توشۂ خاص؛ منفرد نگریاں کتابوں کی

سید بابر علی  اتوار 14 دسمبر 2014
کتابوں کا نائٹ کلب اور دنیا کے کچھ انوکھے کتب خانے ۔  فوٹو : فائل

کتابوں کا نائٹ کلب اور دنیا کے کچھ انوکھے کتب خانے ۔ فوٹو : فائل

کتاب کو انسان کا بہترین دوست قرار دیا جاتا ہے، تاہم ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے جہاں ہم سے بہت سے روایتی کھیل چھین لیے ہیں، وہیں ہم دانستہ اور نادانستہ طور پر اپنے اس بے لوث دوست سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلیں کتاب اور کتاب گھر کے مطلب سے بے بہرہ ہوں گی۔

ہوسکتا ہے کہ اُن کے لیے کتاب ایک ایسی غیرمرئی شے ہو جو ماضی میں پائی جاتی تھی۔ آئی پیڈ، ٹیبلیٹ، اسمارٹ فون، اور اس جیسے دوسرے آلات نے کتاب کو برقیات میں تبدیل کر کے ’ای بک ‘ کا روپ دے دیا ہے۔ ان تمام عوامل کے باوجود اب بھی دنیا کے کچھ بک اسٹور ز ایسے ہیں جو اپنے طرز تعمیر اور سہولیات کی بدولت اپنے یہاں آنے والے افراد کو مطالعے کی جانب راغب کر رہے ہیں۔ ایسے ہی بک اسٹورز میں سے ایک اسٹور تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں قائم ہے۔

Eslite نامی اس بک اسٹور کو مقامی لوگ کتابوں کے نائٹ کلب کا نام دیتے ہیں۔ یہاں رات کو آنے والے افراد کی تعداد دن کے اوقات میں آنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ رات ڈھلتے ہی نوجوان اس کتاب گھر کا رخ کرتے ہیں اور سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی اپنے سینے کو مطالعے کی روشنی سے منور کرکے گھروں کی جانب گام زن ہوجاتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد بک اسٹور پر کچھ نوجوان زمین پر کتابوں کی الماریوں سے ٹیک لگائے گہرے مطالعے میں مستغرق نظر آتے ہیں تو ادھیڑ عمر افراد میز کے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھے ادب کی عمیق گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔

مشہور ادیب Joan G. Robinson کی مشہور کتاب ’’وہین مارنی واز دیئر ‘‘ کے مطالعے میں منہمک استانی Wan Hsuan Chang کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’ تائیوان میں لوگ رات میں اپنے کئی کام سر انجام دیتے ہیں، آپ رات میں خریداری کے لیے سپر مارکیٹ جا سکتے ہیں، پسندیدہ ریستوراں میں کھانا کھا سکتے ہیں، یا پھر کسی نائٹ کلب میں شب بسر کرسکتے ہیں، اسی طرح میں یہاں کتابیں پڑھنے آتی ہوں۔‘‘

Eslite Groupکے اس پانچ منزلہ بک اسٹور کی پہلی برانچ 1989میں تائی پے میں قائم کی گئی تھی۔ اور آج 25 سال کے عرصے میں یہ کمپنی تائیوان میں 42، ہانگ کانگ میں ایک اسٹور کھول چکی ہے اور مستقبل میں اس کا ارادہ چین تک اپنے کاروبار کو پھیلانے کا ہے۔ کتابوں کی تجارت کرنے والی اس کمپنی کے کاروبار نے اس وقت ترقی حاصل کی ہے جب امریکا اور یورپ کے کتاب گھر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور ان میں سے کچھ ’امیزون ‘ جیسے آن لائن حریفوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مسابقت کی جنگ ہار کر بند ہوچکے ہیں۔ بک سیلرز ایسو سی ایشن برطانیہ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں صرف برطانیہ میں ہی ایک تہائی خود مختار بک اسٹورز بند ہوچکے ہیں۔ جب کہ امریکا کا آخری بڑا بک اسٹور’’Barnes & Noble‘‘ اپنے کئی اسٹورز بند کر چکا ہے اور اس کی انتظامیہ اپنے ڈیجیٹل حریفوں کے ساتھ مسابقت کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔

Esliteنے کتاب کے کلچر اور اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اپنے اسٹورز میں دیدہ زیب ڈیزائن، چھوٹے کیفے، فیشن کے ساتھ ریستوران جیسے نئے رجحانات متعارف کروائے ہیں۔ Esliteکے ترجمان ٹموتھی وانگ کا کہنا ہے کہ ہمارے متعارف کرائے گئے رجحانات کی بدولت کمپنی کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ اور گذشتہ مالی سال ہماری مجموعی آمدنی تقریباً 425ملین ڈالر تھی جس میں 40 فی صد رقم کتابوں کی فروخت سے حاصل ہوئی۔ اور رواں برس اس میں تقریباً 8 فی صد اضافہ متوقع ہے۔ وانگ کا کہنا ہے کہ فیشن اور ادب کے حسین امتزاج نے ہمارے اسٹور میں کتاب پڑھنے کے شوقین افراد کے ساتھ ساتھ فیشن کے دل دادہ لوگوں کو بھی کتب بینی پر مائل کردیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم اپنے ڈیجیٹل حریفوں کا بھی ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔

کتابوں کا یہ نائٹ کلب ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے کُھلا رہتا ہے۔ اس پانچ منزلہ عمارت کی ہر منزل کو فیشن، موسیقی، فوڈ یا ایونٹس جیسے مختلف درجوں میں رکھا گیا ہے، جب کہ سب سے اوپری منزل صرف کتابوں کے لیے مختص ہے۔ چیا ہسیانگ اور ہوانگ یو ہان گہرے دوست اور اس کتاب گھر کے مستقل گاہک ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہم گرم چاکلیٹ اور کافی کی ایک چُسکی سے لے کر اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے کے لیے بھی اسی ُبک اسٹور کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں کُتب بینی کے لیے تو کچھ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے کے لیے آتے ہیں۔ یہ جدید ثقافت کا ایک ایسا مرکز ہے جہاں بہترین نائٹ کلب اور جدید ترین لائبریری کی خصوصیات کو یکجا کردیا گیا ہے۔

ٹموتھی کا کہنا ہے کہ ہمارا اسٹور اس خوب صورت شہر کی سیاحت کرنے والے غیرملکی افراد کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ اور تائیوان آنے والے ہر چار سیاحوں میں سے ایک Esliteکا دورہ کرتا ہے، جن میں زیادہ تر کا تعلق چین سے ہوتا ہے، کیوں کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی سخت سینسر شپ پالیسی کی وجہ سے وہاں بہت سے ادیبوں اور اُن کی تصانیف پر پابندی عاید ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سال کے آغاز میں کمپنی نے تبت اور انسانی حقوق کے مسائل جیسے حساس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی فروخت پر پابندی عاید کردی تھی، جس کا مقصد چینی حکام کے دل میں کمپنی کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا تھا، کیوں کہ Eslite شنگھائی اور سوزہو میں اپنے اسٹورز کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم کمپنی نے ان تمام باتوں کی تردید جاری کردی تھی۔

ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ کمپنی اپنے چوبیس گھنٹوں کے ماڈل کو تائیوان سے کھلنے والے اسٹورز پر بھی نافذ کرے گی یا نہیں، کیوں کہ کہ ہانگ کانگ میں چوبیس گھنٹے کے لیے کھولے گئے اسٹور کا ٹائم ٹیبل ایک ماہ کے آزمائشی عرصے کے بعد تبدیل کر دیا گیا تھا اور اب یہ عام دنوں میں رات 11بجے تک اور چھٹیوں کے دنوں میں آدھی رات تک کھُلا رہتا ہے۔ ٹموتھی وانگ کا دعویٰ ہے کہ ہمارے کاروبار کی ترقی کا راز دوستانہ ماحول ہے۔

ہم اپنے اسٹور پر آنے والی ہر کتاب کی طرح وزیٹرز کا بھی خوش دلی سے استقبال کرتے ہیں۔ Esliteپر کتب بینی میں مصروف تیس سالہ پولیس افسر ٹام چین کا کہنا ہے کہ مجھے اس جگہ سے محبت ہے اور میں ہر ویک اینڈ پر یہاں آتا ہوں، کیوں کہ شراب پینا بہت منہگا شوق اور اس اسٹور پر کتب بینی بالکل مفت ہے۔برطانوی بُک سیلرز ایسو سی ایشن کے مطابق معاشی بدحالی اور بڑھتے ہوئے اخراجات نے برطانیہ میں کتابوں کی اشاعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے برعکس دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ بک اسٹورز ایسے بھی ہیں جو نہ صرف کتابوں کے شوقین افراد کو ایک وسیع رینج فراہم کرتے ہیں تو دوسری جانب ہر سال لاکھوں سیا ح ان کتاب گھروں کا دورہ کرنا اپنی سیاحت کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ دنیا کے کچھ بڑے کتاب گھروں کا احوال درج ذیل ہے۔

دنیا کے بہترین کتاب فروش (بُک اسٹورز)
٭شیکسپیئر اینڈ کمپنی ( پیرس)
فیشن اور خوش بو کی سرزمین پیرس میں ’ شیکسپیئر اینڈ کمپنی ‘ کے نام سے یہ اسٹور جارج وائٹ مین نے قائم کیا تھا۔ پیرس کے ایفل ٹاور اور دیگر خوب صورت مقامات کی طرح ’شیکپیئر اینڈ کمپنی ‘ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس اسٹور میں ہالی وڈ کی دو مشہور فلموں’بی فور سن سیٹ‘ اور ’مڈنائٹ ان پیرس‘ کی عکس بندی بھی ہوچکی ہے۔ نئی اور پرانی کتابوں کی خریدوفروخت کے ساتھ یہ اسٹور انگریزی ادب کے دل داہ افراد کے لیے لائبریری کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔

٭ El Ateneo ( بیونس آئرس، ارجنٹینا)
2000میں سنیما گھر کی ایک تاریخی عمارت نے مطالعے کے شوقین ارجٹینی عوام کے لیے ایک عظیم الشان کتاب گھر کی شکل میں جنم لیا۔ ادب اور قدیم فن تعمیر کا خوب صورت امتزاج یہاں آنے والے ہر شخص کو اپنی خوب صورتی سے مسحور کر دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ El Ateneo کا شمار دنیا کے دوسرے سب سے خوب صورت بک اسٹور میں کیا جاتا ہے۔ یہ حسین بک اسٹور اپنے قیام سے اب تک 7لاکھ سے زاید کتابیں فروخت کر چکا ہے اور ہرسال دنیا بھر سے تقریباً دس لاکھ افراداس کتاب گھر کا دورہ کرتے ہیں۔ تھیٹر کے ارغوانی پردے، چھت پر نفاست سے کی گئی کندہ کاری اورمنفرد فن تعمیر نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب سے محبت پیدا کردیتی ہے۔ اس عمارت کے اندرونی حصے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور تھیٹر کی گیلریوں میں کتابوں کو بڑی نفاست سے سجایا گیا ہے۔

٭Libraries avant garde( نان جنگ، چین)
چین کے اس سب سے خوب صورت کتاب گھر کو ایک ایسی جگہ قائم کیا گیا ہے جو کسی زمانے میں گولہ بارود رکھنے میں استعمال کی جاتی تھی۔4ہزار اسکوائر میٹر رقبے پر محیط اس بک اسٹورز میں ہزاروں کی تعداد میں پرانی کتابیں موجود ہیں، جب کہ 300افراد کے بیٹھنے کے لیے ایک آرام دہ لائبریری بھی بنائی گئی ہے۔ یہ بک اسٹور نہ صرف سیاحوں کی دل چسپی کا محور ہے، بل کہ اسے نان جنگ یونیورسٹی کی دوسری لائبریری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے Librairie Avant-Garde کے مالک زیان زیاؤ ہوا کا کہنا ہے کہ ’’ایک بہترین بک اسٹور میں انسانی فطرت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کسی بھی انسان کو مطالعے کی جانب راغب کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے بک اسٹور کو اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ یہاں آنے والا ہر فرد نہ چاہتے ہوئے بھی مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔‘‘

٭Assouline Venezia (وینس، اٹلی)
اٹلی کے شہر روم میں اٹھارہویں صدی کی تاریخی عمارت میں قائم کیا گیا یہ اسٹور ہاتھ سے لکھی گئی منہگی کتابوں کی فروخت کے حوالے سے بھی مشہور ہے اور ہر سال وینس آنے والے سیاح اس کتاب گھر کا دورہ اور تحفے میں دینے کے لیے کتب کی خریداری اسی اسٹور سے کرتے ہیں۔

٭Livraria Lello (پرتگال)
اٹھارہویں صدی کے اس حسین ترین پبلشنگ ہاؤس کو 1906میں آرکٹیکچر انجینئر زیویئر اسٹیوز نے فن تعمیرات کا نمونہ بنادیا۔ ایک صدی بعد بھیLivraria Lello شمار دنیا کے سب سے خوب صورت کتاب گھروں میں ہوتا ہے۔ قرون وسطی دور کی تعمیرات اور جدید دور کے شیشے اور لکڑی کے کام نے اس عمارت کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیے ہیں۔ یہ کتاب گھر پرتگال کے سب کے خوب صورت مقامات میں سے ایک ہے۔

٭Boekhandel Domincanen (نیدر لینڈ)
تیرہویں صدی میں گیارہ سو اسکوائر میٹر رقبے پر تعمیر ہونے والے ڈومینیکن چرچ کی عمارت کو 2006 بک اسٹور میں تبدیل کردیا گیا۔ اس قبل یہ عمارت، چرچ، آرکسٹرا اور بھیڑوں کے مذبح خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی۔ ڈچ، انگریزی اور فرانسیسی، اسپینی اور اطالوی زبانوں میں 40 ہزار کتابوں کا ذخیرہ رکھنے والے اس کتاب گھر کی وجہ شہرت یہاں کی خوش ذائقہ کافی بھی ہے۔ اس اسٹور کے زیراہتمام سالانہ 140 سے زاید ادبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

٭ پوویل سٹی آف بکس ( اوریگن)
امریکی ریاست اوریگن میں واقع اس بک اسٹور کا شمار نئی اور پرانی کتابیں رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑے کتاب گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کثیر المنزلہ اسٹور میں ہر موضوع پر دنیا کی تقریباً ہر زبان میں چھپنے والی کتابیں موجود ہیں۔

٭بک فار کک (میلبورن)
اس ڈیڑھ سو سالہ کتاب گھر کی وجہ شہرت یہاں کھانا پکانے کی تراکیب پر مشتمل کتابیں ہیں۔ اس بک اسٹور پر اٹھارہویں صدی میں کھانے پکانے کی تراکیب پر لکھی گئی کتابوں کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ اس بک اسٹور کے مالک ٹم وائٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس 40 ہزار سے زاید کک بک کی کیٹلاگ موجود ہے اور ان میں سے ہر کتاب کی کم از کم 30 ہزار کاپیاں ہمارے اسٹاک میں ہیں۔

٭اسٹرینڈ (نیویارک)
اسٹرینڈ امریکا کے قدیم کتاب گھروں میں سے ایک ہے۔ اس اسٹور میں نئی، پرانی اور نادر کتابوں کی تعداد 25 لاکھ سے زاید ہے۔ یہاں آئرش ناول نگار James Joyce کی متنازعہ کتاب Ulysses بھی موجود ہے، جس کی قیمت 45 ہزار ڈالر ہے۔ اس بک اسٹور پر ہمہ وقت نادر کتابوں کے شائق افراد اور سیاحوں کا ہجوم موجود رہتا ہے۔

٭جان کے کنگ (ڈیٹرائٹ، مشی گن)
1965میں کُھلنے والا یہ کتاب گھر سیاحوں کے لیے ایک قابل دید جگہ ہے۔ دس لاکھ سے زائد نئی اور پرانی کتابوں کا ذخیرہ رکھنے والے اس اسٹور میں کچھ نایاب کتابیں بھی موجود ہیں ۔ اسٹور کے مالک جان کے کنگ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ’’بک آف مارمن‘‘ کا پہلا ایڈیشن بھی موجود ہے جس کی قیمت ایک لاکھ ڈالر رکھی گئی ہے، جب کہ 1482میں وینس میں چھپنے والی سینٹ تھوماس ایکیوناس کی تحریروں پر مشتمل کتاب بھی ہمارے ذخیرے میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭پاکستانی نوجوانوں میں کتب بینی کا کم ہوتا شوق
پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتاب پڑھنے کا کلچر پہلے ہی کم تھا اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائل فونز، ٹیبلیٹ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ تھامے نظر آتی ہے ۔ اگرچہ نجی سطح پر کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں ۔ ’’کتاب بہترین دوست ہے‘‘‘ کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کرکے ’ موبائل فون بہترین دوست ‘ میں تبدیل کر دیا ہے، اور وہ نوجوان جو پہلے اپنا وقت کتب بینی میں گزارتے تھے اب وہی وقت جدید آلات اور انٹرنیٹ پر سرفنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔

کتب بینی کے رجحان میں کمی کا ایک اہم سبب ہمارا تعلیمی نظام اور تدریسی نظام کی دن بہ دن گرتی ہوئی صورت حال ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اس سے کی بدولت کتب بینی کی شرح بھی گرگئی ہے۔ نئی نسل میں کتاب پڑھنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے والدین کو بچوں پرخصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جن افراد کو ان کے والدین نے بچپن میں کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی تھی وہ اب تک کتابوں کے رسیا ہیں۔ دوسری طرف جدید ٹیکنالوجی کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ بات کہنا بالکل غلط ہے کہ کتب بینی کے کلچر میں ٹیکنالوجی کی بدولت کمی واقع ہوئی ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہے بس روایتی طور پر چھپی ہوئی کتاب کی جگہ آپ کے ٹیبلیٹ یا موبائل میں موجود ’ای بک‘ نے لے لی ہے۔ اور اب مسابقت کی اس تیز رفتار دوڑ میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ بازار جاکر اپنا قیمتی وقت اور پیسہ اُس کتاب کو خریدنے پر ضائع کرے جو انٹرنیٹ پر اسے برقی شکل میں مفت اور بہ آسانی دست یاب ہے۔ پاکستان میں کتاب کلچر کے رجحان میں کمی کا سبب عوام خصوصاً نوجوانوں میں کتب بینی کے متعلق شعور کا نہ ہونا اور کتابوں کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کتابوں کے جو بازار اور دکانیں خریداروں سے بھری رہتی تھی اب اُن پر اکا دُکا گاہک ہی دکھائی دیتے ہیں۔

کتاب کسی بھی معاشرے کو مہذب، تعلیم یافتہ، تحمل مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور نوجوان نسل میں کتب بینی کی کم ہوتی عادت کے معاشرے پر نہایت غلط اثرات مرتب ہوں گے۔ صدیوں پرانے ختم ہوتے اس کلچر کو ازسرِ نو بحال کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ مہم کے ذریعے نوجوانوں کو کتاب کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرائے، قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کرے اور نئی لائبریریوں کا قیام عمل میں لائے۔

ترقی یافتہ ممالک نئی نسل کو کتاب کی جانب مائل کرنے کے لیے کئی اقدامات کر رہے ہیں، کچھ مغربی ممالک میں فون بوتھ، عوامی اور تفریحی مقامات پر کتابیں رکھی گئی ہیں، جہاں آنے والے افراد بلامعاوضہ اپنی پسندیدہ کتاب کو پڑ ھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ کے لیے بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔

کتب بینی کے چند فوائد
بہت سے لوگ مطالعے کو محض ایک مشغلہ سمجھتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ہونے والی کئی تحقیقی مطالعوں سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مطالعے کی عادت رکھنے والے افراد میں الزائمر (ایک دماغی بیماری) میں مبتلا ہونے کے امکانات مطالعہ نہ کرنے والے افراد کی نسبت ڈھائی گنا کم ہوتے ہیں۔ ماہر تعلیم Anne E. Cunningham نے اپنے تحقیقی مطالعے میں لکھا ہے کہ باقاعدگی سے کتب بینی کرنے والے افراد نہ صرف روزانہ کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھتے ہیں، بل کہ ان کی معلومات اور ذہانت کا معیار بھی دیگر افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

محقق کرسٹل رسل اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ مطالعہ آپ کا ذہنی تناؤ ختم کرکے آپ کی پُرسکون فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے۔ اچھی کتاب پڑھنے سے آپ کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ اور سوچنے کی صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی آف بفالو کی تحقیق کے مطابق فکشن بُکس پڑھنے سے دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔ اور آپ بہ آسانی اپنے مخاطب کے احساسات اور جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنا کیوں ضروری ہے؟
٭دن میں 15منٹ کا مطالعہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں سالانہ دس لاکھ سے زاید لفظوں کا اضافہ کرسکتا ہے۔
٭آمنے سامنے بیٹھ کر مطالعے کرنے والے بچوں کا آئی کیو لیول دوسرے بچوں کی نسبت 6پوائنٹ زیادہ ہوتا ہے۔
٭بنیادی تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں میں اسکول سے بھاگنے کی شرح مطالعہ کرنے والے بچوں کی نسبت تین سے چار گنا زاید ہوتی ہے۔
٭امریکی محکمۂ تعلیم کے ایک سروے کے مطابق مطالعہ کرنے والے بچوں میں اعتماد، یادداشت اور قائدانہ صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔

مطالعے کی عادت کس طرح ڈالیں
٭وقت متعین کریں: ۔اگر آپ مطالعے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو دن میں کوئی بھی ایک وقت مقرر کریں اور کم از کم دس سے پندرہ منٹ اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ آہستہ آہستہ اس دورانیے میں اضافہ کریں ۔
٭کتاب ہمیشہ ساتھ رکھیں: ۔ایک کتاب ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اگر کہیں آپ کو کسی کا انتظار کرنا پڑے تو اس وقت کو مثبت استعمال کرتے ہوئے مطالعہ شروع کردیں۔
٭ فہرست مرتب کریں: ۔اپنی ان کتابوں کی فہرست مرتب کریں جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اسے چیک کرتے رہیں۔
٭ جگہ منتخب کریں: ۔مطالعے کے لیے گھر کا سب سے آرام دہ گوشہ منتخب کریں ۔ ٹی وی لاؤنج یا کمپیوٹر روم مطالعے کے لیے موزوں تصور نہیں کیے جاتے۔
٭ بچوں کو پڑھائیں: ۔اگر آپ کے بچے ہیں تو انہیں مطالعے کے دوران اپنے ساتھ رکھیں اور کہانیاں سنائیں۔ اس سے بچوں میں پڑھنے کی عادت پختہ ہوتی ہے۔
٭ادبی تقریبات اور لائبریوں کا وزٹ کریں
٭ادبی تقریبات میں شرکت آپ کے مطالعے کو جلا بخشتی ہے۔ اپنے علاقے میں قائم لائبریری کا دورہ کریں اور وہاں آنے والے نئی کتب کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ لائبریری کتابوں کے حصول کا ایک بہترین اور سستا حل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔