور دوسرے مواقعے جو شخص صرف اپنے مسائل کو دیکھے گا اور اس میں الجھا رہے گا تو وہ اپنے مواقعے کو کھو دے گا اس کے برعکس جو شخص مواقعے کو دیکھے گا اور ان کو بھرپور استعمال کرے گا وہ کبھی مسائل پر زیادہ توجہ نہیں دے گا ۔ اس لیے ہمیشہ مسائل کو بھوکا رکھو اور مواقعے کو کھلاؤ ۔ اگر آپ زندگی کی جنگ جیتنا چاہتے ہو تو۔ ہم زندگی کی جنگ میں ہار ے ہی صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے مواقعے کو بھوکا رکھا اور مسائل کو کھلاتے رہے اور دوسر ی اہم وجہ یہ رہی ہے کہ ہمیں سوچنے کا آرٹ ہی نہیں آتا اور تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم کون ہیں اورکیا چاہتے ہیں ہمیں ہمیشہ شناخت کا بحران لاحق رہا ہے۔

ہم ہمیشہ ہی سے سن کر ایمان لے آتے ہیں اور اپنی فکر و دانش کے بجائے دوسروں کی سوچ کے مطابق سوچنا شروع کردیتے ہیں ہم نے کبھی تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور اپنے مسائل کو سائنسی انداز میں دیکھنے سے قاصر رہے۔ ظاہر ہے جب آپ اپنے مسائل کا تجزیہ ہی نہیں کریں گے تو آپ ان کا حل کیسے ڈھونڈ پائیں گے اس لیے ہمارے مواقعے ہمیشہ بھوکے رہے اور ہم اسی لیے بھیڑ میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ جن کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ ہی وہ منزل کی طرف جانے والے راستے کے مسافر ہیں اس لیے جس کی جب بھی مرضی ہوتی ہے ہماری پیٹھ پر سوار ہو کر اپنا سفر شروع کردیتا ہے اور ہم چپ چاپ اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں جب تک ہم اپنے آپ پر ریسرچ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اس دوزخ سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔

یاد رہے یہ دوزخ ہمیں اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں نصیب ہوئی ہے بلکہ یہ دوزخ ہمیں اپنے آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے مسلط کی گئی ہے۔ سقراط بار بار کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو پاکستان کے 18کروڑ جیتے جاگتے انسانوں جاگو اپنے آپ کو پہچانو تم ہی وہ واحد شخص ہو جو اپنی دنیا کو بدل سکتے ہو جو اپنی دوزخ کو جنت بنا سکتے ہو، یہ کام صرف تم ہی کرسکتے ہو کوئی دوسرا نہیں ۔ جان کیٹس کے بقول اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھو نہ کہ دوسرے کی نگاہ سے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔