سائبر کرائم اور خواتین

رئیس فاطمہ  اتوار 14 دسمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ میرے سامنے گم سم بیٹھی تھیں۔ چند منٹ پہلے ہی وہ تمام رام کہانی صاحبزادی کی حرکتوں کی سنا چکی تھیں۔ بیٹی بغیر کسی شرمندگی کے اپنے موبائل اسکرین کو انگلیوں سے مسلسل چھو رہی تھی، جب کہ والدہ کا کرب میں سمجھ چکی تھی۔ ہماری سوسائٹی میں قصوروار ہمیشہ لڑکوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ راہ چلتی عورت یا کوئی لڑکی اشارتاً بھی کسی کی طرف انگلی اٹھا کر کہہ دے کہ یہ مجھے تنگ کر رہا ہے تو بے شمار بھائی بند اس کی ہمدردی میں آگے بڑھ جائیں گے اور بغیر حقیقت جانے نوجوان پہ پل پڑیں گے۔ آخر کیوں؟ کیا قصور وار ہمیشہ لڑکے ہی ہوتے ہیں؟

کئی سالوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ لڑکیاں بہت آپے سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ موبائل فون، مس کالز اور انٹرنیٹ کیفے کی تمام تر خرافات اب بہت آگے بڑھ کر سائبر کرائم کی اپنی ایک وسیع دنیا آباد کر چکی ہیں۔ آئے دن ہم تک ان جرائم کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں۔ سن 2006ء سے مختلف کالموں کے ذریعے والدین تک میں نے متعدد بار یہ بات پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ اولاد کو نظرانداز مت کیجیے اور انھیں اتنی آزادی نہ دیں خصوصاً لڑکیوں کو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ لیکن ان باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔

ہوش جب آتا ہے جب چڑیاں پورے کھیت کا صفایا کر کے جا چکی ہوتی ہیں۔ آزادی کے نام پر جو بے راہ روی کی ایک لہر چلی ہے اس میں والدین کو کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں، کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اور اگر کہیں والدہ محترمہ خود بیٹی کی حرکتوں کو جدید تہذیب کا تحفہ سمجھ کر بڑھاوا دیں گی تو بیٹی چار ہاتھ آگے خود نکل جائے گی۔ آج کل ایک عمومی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پہ لوگ اپنی اپنی تصاویر مختلف پوز میں پبلک کر دیتے ہیں۔

بغیر یہ سوچے کہ سائبر کرائم کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ابھی تک تو صرف انعامی اسکیموں اور لاٹری کے انعام کے لالچ دیے جاتے تھے لیکن اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ خواتین کو اپنی اپنی تصاویر اس طرح پبلک نہیں کرنی چاہئیں۔ فیس بک کھولیے تو نت نئے ملبوسات اور انوکھے بلکہ کسی حد تک معیوب انداز کی تصاویر جلوہ آرائی کے لیے دھڑا دھڑ سامنے آنے لگتی ہیں۔ کہیں اکیلی کہیں گروپ اور کہیں کسی سہیلی کے ساتھ۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ سوائے اپنی تصاویر فیس بک پہ ڈالنے کے؟ یا نمود و نمائش کا ’ہوکا‘ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہر خطرے کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے لیکن اس طرح کی بے حجابانہ جلوہ آرائی بعض اوقات بڑے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ ضروری نہیں کہ خاتون ہونے کا فائدہ جرائم میں بھی آپ کے کام آئے۔

مذکورہ ماں بیٹیاں جن کا ذکر میں نے کالم کی ابتدا میں کیا تھا۔ انھیں میں طویل عرصے سے جانتی ہوں۔ خاتون کی تین بیٹیاں ہیں۔ خود ایک سرکاری ادارے میں کام کر چکی ہیں۔ انھوں نے تینوں بیٹیوں کو جی بھر کے آزادی دی تا کہ وہ کسی احساس محرومی کا شکار نہ ہوں اور رشتوں میں آسانی ہو۔ کو ایجوکیشن میں پڑھایا، بیٹیوں کو اجازت تھی کہ وہ نہ صرف اپنے دوستوں کو گھر لا سکتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ مخلوط پارٹیوں میں بھی جا سکتی ہیں۔ بڑی بیٹی نے ایک دوسرے مسلک کے لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج کر لی، دوسری اپنے ہی کولیگ کی دوسری بیوی بن گئی۔ یہاں تک تو انھیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔

لیکن ہوا یوں کہ تیسری صاحبزادی نے انھیں اور خود کو مشکل میں ڈال دیا۔ وجہ بنی فیس بک پہ اپ لوڈ کی جانے والی تصاویر۔ پھر چیٹنگ کے ذریعے کچھ لوگوں سے دوستی ہو گئی۔ لڑکی نے ماں باپ کی اجازت لیے بغیر ان نوجوانوں کو گھر بلانا شروع کر دیا۔ ہوٹل بازی بھی شروع ہو گئی۔ ان تین نوجوانوں میں سے دو شادی شدہ تھے اور ایک کنوارا تھا۔ لڑکی ان سے الگ الگ ملتی تھی۔ والدہ اور والد جب باہر ہوتے تب یہ ان میں سے کسی ایک کو بلا لیتی۔ لڑکے نے اس کے ساتھ مل کر دونوں شادی شدہ لوگوں کے ساتھ اس کی مختلف تصاویر کہیں چھپ کر خفیہ طریقے سے اتار لیں۔ چند دن بعد وہ تصاویر اس لڑکی نے دونوں حضرات کو دکھا کر کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیویوں تک یہ تصاویر نہ پہنچیں تو وہ اسے پانچ پانچ لاکھ روپے ادا کریں، بصورت دیگر وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔

ایک نے تو منت سماجت کر کے تین لاکھ دے کر جان چھڑائی، جب کہ دوسرے نے یہ کام دکھایا کہ ’’جیسے کو تیسا‘‘ والی کہانی دہرا دی۔ اور انٹرنیٹ سے کچھ دوسری غیر اخلاقی اور ناشائستہ تصاویر لے کر ان پر ان بی بی کا چہرہ فٹ کر دیا اور تصاویر والد محترم اور والدہ کو الگ الگ لفافے میں رکھ کر دیں۔ تب اصل معاملہ کھلا کہ قصہ کیا تھا۔ اور قصوروار کون تھا۔ والدین نے ان دونوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ تین لاکھ روپے میں سے دو لاکھ واپس کیے کیونکہ ایک لاکھ وہ نوجوان لے کر جا چکا تھا۔ جس نے آسانی سے پیسہ کمانے کا طریقہ لڑکی کو بتایا تھا۔ لیکن جس شادی شدہ شخص نے سر کسی کا اور دھڑ کسی کا جوڑ کر تصویریں بنوائی تھیں اس نے خاتون سے کہا کہ اگر آئندہ ایسی کوئی حرکت اس بی بی نے کی تو وہ اس کی تصاویر پولیس کو دے دے گا۔ اور سائبر کرائم کا مقدمہ بھی درج کروائے گا۔

اب خاتون میرے پاس بیٹھی کہہ رہی تھیں کہ انھوں نے اچھے رشتوں کے حصول کے لیے جو بے جا آزادی بیٹی کو دی تھی وہ واقعی غلط تھی۔ ان کا سوال تھا کہ اب کیا کریں؟ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ان کی صاحبزادی کی تصاویر اب بھی اس نوجوان کے پاس ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وہ نوجوان پھر بھی اتنا شریف تھا کہ اس نے تمام واقعات لڑکی کے والدین کو بتائے اور اسے سر بازار رسوا بھی نہ کیا۔

لیکن میرا ایک سوال اب بھی یہی ہے کہ اس تمام واقعے میں لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں؟ ایک اور چلن جو بہت عام ہوتا جا رہا ہے اور شرفا کے لیے خاصا تکلیف دہ بھی ہے وہ یہ کہ نوجوان لڑکیاں نہایت معیوب لباس میں سرعام نظر آتی ہیں۔ خواہ یونیورسٹی ہو، دفاتر ہوں یا دیگر مراکز، آخر والدین خصوصاً والدہ کس طرح مختصر، چست اور See Throw لباس میں اپنی بیٹیوں کو باہر آنے جانے کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ صورت حال کوچنگ سینٹروں میں زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ لباس صرف شخصیت ہی کا نہیں تہذیب اور خاندانی پس منظر کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بے حیائی کو فیشن سمجھ لیا گیا ہے۔ مختلف شاپنگ سینٹرز اور سپر مارکیٹوں میں چست ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس لڑکیاں والدین کے ہمراہ نظر آنا ایک معمول کی بات ہے۔

لیکن بات پھر وہیں ختم کرتی ہوں کہ سوشل میڈیا پہ اپنے جلوے بکھیرنے کے لیے روزانہ نئی نئی تصاویر اپ لوڈ کرنا کوئی شائستہ بات نہیں ہے۔ ان ہی رویوں سے خاندانی پس منظر اور تہذیب کا پتہ چلتا ہے۔ پیسہ تو کسی کے پاس بھی ہو سکتا ہے۔ دولت سے آپ سب کچھ خرید سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے خون نہیں بدل سکتے۔ نسبی شرافت نہیں خرید سکتے، دولت کی طرح ایک ہی جھٹکے میں انسان کم ظرف سے اعلیٰ ظرف اور اعلیٰ نسب نہیں بن سکتا۔ بے محابہ تصاویر سوشل میڈیا پہ ڈال کر خواتین خسارے میں ہی رہیں گی۔ البتہ شوبز کی بات الگ ہے۔ لیکن یہاں میری توجہ کا مرکز صرف شرفا کی صاحبزادیاں ہیں جو بغیر سوچے سمجھے پاگلوں کی طرح سوشل میڈیا پہ نمود و نمائش کے لیے خوار ہو رہی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔