کپتانی دن امن سے گزرنے دیا جائے!

تنویر قیصر شاہد  اتوار 14 دسمبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دسمبر کے ان اداس دنوں میں جناب عمران خان کا پلان سی پوری جرأت و استقامت کے ساتھ جاری ہے۔ یہی وہ دن ہیں جب 43 برس قبل پاکستان کو دولخت کر دیا گیاتھا۔ یہ ایک الگ المیہ ہے کہ اس سانحہ پر اس کے تینوں کرداروں کا انجام بھی غیر فطری ہوا۔ اگر ماضی سے بحیثیت مجموعی ہم نے کوئی سبق لیا ہوتا تو آج کے حکمران‘ عمران کے بے ضرر مطالبات کے سامنے اکڑ دکھانے سے گریز اختیار کرتے۔

فریقین کے تناؤ نے بہت سی معصوم جانیں ہڑپ کر لی ہیں۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا، کیا یونہی بے ثمر اور رائیگاں جائے گا؟ جیسا کہ ماضی میں اپنے سیاسی قائدین پر تہی دست اور تہی دامن کارکنان اپنی جانیں بے دریغ قربان کرتے رہے؟ اب بھی یہی داستان رقم کی جائے گی اور لہو میں خود کو لٹانے والے بے نشاں اور ان کے وارثان بے اماں رہ جائیں گے؟ لاہور کے ماڈل ٹاؤن، اسلام آباد کے ڈی چوک اور فیصل آباد میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے جو کارکنان قتل کر ڈالے گئے، وہ سب کے سب فراموش کر دیے جائیں گے؟ اگر احتجاج کنندہ عمران خان اور مقتدر افراد کے درمیان صلح ہو جاتی ہے، جس کے لیے ڈائیلاگ کی شکل میں کوششیں بروئے کار نظر آ رہی ہیں، تو تقریباً دو درجن کے قریب مارے جانے والے افراد کو کس نام سے یاد کیا جائے گا؟

دو تین دن قبل عمران خان کراچی میں تھے۔ اپنے ’’پلان سی‘‘ کی کامیابی کے دوسرے مرحلے میں۔ کراچی تو پہلے ہی خونم خون نظر آ رہا ہے۔ وہاں دہشت گردی کے عفریت نے عوام، حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے خونخوار پنجوں میں بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں پورے ملک، خصوصاً سندھ بھر میں تشویشناک لہروں کا اٹھنا غیر فطری نہیں تھا۔ پھر سب کے سامنے فیصل آباد کا تازہ تازہ سانحہ بھی تھا۔ ایسے میں کپتان کے پلان سی کا دوسرا مرحلہ؟ خدانخواستہ کوئی حادثہ پھر سے رونما نہ ہو جائے؟ اندیشوں اور وسوسوں نے کراچی انتظامیہ کو نئے امتحان میں ڈال دیا تھا۔

خدا کا شکر ہے کہ 12 دسمبر کا دن کراچی میں بخیریت گزر گیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عمران خان سے تعاون کرنے کے جو اعلان کیے، جناب قائم علی شاہ اور ان کے ساتھی پوری طرح اپنے وعدوں پر پورا اترے۔ کراچی میں کوئی ہنگامہ ہوا نہ کہیں خون کا ایک قطرہ ہی گرا۔ پتھراؤ ہوا نہ مقتدر جماعت عمران خان کے کارکنوں کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے کارکنوں کو مسلّح کر کے سامنے لائی۔ اس صبر، دانائی اور حکمت پر سندھ حکومت کے ساتھ جناب آصف زرداری بھی شاباش کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک بار پھر مفاہمت کا عملی مظاہرہ کیا اور سب کی تحسین کے مستحق بھی ٹھہرے۔

جناب الطاف حسین نے بھی دل کھلا اور بڑا کر کے کپتان کے حقِ احتجاج کو تسلیم کیا اور کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آیا، حالانکہ ماضی قریب میں دونوں رہنماؤں کے درمیان کشیدگی اور ناراضی کی فضا قائم رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن اور ان کے قائد شاباشی کے مستحق ہیں۔ جس طرح جناب الطاف حسین اور جناب قائم علی شاہ نے بارہ دسمبر کو صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، اگر ہمارے مرکزی اور ایک صوبے کے حکمران اور ان کے مشیران و وزیرانِ کرام بھی اسی طرح کے صبر اور حکمت کا دامن تھامے رکھتے تو باالیقین کہا جا سکتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن، اسلام آباد اور فیصل آبادمیں کچھ بھی نہ ہوتا۔

عمران کے کارکنوں نے بھی کراچی میں مہذب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔  اب ہمارا کپتان اپنے پلان سی کے تیسرے قدم کے طور پر لاہور میں ہے۔ لاہور جو ان کا گھر ہے۔ جہاں اس کے چاہنے والے بھی لاتعداد ہیں اور اتفاق سے یہی شہر اس کے حریف و مقتدر سیاستدانوں کا گڑھ بھی ہے۔ کپتان اپنے چند حلیفوں کے ساتھ اپنے کئی متحدہ حریفوں کو للکارتے اور چناؤتی سناتے ہوئے اب لاہور میں ہے۔

اگر سندھ کے حکمرانوں کی مانند پنجاب کے حکمرانوں نے بھی صبر و تحمل کے مظاہرے کے ساتھ کپتان کے حقِ جمہوریت اور حقِ احتجاج کو تسلیم کرتے ہوئے ایک دن گزارنے کا موقع فراہم کیا تو یہ دن بھی، انشاء اللہ، پرامن انداز میں گزر جائے گا۔ ہمارے حکمران خوش اور مطمئن تھے کہ اب پورے ملک اور پارلیمنٹ میں ان کے خلاف اپوزیشن کی کوئی آواز اٹھتی ہے نہ کوئی شخصیت مقابل ہے۔ ایسے میں عمران خان کا مدِ مقابل آ جانا اور بعض مطالبات کے لیے نہایت بلند اور توانا آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونا یقینا حکمرانوں کی طبع پر گراں گزارا ہے۔

وہ اپنی یہ ناگواری چھپا بھی نہیں پا رہے، حالانکہ جمہوری تماشے میں حزبِ اقتدار کو اپنے حریف کے سامنے ناگواریوں کو چھپانے کی اداکاری کرنا بھی پڑتی ہے لیکن بوجوہ وہ خان کے سامنے اپنے چہرے کے تاثرات کو مدہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ خان نے اب تک، خصوصاً دھرنوں کے گزشتہ 130دنوں میں جو بھی اقدامات کیے ہیں، ان سے حکمران نقصان اور خسارے میں زیادہ رہے ہیں۔

شاید مقتدرین کو اس کا ادراک نہ ہو۔ اب جب کہ خان صاحب ایک بار پھر لاہور میں ہیں اور گزشتہ 19 ماہ کے دورانِ انھوں نے آزمائش کے بہت سے گرم و سرد لمحات کا تجربہ بھی حاصل کرلیا ہے، مناسب یہی ہو گا کہ حکمران نہ طیش میں آئیں اور نہ ہی (فیصل آباد کی طرح) اپنے کارکنوں کو پی ٹی آئی کے جوان اور سخت جان کارکنوں کے مقابلے میں دانستہ کھڑا کرنے کی کوششیں کریں۔

جن لوگوں کو یہ گمان یا غلط فہمی تھی کہ خان صاحب بھاگ جائیں گے، سخت سردی و سخت گرمی کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے، انھیں تھکا تھکا کر ہلکان اور بے دم کر دیا جائے گا اور وہ آخر کار فرار ہو جائیں گے تو حکمرانوں کے یہ سب گمان اور غلط فہمیاں یقینا دور ہو چکی ہوں گے۔ خان کو ’’اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ‘‘ قرار دینے اور بہتان لگانے کی کوششیں بھی ناکام و نامراد ہو چکی ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔