آزادی صحافت اور اخباری تنظیمیں

مقتدا منصور  اتوار 14 دسمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

امریکی صحافی جان پیٹر زینگر نے 1884ء میں اخبار پنسلوانیا گزٹ میں ریاست کے گورنر کی بدعنوانیوں اور بداعمالیوں پر ایک اسٹوری شایع کی۔ گورنر نے طیش میں آکر زینگر کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اگلے روز اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کے روبرو زینگر نے جو کچھ کہا، وہ امریکا میں آزادی صحافت کی دستاویز کا ایک اہم نکتہ بن گیا۔ اس نے کہا کہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ا پنے حکمرانوں کے کردار، ان کی کارکردگی اور اہلیت کے بارے میں جان کاری حاصل کریں۔

ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو بروقت، صحیح اور غیر جانبداری پر مبنی اطلاعات بہم پہنچائیں۔ اگر کسی خبر یا شایع ہونے والے کسی اظہاریہ کے بارے میں کسی فرد، تنظیم یا حکومتی ذمے داروں کو یہ شک یا یقین ہو کہ اس میں دی گئی اطلاع اور حقائق غلط ہیں یا ان کی وضاحت کی ضرورت ہے، تو متاثرہ فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنا نقطہ نظر اخبار کو بھیجے، جو اس وضاحتی بیان کو اسی سائز میں اسی جگہ شایع کرنے کا پابند ہے، جہاں اس نے پہلی رپورٹ شایع کی تھی۔

پاکستان کے آئین کی شق 19A کہتی ہے کہ Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulation and reasonable restrictions imposed by law۔ یعنی ہر شہری کو عوامی اہمیت کے حامل تمام معاملات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ مگر اس آئینی تحفظ کے باوجود عام آدمی کی ریاستی منصوبہ بندی، حکومتی اقدامات اور فیصلہ سازی تک رسائی ممکن نہیں۔ گویا آزادی اظہار ہنوز ایک تصور موہوم ہے۔

آزادی اظہار کے حصول کے لیے صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے قیام پاکستان کے وقت ہی سے طویل جدوجہد کی ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے طویل قید و بند، جسمانی تشدد اور ایذا رسانی جیسی سزائیں بھگتیں۔ عوام تک صحیح اطلاعات پہنچانے کی پاداش میں سیکڑوں صحافیوں کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے، مگر وہ کٹھن سفر جو 1947ء میں شروع ہوا تھا، آج بھی جاری ہے۔ اگر آج سر پر لٹکی ریاستی اداروں کی تلوار قدرے کند ہوئی ہے، تو غیر ریاستی عناصر کی چھریاں تیز ہوئی ہیں۔ لہٰذا الیکٹرونک میڈیا پہ جاری لاف گزاف کو دیکھ کر یہ تصور کرنا کہ منزل مل گئی یا ملنے کے قریب ہے، محض ایک سراب، ایک فریب نظر ہے۔

آزادی اظہار کا حصول اس طویل سفر سے مشروط ہے، جس میں نہ کوئی شجر سایہ دار ہے، نہ سائباں۔ بلکہ اس سفر میں ان گنت رکاوٹیں ہیں۔ کبھی حالات کی ستم ظریفی کے بگولے راہ کھوٹی کرتے ہیں، تو کہیں عوام کا طوفان باد و باراں رستے کی دیوار بنتا ہے۔ کہیں ریاستی اداروں کے اژدھے رکاوٹ بنتے ہیں۔ پھر کہیں غیر ریاستی مگرمچھوں کا خوف سمت تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مگر سفر بہرحال جاری ہے اور اسے اصل منزل کے حصول تک جاری رہنا چاہیے۔

پاکستان میں صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی طویل جدوجہد کے بارے میں بہت کم لکھا گیا۔ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ انگریزی زبان میں ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ حقائق کا احاطہ ضمیر نیازی مرحوم نے کیا۔ مگر ان کی تحریر کردہ کتب بھی انگریز میں ہیں۔ البتہ ان کی تصانیف کے بہت عمدہ تراجم ہوئے ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں موجود متوشش شہریوں کے علم میں اضافہ اور ان کے ذوق مطالعہ کی تسکین کا باعث ہیں۔

میری محدود معلومات کے مطابق آزادی صحافت کے لیے ہونے والی جدوجہد پر اردو زبان میں طبع زاد تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام احباب جو انگریزی زبان میں دسترس نہیں رکھتے، پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے تقریباً ناآشنا ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ اس ملک کے صحافیوں اور صحافتی اداروں سے وابستہ افراد کو ان تک صحیح اور بروقت اطلاعات پہنچانے کے لیے کن مشکلات اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر اردو اور مقامی زبانوں کے اخبارات پر کیا بیتی ہے؟

ہمارے دوست پروفیسر (ڈاکٹر) توصیف احمد خان، جو ایک کہنہ مشق صحافی اور شعبہ صحافت کے استاد ہی نہیں بلکہ حقوق انسانی کے سرگرم کارکن بھی ہیں۔ جب انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے صحافیوں کی جدوجہد کو موضوع بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ ایک صائب اور خوش آیند فیصلہ تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک پیشہ ور صحافی اور استاد کا علم اور تجربہ بہرحال بہت وسیع اور وقیع ہوتا ہے، لیکن بحیثیت ایک سماجی و سیاسی کارکن کسی فرد کو معاشرے کی نزاکتوں کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

یوں استاد کی علمی وسعت، عامل صحافی کا عملی تجربہ اور سماجی کارکن کا مشاہدہ جب ایک فرد میں مجتمع ہو جائیں تو علم و آگہی کا بحر قلزم موجزن ہو جاتا ہے۔ پروفیسر (ڈاکٹر) توصیف احمد خان کے اس تحقیقی مقالہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس میں ایک استاد کی بصیرت، ایک صحافی کا تجربہ اور ایک سرگرم سماجی کارکن کا مشاہدہ یکجا ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کا مقالہ آزادی صحافت کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر ایک تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔

اس مقالہ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریز کی آمد کے بعد شروع ہونے والا صحافتی عمل کیسے کیسے نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ اگر اس مقالہ کی فہرست مضامین پر نظر ڈالی جائے تو کل 8 ابواب ہیں۔ پہلے باب میں برصغیر میں اخبارات کا ارتقا، قدیم ہندوستان میں اطلاعات کی فراہمی پر پابندیوں کے طریقہ اور پاکستان میں صحافت پر پابندی کا آغاز جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں اخباری قوانین کا ارتقا، پاکستان میں صحافتی قوانین اور آزادی صحافت پر اظہار کیا گیا ہے۔

تیسرا باب اس لحاظ سے بہت اہم ہے، کیونکہ اس میں ان حربوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے، جو آزادی صحافت کو سلب کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چوتھے باب میں اخبار مالکان کی تنظیم APNS اور پانچویں باب میں مدیران کی تنظیم CPNE کی ہئیت اور نوعیت پر گفتگو کی گئی ہے، جب کہ چھٹا باب صحافیوں کی تنظیم PFUI کے لیے مختص ہے۔ ساتویں باب میں نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن کے ساخت اور ہئیت پر بحث کی گئی ہے۔ آخری آٹھویں باب میں آئین کی بالادستی، جمہوری روایات اور اخبارات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

اس کتاب کے بارے میں حقوق انسانی کے معروف سرگرم رہنما اور HRCP کے جنرل سیکریٹری آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر توصیف احمد خان نے آزادی صحافت کے باب میں اخبارات کے مالکان، مدیران اور کارکن صحافیوں کی تنظیموں کے کردار پر اپنا مفصل اور مدلل مقالہ برائے حصول سند Ph.D اشاعت کے لیے تیار کر کے پاکستان میں ذرایع ابلاغ سے وابستہ افراد کی بالخصوص اور اس ملک کے عوام کی بالعموم ایک شاندار خدمت سر انجام دی ہے۔

اخبارات روزمرہ کے واقعات کے تناظر میں تاریخ کا مواد عوام تک پہنچاتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے اہم رکن کی حیثیت سے ان کے تاریخ سازی میں کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔‘‘ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ’’توصیف احمد خان نے تحقیق کے ساتھ برصغیر میں صحافت کی تاریخ، اس میں ہونے والی تبدیلیوں اور صحافیوں کی اس جدوجہد کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جو انھوں نے آزادی صحافت کے لیے کیں۔ ان کی یہ کتاب صحافت کی تاریخ پر ایک اہم دستاویز ہے۔‘‘

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر توصیف کا یہ مقالہ جو اب کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے، دراصل پاکستان میں صحافت کی مختصر تاریخ ہے۔ جس میں انھوں نے انگریز دور سے حالیہ زمانے تک اخبارات اور صحافیوں کو اطلاعات کی رسائی کے عمل میں درپیش مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان تنظیموں پر بحث کی ہے،  آزادی صحافت جن کی پیشہ ورانہ ضرورت اور مطمع نظر رہی ہے۔

اس کتاب میں تاریخی حقائق اور حال کا منظرنامہ پیش کرنے کے ساتھ نئے صحافیوں کے لیے کسی حد تک مستقبل کی راہیں متعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو آزادیِ صحافت کی جدوجہد میں اخباری تنظیموں کے کردار پر غالباً یہ اولین تحقیقی کاوش ہے، جس میں آزادیِ صحافت کو محور بناتے ہوئے پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی پوری تاریخ رقم کر دی ہے۔

دوسری دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کو کراچی پریس کلب نے شایع کر کے اپنے علم دوست اور صحافتی آزادی کے لیے لگن کا برملا اظہار کیا ہے۔ کراچی پریس کلب کی آزادیِ اظہار کے لیے ایک طویل اور سنہری تاریخ ہے۔ یہ ملک کا وہ واحد کلب ہے، جس نے ایوب خان کی فوجی آمریت سے پرویز مشرف کی لبرل آمریت تک ہر دور میں جمہوریت کے چراغ کو روشن رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ خواہش ہے کہ اس کتاب کو صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہر شخص کے علاوہ اس ملک کے متوشش شہری اور صحافت کے علاوہ سیاسیات اور تاریخ کے طالب بھی لازمی طور پر پڑھیں۔

ایک چیز کھٹکتی ہے، وہ اس کی قیمت ہے، جو 1200 روپے  مقرر کی گئی ہے۔ یہ قیمت طالب علموں اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے باذوق افراد کی استطاعت سے باہر ہے۔ اگر قیمت نصف کر دی جائے تو جو بہت سے لوگوں کی اس تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ بہرحال اردو زبان میں ایک عمدہ تحقیقی کتاب کا اضافہ ہوا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ اضافہ ہمارے اپنے دوست کے ہاتھوں ہوا ہے، جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔