سانحہ قصبہ علی گڑھ…

کوثر علی صدیقی  اتوار 14 دسمبر 2014

جہاں انسان میں بہت خوبیاں پائی جاتی ہیں، وہیں انسان کی فطرت میں حرص و لالچ بھی پائی جاتی ہے اور یہی حقائق اور مختلف کیفیات اسے اچھائی و برائی اور عیش و عشرت میں مبتلا کردیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے قوانین کی ضرورت پیش آتی ہے جو کہ انسان کے اندر پیدا ہونے والی حیوانیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے بھی یہ قوانین مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر ان قوانین کو مخصوص لوگوں یا کسی قوم، رنگ و نسل کی بنیاد پر ان کے خلاف لاگو کریں تو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور معاشرے کو سدھارنے کا دعویٰ بے مقصد ثابت ہوتا ہے اور پھر نئے قاعدے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ورنہ سانحات جنم لیتے ہیں اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے دریغ نہیں کیا جاتا، انسان ہی انسان کا ازلی دشمن بن جاتا ہے جس کی وجہ سے نت نئے سانحات ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے جو عناصر کارفرما ہوتے ہیں ان کے مقاصد صرف دنیا کی چند روزہ عیش و عشرت،  دھن، دولت اور ذاتی انا کی تسکین ہوتی ہے۔

یہ دنیا کو ہی جنت سمجھتے ہیں، یہی وہ عناصر ہیں جو اقتدار کو طول دینے کے لیے، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور رنگ ونسل کی بنیاد پر قتل عام کرتے ہیں اور مختلف اقوام کو باہم دست و گریباں کرکے خونی کھیل کھیلتے ہیں اور خود تماشائی بنے رہتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کس طرح بربریت اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے جسے بیان کرنے سے قلم قاصر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظلم کو فروغ دینے والوں کے عزائم و مقاصد جاننا بھی بے حد ضروری ہے۔ جس پاک وطن میں ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں، یہ آزادی خدا تعالیٰ کا دیا ہوا عظیم عطیہ ہے اور اس کی قدر کرنا ہم سب پر فرض ہے لیکن اس فریضے کو قومی بنیاد پر ادا کرنے سے ہم قاصر ہیں جس کی وجہ سے کئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں، اس کا جواب ہمیں آخر کیوں نہیں ملتا؟  میں کون ہوں؟ میری پہچان کیا ہے؟

اگر پاکستانی ہیں تو پاکستان میں رونما ہونے والے سانحات صرف ایک زبان سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کیوں ہوئے؟  یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس کا سد باب کیے بغیر آزادی کا مفہوم دھندلا جاتا ہے، جو ایک لمحہ فکریہ ہے، اس حساس مسئلے کو زیر بحث لاکر اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔  14 دسمبر 1986 کو حق پرست مظلوم عوام کے ساتھ ایک ایسا ہی گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اور سیکڑو ں معصوم بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا، اس  کے پس پردہ وہ کون سے عوامل تھے جن مذموم مقاصد کے تحت درندہ صفت قاتلوں نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے قصبہ علی گڑھ کے معصوم عوام کو بے دردی سے موت کی آغوش میں سلادیا، جن میں عورتیں، بچے اور بزرگ شامل تھے۔

یہ دہشت گردی آخر کس کے ایما پر کی گئی؟  یہ معمہ آج تک لاینحل ہے؟  پاکستان میں جتنے بھی بڑے سانحات رونما ہوئے ان میں سے کسی بھی مرکزی کردار کو آج تک نہیں پکڑا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد عناصر انسانیت کا خون بہانے سے باز نہیں آتے، اگر ان عناصر کے خلاف سیاست سے بالاتر ہوکر قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی تو آج ان کی جڑیں اتنی مضبوط نہ ہوتیں اور دہشت گردی کے باب کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا جاتا۔14 دسمبر 1986کو اورنگی ٹاؤن کے قصبہ علی گڑھ کالونی اور متصل دیگر علاقوں میں دہشتگردوں کی جانب سے ایک منظم سازش کے تحت کارروائی شروع کی گئی جس کا ہدف کراچی میں ڈکیتی، رہزنی، اغوا برائے تاوان، اسلحہ فروشی، منشیات فروشی، ڈرگ مافیا سے تعلق رکھنے والے عناصرکے خلاف کارروائی کرنا تھا، اس وقت کی برسر اقتدار حکومت نے انتظامی سطح پر یہ فیصلہ کیا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف سہراب گوٹھ پر کارروائی کی جائے۔

پولیس کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر جیسے ہی آپریشن شروع کیا گیا تو دہشتگرد عناصر کی جانب سے انتقامی کارروائی کے طور پر اور آپریشن سے توجہ ہٹانے کی غرض سے 13 دسمبر کی شب قصبہ علی گڑھ کے پورے علاقے کو گھیر لیا گیا اور ایک قومیت کو بلاجواز نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ اورنگی ٹائون کی k-2 پہاڑی، فیض عام کالونی، رحیم شاہ کالونی، مومن آباد، بیوہ کالونی، ہریانہ کالونی۔ بسم اللہ کالونی۔ الصدف چوک، رئیس امروہوی، یعقوب آباد غرض ان تمام بستیوں پر جہاں اردو بولنے والے آباد تھے یہ چنگیزیت ڈھائی گئی اور سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں لسانیت کی آگ بھڑک اٹھی اور حالات اس حد تک بگڑے کہ فوج طلب کرنی پڑی۔

لیکن کیا قصبہ علی گڑھ اور دیگر لوگوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اور عورتوں کی عصمت دری کی گئی تھی، کیا ان معصوم جانوں کا ازالہ ممکن ہوسکا؟ اس سانحے کو گزرے تقریباً 28 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی لوگ اپنے پیاروں کو یاد کرکے خون کے آنسو روتے ہیں۔ ہر سال 14 دسمبر کا دن جب آتا ہے تو متاثرین کی آنکھوں میں وہی خونیں منظر گھومنے لگتا ہے، جب ہر گلی کوچے کو دہشت گرد عناصر نے گھیر کر جدید اسلحہ سے لیس ہوکر معصوم بے گناہ مہاجروں کو بندوق کے اگلتے ہوئے بارود سے چھلنی کردیا تھا جب کہ یہ کسی قومیت کی لڑائی نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود بلاجواز قصبہ علی گڑھ کے معصوم بچوں، نوجوانوں، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔سانحہ قصبہ علی گڑھ اور دیگر تمام سانحات کا ازالہ کیے بغیر اس ملک کے استحکام کا دعوٰی کرنا، انسانیت کے علمبرداروں اور انصاف کی بالادستی قائم کرنیوالوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آخر کب تک اس ملک میں بے گناہ معصوم شہریوں کا خون بہایا جائے گا۔ یہ سب لاقانونیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب تک اس ملک میں فرسودہ نظام کا خاتمہ عمل میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک نہ ملک ترقی کرسکے گا اور نہ ہی ملک میں امن و امان قائم ہوسکے گا۔ یہ سب سانحات اور دہشت گردی کے تسلسل سے ہوتے ہوئے واقعات جمہوریت کے علمبرداروں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جمہوریت کے دعویدار حقیقی معنوں میں فرسودہ نظام کے حامی ہیں، جس کی وجہ سے مظلوم عوام کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔کراچی کے مستقل باشندوں کے خلاف سازشوں کا جال مسلسل بنا جارہا ہے لیکن اب تمام تر سازشوں کے باوجود کراچی سے خیبر تک کے حق پرست عوام قومی یکجہتی کا عملی نمونہ بن کر اس ملک میں مزید فرسودہ نظام کو چلنے نہیں دیں گے کیونکہ جتنے بھی فسادات کرائے گئے ہیں ان کا مقصد پاکستان کے مظلوم حق پرست عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، لیکن شاباش ہے حق پرست مظلوم عوام کو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو، وہ اپنی یکجہتی کی طاقت سے اس ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اور حق پرستی کی شمع روشن کرنے کے لیے تمام سازشی عناصر کو ناکام بنادیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔