جان بچی، لاکھوں گنوائے…

شیریں حیدر  اتوار 14 دسمبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

گھر جا کر آج کچھ بہتر پکا سکوں گی، میں نے دل میں سوچا، اس روز کام سے معمول سے قبل فارغ ہو گئی تھی اور گھر اس خوشی سے جا رہی تھی کہ معمول سے لگ بھگ دو گھنٹے قبل پہنچ جاؤں گی کہ ائیر پورٹ چوک کے قریب میرے فون کی پیغام والی بیپ بجی، میں نے ڈرائیونگ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فون سٹیئرنگ پر رکھ کر پیغام پڑھا… ’’ فرخ کوسوہاوہ کے تحصیل اسپتال میں بے ہوشی کی حالت میں تین بجے پہنچایا گیا تھا، اس کی حالت کافی نازک ہے۔

وہ اس سے تین گھنٹے قبل گاڑی میں بے ہوش پایا گیا تھا… ‘‘ (فرخ میرے چھوٹے بہنوئی ہیں)میں نے اپنے دماغ کو بھک سے اڑتے ہوئے محسوس کیا۔ بڑے بھائی جان کا پیغام تھا، ’ کیا کیا جائے… ‘ کال کر کے صاحب سے بات کی ، انھیں بتایا کہ کیا ہوا تھا، انھوں نے مجھے روکا اور کہا کہ ان کے آنے کا انتظارکروں تو وہ بھی ساتھ چلیں گے، مگر انتظارکا تو وقت ہی نہ تھا، بھابی اور بھتیجے کو راستے سے لیا اور عازم سوہاوہ ہوئے۔ سوہاوہ کے تحصیل اسپتال پہنچے تو اس کی حالت دیکھ کر خیال آیاکہ ہوش میں ہوتے ہوئے کوئی آدمی اس اسپتال میں نہ آتا۔ فرخ بھائی کے بھائی بھی پہنچ کر ایمبولینس کا انتظام کر چکے تھے، ایمبولینس… اسپتال سے بھی چار ہاتھ آگے تھی مگر مرتا کیا نہ کرتا…

’موت کے کنویں‘ میں گاڑی چلاتے ہوئے ہمارا قافلہ سی ایم ایچ راولپنڈی پہنچا تو وہاں باقی ماندہ خاندان ’استقبال‘ کو موجود تھا اور اسپتال کی انتظامیہ صورت حال کو سنبھالنے کو مستعد… چونکہ صورت حال کا شکار ایک فوجی افسر تھا اور سی ایم ایچ میں علاج کا اہل بھی، ایمر جنسی میں انھیں لے جایا گیا جہاں ان کے جسم میں خطرے کے نشان سے گرتی ہوئی شکر کی مقدار کو سب سے پہلے سنبھالنے کی کوشش جاری ہوئی۔ انھیں تمام مشینوں اور آلات سے منسلک کر دیا گیا … ان کی طرف سے response بہت حوصلہ شکن تھا، جو تین نوجوان انھیں اسپتال لے کر گئے تھے، انھوں نے بتایا تھا کہ وہ مکمل بے ہوش تھے، ان کی گاڑی کے گرد لوگ گھیرا کیے کھڑے تھے اور بتا رہے تھے کہ انھیں گیارہ بجے سب سے پہلے سوہاوہ جی ٹی روڈ پر ایک کھوکے والے نے دیکھا تھا، وہ اسٹیرنگ پر سر ٹکائے ہوئے تھے، کوئی حرکت جسم میں نہ تھی، تین بجے تک ’ تماش بینوں ‘ کی ایک بڑی تعداد انھیں خطرے کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتی رہی مگر کسی نے گاڑی کا دروازہ کھول کر انھیں باہر نہ نکالا۔ ان تینوں نوجوانوں نے انھیں ان ہی کی گاڑی پر اسپتال پہنچایا، الٹا اسپتال لانے پر انھیں پولیس کے جس تفتیشی عمل سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ ہم سب بخوبی کر سکتے ہیں۔

گیارہ گھنٹے گزر چکے تھے ، انھیں بالکل ہوش نہیں آ رہا تھا، ڈاکٹروں کا اندازہ تھا کہ وہ ذیابیطس کے مریض نہ تھے بلکہ شوگر کی مقدار کسی وجہ سے جسم سے یک لخت کم ہو جانے سے دماغ نیند میں چلا گیا تھا۔

’’ میں کہاں ہوں … ‘‘ پہلا سوال، دیوار گیر گھڑی پر نظر پڑی ’’ اوہو… میں سو کیوں رہا تھا، اڑھائی گھنٹے میں سوتا رہا ہوں … کیوں … میں آٹھ بجے گھر سے نکلا تھا‘‘ ان کا سوات والا بیٹا رات بارہ بجے پہنچ گیا تھا اور بہاولپور والا صبح چار بجے، اگلے روز صبح ساڑھے دس بجے ان کی آنکھ کھلی تھی اور انھوں نے غنودگی کے عالم میں ہی اپنے بیٹوں سے سوال کیا تھا، اس سے قبل رات بارہ بجے ڈاکٹروں کی انتھک کوشش اور اللہ کے خاص کرم سے رات بارہ بجے ان کے جسم نے response کرنا شروع کر دیا تھا، شوگر کی مقدار کو جسم میں بتدریج بڑھایا جا رہا تھا تا کہ یکدم بڑھانے سے کوئی مسئلہ نہ ہو جائے، خوشی کی لہر سب کے دلوں میں دوڑ گئی تھی۔

ان کا فون ان کے پاس ہی تھا، رات آٹھ اور نو کے درمیان بھائی جان کے ہاتھ میں اس فون پر پیغام آیا کہ ان کے کریڈٹ کارڈ پر چھیاسی ہزار کی رقم سے خریداری ہوئی تھی، اس وقت سب کے کان کھڑے ہوئے، کارڈ کو بلاک کرا دیا گیا مگر جب اس روز کے باقی پیغامات چیک کیے گئے تو معلوم ہوا کہ اس ایک دن میں بارہ بجے دن سے اس وقت تک، لگ بھگ تین ساڑھے تین لاکھ کی رقم ان کے دو کارڈز پر اے ٹی ایم مشینوں اور خریداری کے ذریعے استعمال ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس نقد رقم بھی ایک لاکھ سے زائد تھی جو کہ وہ اپنے بھائی کے زیر تعمیر مکان پر کسی ٹھیکے دار کو دینے کے لیے جا رہے تھے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی انھیں اغواء کر کے لے گیا تھا۔

’’ اس نے میری گاڑی کی کھڑکی پر دستک دی، وہ ایک بزرگ اور داڑھی والا آدمی تھا، شکل سے انتہائی شریف … میں نے شیشہ نیچے کیا تو انھوں نے انگریزی میں بتایا کہ وہ ایک استاد تھے اور انھیں امتحان لینے کے لیے جہلم پہنچنا تھا اور وہ بہت لیٹ ہو رہے تھے۔مجھے ان کے التجائیہ انداز پر ترس آگیا، میں نے سوچا تھا کہ میںایک مضبوط اور طاقت و جسامت والا آدمی ہوں مجھ پر وہ کسی طرح قابو تو نہیں پا سکتا اس لیے میں نے اسے بٹھا لیا۔

اس نے کہ میں اسے وہیں تک چھوڑ دوں جہاں مجھے جانا تھا، اس نے چند منٹ کے بعد مجھے ایک چاکلیٹ آفر کیا، میں دوسروں کو ساری عمر اپنی یونٹوں میں جوانوں اور افسروں کو جو ہدایات سفر کرنے کے بارے میں دیتا تھا، وہ ساری ہدایات میں بھول گیا اور اس کے اصرار کرنے پر کہ وہ برا محسوس نہ کرے میں نے اس سے لے کر چاکلیٹ کھا لی، بند چاکلیٹ ہی ہے نا، میں نے یہی سوچا تھا، پھر اس نے  orange کی بوتل بھی مجھے دی اور مجبور کیا تو میں نے جوس بھی اس سے لے کر چند گھونٹ بھرے… اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آپ کالم لکھیں اس بات پر کہ کوئی کسی پر اعتبار نہ کرے، چاہے وہ باریش ہو، چاہے اپنے حلیے سے کتنا ہی مجبور کیوں نہ لگتا ہو‘‘

’’ کالم کا عنوان کیا رکھوں ؟‘‘ میں نے ہنس کر سوال کیا،سب کا قہقہہ بلند ہوا، ’’ مت بھولیں کہ ہم اسپتال کے ایک کمرے میں ہیں ‘‘ قہقہے کا تسلسل جاری تھا مگر آواز کم کر دی گئی، سب لوگ مختلف نام تجویز کرنے لگے، ’’ اوروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت‘‘ ، ’’ چاکلیٹ اور اورنج…‘‘ ایک آواز نے پھر قہقہے کا جواز پیدا کر دیا، ’’ نہیں ، میرے خیال میں ہونا چاہیے، جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے… ‘‘ میں نے کہا۔

’’ آپ مجھے بدھو کہہ رہی ہیں باجی؟ ‘‘ فرخ بھائی نے سوال کیا… ایک اور بھر پور ہنسی کا فوارہ…

’’ نہیں نہیں ، میری یہ مجال… میں ہنسی، ویسے میں نہ بھی کہوں تو کیا فرق پڑتا ہے ‘‘ میں نے ادھوری بات منہ میں سنبھال لی۔

’’ نہیں پھوـپھو… جان بچی پر لاکھوں گنوائے ‘‘ انیق نے ایک بامعنی فقرے میں فائنل نام پر مہر لگا دی، ’’ سمجھ میں نہیں آتا پھوپھو کہ کسی پر اعتبار کیا جائے یا نہ کیا جائے ‘‘

’’ ہاں ایک ہی واقعے میں ہم فرخ بھائی کو اس بات پر مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ انھوں نے کسی پر اعتبار کیا اور اسے لفٹ دے کر خود کو مصیبت میں ڈال لیا اور اسی واقعے کے تناظر میں ہم ان لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جنھوں نے گاڑی سے انھیں نہیں نکالا اور وہ کتنی ہی دیر بے ہوش رہے، وہ لوگ کس طرح اعتبار کرتے کہ اندر موجود آدمی کون ہے، دہشت گرد تو نہیں، گاڑی کا دروازہ کھولنے سے کوئی بم نہ پھٹ جائے، اندر موجود آدمی زندہ بھی ہے کہ نہیں اور اسپتال پہنچانے والا… جیسا کہ ہوا بھی کہ پولیس کے ہاتھوں کسی اور مصیبت میں نہ پھنس جائے ‘‘

’’ پولیس کچھ کرے نہ کرے میں تو اس آدمی کو ڈھونڈ بھی نکالوں گا اور اسے منظر عام پر لاؤں گا ‘‘ فرخ بھائی نے کسی ہیرو کی طرح عزم کا اظہار کیا جو وہ کام کرتا ہے جو پولیس نہیں کر پاتی۔ دروازے پر دستک ہوئی، بھائی جان کھڑے تھے، ’’سب کو مبارک ہو ‘‘ ہاتھ میں پکڑے لفافے انھوں نے ہماری طرف بڑھائے، ’’سب لوگوں کو دو، کھانے اور پینے کے لیے ،فرخ کو زیادہ دینا ، اسے بہت پسند ہیں ‘‘ میں نے لفافے میز پر الٹے، چاکلیٹ اور اورنج کا ڈھیر میز پر لگ گیا اور نہ رکنے والے قہقہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ہنس رہے تھے، میری آنکھوں میں اس وقت بھی آنسو تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔