(کھیل کود) - پاکستانی ہاکی ٹیم کے خلاف ہندوستان کی گاندھی گیری

محمد عثمان فاروق  پير 15 دسمبر 2014
اعتراض کیا گیا کہ کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے شرٹس اتاری جبکہ وہاں فیملیز بیٹھی ہوئیں تھیں۔ لیکن بھارتی میڈیا  یہ بھول گیا ہے کہ اربوں کا بزنس کرنے والی فلموں میں فحاشی اپنی عروج پر ہوتی ہے۔ تو کیا یہ فلمیں جنات دیکھتے ہیں؟  سلمان خان بلاوجہ شرٹ اتارے تو سب ٹھیک ہے جب ہم کریں تو ’’کریکٹر ڈھیلا ہے‘‘۔ فوٹو: فائل

اعتراض کیا گیا کہ کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے شرٹس اتاری جبکہ وہاں فیملیز بیٹھی ہوئیں تھیں۔ لیکن بھارتی میڈیا یہ بھول گیا ہے کہ اربوں کا بزنس کرنے والی فلموں میں فحاشی اپنی عروج پر ہوتی ہے۔ تو کیا یہ فلمیں جنات دیکھتے ہیں؟ سلمان خان بلاوجہ شرٹ اتارے تو سب ٹھیک ہے جب ہم کریں تو ’’کریکٹر ڈھیلا ہے‘‘۔ فوٹو: فائل

ہاکی سیمی فائنل جیتنے کے بعد جس طرح بھارت نے پاکستانی کھلاڑیوں پر پابندی لگوائی اسکے بعد پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ آئندہ کے لیے پاکستانی ہاکی ٹیم پر لازم کردیا جائے کہ آپ جب بھی بھارت میں بھارت کو ہرائیں تو خوشی ہرگز نہ منائیں بلکہ غمزدہ چہروں کے ساتھ پوری بھارتی قوم سے معافی مانگیں کہ بھگوان کے واسطے ہمیں معاف کردینا ہم غلطی سے جیت گئے ورنہ ہمارا آپکو ہرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور اس جرم پر ہم خود کو تاعمر معاف نہیں کرپائیں گے۔

سولہ سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم چیمپیئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں پہنچی تھی اور کن حالات میں پہنچی تھی یہ ایک علیحدہ داستان غم ہے ۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے بتادوں کہ اس چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کے لیے پاکستانی ٹیم ’’چندہ ‘‘ مانگ کر پیسے جمع کرکے گئی تھی۔  حکومتی سطح پر کوئی خاص سرپرستی حاصل نہیں تھی اسکی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور جو چیز قومی ہوجائے اسکے ساتھ پھر ہم ایسا ’’قومی ‘‘ سلوک ہی کرتے ہیں ۔

ابتدائی 3 اہم میچوں میں شکست کے بعد لگ تو ایسا ہی رہا تھا کہ اب ٹیم ایونٹ سے باہر ہو جائے گی لیکن ٹیم نے جدوجہد اور عزم کا دامن تھامے رکھا اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔ اب اسے پاکستان کی خوش قسمتی سمجھ لیں یا بدقسمتی کہ یہاں ہمارا مقابلہ ہندوستان سے آن پڑا ۔اللہ پاک غریق رحمت کریں میرے دادا مرحوم کو وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے بھارت ’’کمینہ دشمن ‘‘ ہے لیکن میں نے دادا مرحوم کو ہمیشہ گئے وقتوں اور پرانے نظریات کا انسان سمجھ کر کبھی انکی بات پر کان نہ دھرا اور ہندوستان کو ہمیشہ بہترین ہمسایہ سمجھا ۔ لیکن بھارت کے ساتھ صرف ہاکی کے اس 60 منٹ کے کھیل نے مجھے آج بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔

آج مجھے پاکستان کی نابینا کرکٹ ٹیم کو بھارت میں تیزاب پلانے کا پچھلے سال کا واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔کھیل تو محبتوں کے فروغ کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ہارنے والی ٹیم کھلے دل سے جیتنے والی ٹیم کو مبارکباد دیتی ہے  اور اسی کو اسپورٹس مین شپ کہا جاتا ہے ۔کھیل کوئی جنگ نہیں ہوتی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے  پڑوسی  ملک کے دل میں نجانے ایسا کونسا بغض چھپا ہوا ہے جس کا اظہار ہر سطح پر سامنے آرہا ہے ۔ ہر جتنے والی ٹیم خوشی کا مظاہرہ کرتی ہے پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کا بھی بھارت سے جیتنے کے بعد خوشی کا مظاہرہ کرنا ایک فطری عمل تھا اور پاکستانی کھلاڑیوں کی اس بے قابو خوشی کے پیچھے ٹھوس وجوہات تھیں۔ مثلاً جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ پاکستانی ٹیم سولہ سال بعد سیمی فائنل جیتی تھی،  پھر ہاکی پاکستان کا قومی کھیل تھا اور جس ٹیم کو ہرایا اسی کے میدان میں یہ میچ ہورہا تھا اور پورے میچ کے دوران جس نامناسب رویے کا مظاہرہ بھارتی شائقین نے کیا تھا اُس کے بعد یہ سب فطری تھی ۔۔۔۔  ان تمام عوامل کے تناظر میں ہر کسی کو اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کا خوشی سے بے قابو ہونا،  شرٹس اتارنا ایک عام سی بات تھی  بلکہ فٹبال کے کھیل میں تو ایسا  کرنا معمول کا حصہ ہوتا ہے۔  خود بھارت کے کھلاڑی کرکٹ میچ جیتنے کے بعد جو کچھ کرتے رہے یہ سب یوٹیوب پر ویڈیوز موجود ہے ۔

لیکن ایک طرف میزبان ہوتے ہوئے بھارتی مجمع نے پاکستانی کھلاڑیوں پر بوتلیں پھینکیں انکو گالیاں دیں اور دوسری طرف پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ شہناز شیخ سے پریس کانفرنس کے دوران بھارتی صحافیوں نے اتنی بدتمیزی کی کہ انکو پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کرجانا پڑا۔ان تمام باتوں کے باوجود بھارتی میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف ہوگیا اور بھارتی نیوز چینلز پہ ایسا منظر نظر آنے لگا جیسے پاکستان ہندوستان کی جنگ چھڑ گئی ہو اور انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن سے یہ مطالبہ کیا جانے لگاکہ پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

لیکن بقول دادمرحوم بھارت ’’کمینہ دشمن‘‘کے مصداق بھارت نے پاکستانی ٹیم کے خلا ف دھمکیاں دینی شروع کردیں کہ اگر کارروائی نہ ہوئی تو پاکستان کے ساتھ آئندہ کوئی میچ نہیں کھیلا جائے گااور اس دباو کا نتیجہ یہ نکلا کہ انٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن نے پاکستان کے وہ دو کھلاڑی امجد علی اور توثیق احمد جنہوں نے پورے ایونٹ میں سب سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا انکو چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل  کھیلنے سے روک دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان جرمنی سے فائنل میچ ہار گیا ۔

پھر بھارتی میڈیا پر ایک سنہری منطق یہ پیش کی گئی کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے شرٹس اتاری جبکہ اسٹیڈیم میں ہندوستانی فیملیز بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ لیکن شاید بھارتی میڈیا  یہ بھول گیا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے صرف شرٹس ہی اتاری تھیں  ۔۔۔ اور اِس وقت اِنکی  یہ سنہری منطق کہاں جاتی ہے جب بالی وڈ فلموں میں فحاشی اپنی عروج پر ہوتی ہے اور ایسی فلمیں بھارت میں اربوں کا بزنس کرتیں ہیں ۔تو کیا یہ فلمیں جنات دیکھتے ہیں؟  یہ فلمیں بھی تو بھارتی فیملیز ہی تو  دیکھتیں ہیں تبھی تو اربوں کا بزنس ہوتا ہے ۔جناب آپکی فلموں میں سلمان خان بلاوجہ شرٹ اتارے تو سب ٹھیک ہے جبکہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی جیت کی خوشی میں اتاریں تو ’’کریکٹر ڈھیلا ہے‘‘۔

بھارت تو بقول دادا جان ’’کمینہ دشمن ‘‘ ہے لیکن یہاں پر شکوہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ شہناز شیخ اور حکومت پاکستان سے بھی ہے کہ آخر قومی کھیل ہاکی کے ساتھ لاوارثوں والا سلوک کیوں کیا جارہا ہے ؟ کیا یہ شرم کامقام نہیں ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے قومی کھیل کی ٹیم کو چندہ مانگ کر جانا پڑا ۔جب کرکٹ کے کھیل پر اتنا پیسہ لگایا جارہا ہے تو تھوڑی سی توجہ قومی کھیل پر بھی دے دی  جائے تو کیا بہتر نہ ہوگا؟ اور پھر جس طرح بھارت نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن پر دباو ڈلوا کر پاکستان کے کھلاڑیوں پر پابندی لگوائی یہ خود حکومت پاکستان کے لیے ایک افسوس ناک بات ہے ۔کیا ایسا دباو ہم نہیں ڈال سکتے تھے ؟

ڈاکٹر علامہ اقبال جو ہمارے قومی شاعر ہیں وہ ساری زندگی ہمیں ’’خودی ‘‘ کا درس دیتے رہے جبکہ ایسے لگتا ہے اقبال کی ’’خودی‘‘ والی فلاسفی پر بھارت زیادہ عمل کررہاہے جبکہ بھارت کو اسکے باپو گاندھی نے سبق دیا تھا کہ کوئی تمھارے ایک تھپٹر مارے اسکے سامنے دوسرا گال کردو جبکہ گاندھی کی اس فلاسفی پر ہم زیادہ عمل پیرا ہیں ۔بھارت ہمیں ایک تھپڑ مارتا ہے ہم اسکے سامنے دوسرا گال بھی کردیتے ہیں ۔ پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ ہاکی سے سوتیلوں والا سلوک بند کیا جائے اور ملکی حالات چاہے جو بھی ہوں پاکستان کا دنیا میں ایک وقار ہے ۔جیسی دھمکیاں اور پریشر بھارت بناتا ہے ایسا پریشر ہم بھی بنا سکتے ہیں بس ضرورت تھوڑی سی ’’خودی ‘‘ کی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔