جھوٹ پیستی چکیاں

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 16 دسمبر 2014

ہم سب خوف کے مارے ہوئے ہیں، نہ تو ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور نہ ہی اس بات پرکہ ہم اپنے خیالات خود بدل سکتے ہیں، جو کچھ بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس باقی بچ گیا ہے ہم کسی صورت بھی اسے داؤ پر لگانا نہیں چاہتے اور ساتھ ساتھ اس جھوٹ پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے، یہ ہی ہمار ا مقدر ہے۔

ترکی کے شاعر ناظم حکمت اپنی نظم میں لکھتا ہے ’’جس لمحے تم نے جنم لیا، انھوں نے تمہارے چار سو ایسی چکیاں لگا دی ہیں جو جھوٹ پیستی ہیں، ایسے جھوٹ جو تمہارے ساتھ زندگی بھر رہ سکیں۔‘‘ چاڈوک کہتا ہے ’’اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو الٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے‘‘۔

16 ویں اور سترھویں صدی میں بادشاہوں اور آمروں نے پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے کروڑوں انسانوں کو معاشی و سیاسی آزادی سے محروم کر دیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور دلیل کے دور کا آغاز ہو گیا، لوگ سماج کو بدلنے والے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے، قدامت پسند خیالات ہر جگہ شکست سے دوچار ہونے لگ گئے اور یورپ کے لوگوں نے ایک نئے انداز سے رہنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کر دیا۔ وہ یہ جان گئے کہ انسان اپنی شخصیت اور وجود کا تعمیر کندہ ہے۔ یورپ میں بسنے والے لاکھوں افراد جنہیں دھرتی کے نظر انداز بچے کہا جاتا تھا، اپنی عظمت کے لیے اکھٹے ہو گئے اور یہ ثابت کرنے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔

1848ء میں نفرتوں کا آتش فشاں پھٹ پڑا، سارا یورپ انقلابی لہر کی لپیٹ میں آ گیا، سب سے پہلے انقلاب سسلی میں پھوٹا، قابل نفرت یاریون بادشاہ فرڈینڈ دوئم جو انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں شہرت رکھتا تھا وہ اپنے تاج و تخت سے محروم کر دیے جانے کی فکر میں تھا اور بڑی عجلت کے ساتھ کئی ایک رعایتیں دینے کو تیار ہو گیا، تمام رجعت پرست وزرا کو دستبردار کر دیا گیا اور نئے آئین کا وعدہ کیا گیا۔

24,22 فروری فرانس میں انقلاب اٹھ کھڑا ہوا، ایک معمولی سا واقعہ ہزاروں مزدوروں کو سٹرکوں پر لے آیا، اس سے پہلے کہ کئی قصبوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہو جاتا، زبردست ناکہ بندی کر دی گئی۔ گیوزٹ جو اس انقلاب کو چائے کی پیالی میں انقلاب کہہ رہا تھا وہ آخرکار فرانس سے بھاگ جانے پر مجبور ہوا، وہ بھی ایک عورت کے روپ میں۔ اگلے دن لوئیس فلپ نے بھی ایسا ہی کیا، فرانس کے باغی شاہی محل توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، 13 مارچ کو ویانا کی گلیوں کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ سٹرنچ بھاگ گیا، بودا پسٹ اور پراگ میں بھی ویانا کی طرح ہوا اور جلد ہی آسٹریا کی کثیر القومیتی حکومت انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں آ گئی۔

18 مار چ کو جرمنی میں بھی انقلابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی، اس کی کامیابی دراصل کئی ایک جرمن ریاستوں میں انقلابی تحریکوں کا باعث بنی، ایک عظیم الشان انقلابی تحریک پورے اٹلی میں پھیل گئی۔ لومیارڈی میں باغی اطالیوں نے قابض آسٹریاؤں کو شکست دے دی اور مارسل راوئے زکائے کو جدوجہد کے دوران بہت شہرت حاصل ہوئی۔ آسٹریا والوں کو وینٹیا سے نکال باہر کر دیا گیا، جسے بعد میں ایک آزاد ریاست قرار دے دیا گیا۔ انگلستان میں چارٹرسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی، اسپین میں بھی انقلابی تحریک پھیل گئی، سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم میں بھی یہ ہی صورتحال تھی۔

پولینڈ والے ملک کی تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، انقلابی تحریک پورے یورپ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی، جو ناقابل نفرت سیاسی حکومتوں اور بادشاہت کے زوال کا باعث بن رہی تھی، محلات اور تحت و تاج لرز رہے تھے، طوفان کی آمد کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی، انسانیت کے دوبارہ پیدا ہونے کا نور اور حساب کتاب کا دن، نئی قوتوں نے انسانی قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، پرانی امیدیں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہو گئی تھیں اور جرأت اس دور کا پیغام تھا۔ انقلاب فرانس نے فرانس اور بعد میں یورپ کے دیگر ممالک کے معاشروں کو یکسر پلٹ کے رکھ دیا، اس نے جو زبان و نعرے دیے وہ بعد میں آنے والے تمام انقلاب میں موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے۔ آزادی، مساوات اور اخوت ان ہی تین نعروں نے غیر مراعات یافتہ اور کچلے ہوئے طبقات کو اپنی قسمت تبدیل پر اکسا یا۔

آج یہی تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت آپ کو اور مجھے اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے اور یورپ سے آنے والی آوازوں کو کیوں نہیں سن رہے ہیں؟ کیوں بہرے اور انجان بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے، کیا ہمیں اپنے آپ پر رحم نہیں آتا ہے؟ سنو یہ آوازیں ثبوت ہیں کہ ہم زندہ ہیں، مردہ نہیں۔ اگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کی تمام راحتیں، آسائشیں، مسرتیں، خوشیاں، ہم پر کیوں حرام کر دی گئی ہیں؟ اگر ہم بے گناہ ہیں تو دوزخ میں کیوں ڈال دیے گئے ہیں۔ اٹھو! آؤ! جھوٹ پیسنے کی تمام چکیاں مسمار کردیں، اپنے آنگن میں صدیوں سے جمع شدہ مسائل کے کوڑے کو آگ لگادیں۔ بادشاہ لوئی چہار دہم کہا کرتا تھا میں ریاست ہوں۔

آؤ ہم سب مل کر یہ نعرہ لگائیں کہ ہم ریاست ہیں۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں، پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ دو چار لٹیرے جنہوں نے ہمیں دوزخ میں ڈال رکھا ہے کس طرح بھاگتے ہیں۔ یہ ناجائز قابضین کس طرح آپ سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتے ہیں، جو کہتے پھرتے ہیں کہ ہم ریاست ہیں آؤ کہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھیں جہاں سکون اور اطمینان ہو، جہاں آزادی، مساوات اور اخوت ہو، جہاں ہر شخص اپنے دائرہ کار میں خوش ہو۔

جہاں اخلاقی اقدار نے اپنی جڑیں پکڑی ہوئی ہوں، جہاں کرپشن، لوٹ مار، عدم رواداری، عدم برداشت، بے ایمانی گناہ سمجھے جائیں۔ آؤ جرأت کرو، اٹھو میرے گلتے سڑتے، افلاس اور ذلتوں کے مارے ہم وطنوں ہم نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ بنانی ہے۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں‘‘ آئیں ہم بھی سوچیں، اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے ملک کے لیے، اپنی قوم کے لیے۔ آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔