(آو پڑھاو) ۔۔۔۔ اساتذہ، اُستاد بھی سایہ شفقت بھی!

نئیر آفاق  اتوار 14 دسمبر 2014
ہم جب سکول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں ٹھیک سے حروف تہجی آتے ہیں اور نہ گنتی، ہم تو اپنا نام تک بھی نہیں لکھ سکتے۔ فوٹو: فائل

ہم جب سکول میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں ٹھیک سے حروف تہجی آتے ہیں اور نہ گنتی، ہم تو اپنا نام تک بھی نہیں لکھ سکتے۔ فوٹو: فائل

آج اپنی پرانی ڈائریاں دیکھتے ہوئے میری نظر فروری ۲۰۰۰ء کے ایک روزنامچے پر پڑی اور میں ماضی کے دھندلکوں میں کھو سا گیا۔
’’کل شام کو ذرا وقت نکال کر اکیڈمی کا چکر لگانا، مجھے تمہارے ذمے ایک کام لگانا ہے‘‘، یہ بظاہر عام سے الفاظ ہیں مگر پندرہ برس پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ انہوں نے غیر محسوس طریقے سے میری زندگی سنوار دی۔ 

میں ان دنوں مکمل فارغ تھا اور میرے محترم استاد مرحوم سکندر حیات صاحب نے مجھے اگلے روز شام کو اپنی اکیڈمی میں آنے کا کہا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بغیر کسی تمہید کے براہ راست مجھے ایف ایس سی کے طلباء کے سامنے بٹھا کر میرا تعارف ایک ایسے ٹیچر کے طور پرکرادیں گے کہ جو ان کے تمام مضامین میں مدد دے گا۔

یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ میرا اس وقت کچھ ایسا ہی حال تھا کہ جیسے تیرنا بھی نہیں آتا اور نہ صرف خود کو ڈوبنے سے بچانا ہے بلکہ اپنے ساتھ اور بہت سوں کو بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے لہجے سے بے اعتمادی جھلکتی تھی، میں اپنے مخاطب کی آنکھوں میں دیکھنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتا تھا ، سختی یا دانٹ ڈپٹ میرے مزاج کے خلاف تھی،میں ایک کمزور شخصیت رکھتا تھااور یہ بھی کہ طلباء اور میری عمر میں بس واجبی سا ہی فرق تھا۔ الغرض میں اپنی دانست میں اس ذمہ داری کا اہل نہیں تھا مگر سکندر صاحب مصر تھے کہ کچھ ماہ بعد ہونے والے امتحانات سے پہلے طلباء کو جس رہنمائی کی ضرورت ہے، اس کے لئے مجھے اپنی خدمات دینا ہی ہوں گی۔

میں اس شام وہاں سے الٹے پاؤں واپس بھاگ آنا چاہتا تھا مگر کسے خبر تھی کہ مجھے وہاں قریباََ پانچ برس تک پڑھانا پڑے گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مختلف ذہنی استعداد کے حامل طلباء کو ایک ساتھ پڑھانا،اپنا آرام ترک کر کے گھر میں لیکچرز تیار کرنا، بھاری بھرکم نصاب کو بروقت ختم کرانا، درس گاہ کے محدود وسائل میں امتحانات کی تیاری کرانا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو انسان کو پورا برس مصروف رکھتے ہیں۔ مگر اس سب نے مجھے ایک بھرپور طمانیت کا احساس بھی دلایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں اکیڈمی چھوڑ کر جا رہا تھا تو میرے وجود میں اعتماد ، لہجے میں ٹھہراؤ اور شخصیت میں وقار آچکا تھا۔ اکیڈمی میں اپنا آخری لیکچر ختم کرنے کے بعد کلاس روم سے باہر قدم رکھتے ہوئے صرف میرا دل ہی بھاری اور افسردہ نہیں تھا بلکہ میرے طلباء بھی رنجیدہ دکھائی دے رہے تھے۔ بظاہر کھلکھلاتے ہوئے، روشن چہروں کے حامل طلباء میں سے کتنے ہی تھے جو اپنی گھریلو یا معاشی الجھنوں کی بنا پر بہت مشکل سے تعلیم جاری رکھ پا رہے تھے۔ میرے دوستانہ رویے کی وجہ سے چند ایک نے جب مجھے اپنی ذاتی پریشانیاں بیان کیں ، تب مجھے احساس ہوا کہ ایک استاد اپنے طلباء کے لئے کسی سائبان سے کم نہیں۔ اگر وہ شفقت سے اپنے طلباء کی پریشانی سنے، ان کا کندھا تھپتھپا کر انہیں حوصلہ دے تو پریشانی کے اندھیرے میں انہیں امید کی کرن مل سکتی ہے۔ایک استاد کا ہمدردی سے اپنے طلباء کے مسائل سننا، نرم لہجے میں بات کرنا اور حوصلہ افزائی کا ایک جملہ کہہ دینا ان کی زندگی کو کسی معجزے کی طرح بدل کر انہیں مصائب سے لڑنے کی ہمت دے سکتا ہے۔ مجھے تسلیم کرنا ہو گا کہ اس تجربے سے پہلے مجھے اساتذہ کے مرتبے اور اہمیت کا درست اندازہ نہیں تھا ،مگر اب میں بخوبی جان گیا تھا کہ ساتذہ کو روحانی والدین کیوں کہا جاتا ہے۔ان کی ذمہ داری محض نصاب مکمل کرنا ہی نہیں بلکہ طلباء کی تربیت اور شخصیت میں موجود خلاء کو پر کرنا، انہیں آگے بڑھتے رہنے کی لگن دینا اور خود کو ایک ایسے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہے جو کٹھن وقت میں طلباء کے لئے ایک راہ نما کا کام سر انجام دے۔

یہ صرف میری یا کسی ایک فرد کی آب بیتی نہیں ہے بلکہ یہ اس قیمتی تسلسل کا نام ہے جو تب سے جاری ہے جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور علم حاصل کرنا سیکھا ہے۔ ہم سب جب سکول یا مدرسہ میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں ٹھیک سے حروف تہجی آتے ہیں اور نہ گنتی ، ہم تو اپنا نام تک بھی نہیں لکھ سکتے۔ ہم اس سے مکمل بے خبر ہوتے ہیں کہ عملی زندگی کیا ہے، اس میں کس قدر مشکلات اور آزمائشیں ہماری منتظر ہیں اور یہ کہ زندگی بسر کرنے اور اپنی ذاتی شخصیت کی نمود کے لئے تعلیم کس قدر اہم ہے۔ یہ اساتذہ کرام ہی ہیں جو ہمیں اپنے سایہ ء تربیت میں لے کر اپنا علم ہم تک منتقل کرتے ہیں ۔ اساتذہ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم ایک متوازن شخصیت میں ڈھل کر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی فنون لطیفہ میں اپنا نام بناتا ہے، کوئی علم و تحقیق کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے اور کوئی سائنس یا طب کی دنیا میں سب کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔اگر آپ اس سارے سلسلے سے اساتذہ کو نکال دیں توآگے بڑھنے کا یہ سارا عمل زمیں بوس ہو جائے گااور میں اور آپ محض ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب سے کامیاب انسان سے پوچھئے کہ کیا وہ بغیر اساتذہ یا کسی راہ نمائی کے اس مقام اور رتبے کا اہل ہو سکتاتھا تو یقیناًاس کا جوان نفی میں ہی ہوگا۔

مائیکل اینجلو ، جو سولہویں صدی میں ایک مشہورمجسمہ ساز گزرا ہے، نے ایک بار کہا تھا کہ پتھر کے ہر بلاک میں قدرت نے ایک مورتی چھپا رکھی ہے اور ایک مجسمہ سازسنگ تراشی کے ہنر کے ذریعے اس مورتی کو دریافت کرتا ہے۔ ایک استاد بھی کسی مجسمہ ساز جیسا ہی ہوتا ہے جو اپنے طلباء کی شخصیت کو تراشتا اور نکھارتا ہے ،چاہے اس عمل میں اس کے اپنے ہاتھ ہی کیوں نہ زخمی ہوجائیں۔ اس کی سختی بھی گویا مجسمہ ساز کی ہتھوڑی کی ضرب جیسی ہی ہوتی ہے جو وقتی طور پر تو تکلیف دیتی ہے مگر آپ کا روپ سنوارنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔

ممکن ہے کہ ابھی آپ کو ان کی قدر و قیمت کا درست اندازہ نہ ہو مگر یقین جانئے کہ ان کا وجودزندگی کی تپتی دھوپ میں کسی چھاؤں سے کم نہیں ۔ اساتذہ کرام ایک انمول نعمت ہیں۔ میری آپ سب سے یہ استدعا ہے کہ اپنے اساتذہ کی ویسی ہی قدر کیجئے جیسے آپ اپنے والدین کی کرتے ہیں۔

یہ بلاگ ’علم آئیڈیاز‘ کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔

تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے،  فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔

 



ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔