مقتل میں کسی ماں کی صدا گونج رہی ہے

انوار فطرت / غلام محی الدین  بدھ 17 دسمبر 2014
وہ رستہ اب سنسان اور ویران ہو چکا، جس پر وہ اسکول جاتا اور لوٹ کر آتا تھا، فوٹو: فائل

وہ رستہ اب سنسان اور ویران ہو چکا، جس پر وہ اسکول جاتا اور لوٹ کر آتا تھا، فوٹو: فائل

اسلام آباد: ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن شور بہت تھا

آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے اس کے بیٹے کے معصوم چہرے پر ایک ملکوتی مسکراہٹ نمودار ہو رہی ہے، اس کے سرخی مائل ہونٹوں پر مَسوں کا سونا پھوٹ رہا تھا۔ بیٹے کے اس مسکراتے جمال نے اس پر بھی اثر کیا اور وہ بھی دھیمے سے مسکرایا، دل کی گہرائیوں سے اس کو درازیٔ عمر اور روشن دنوں کی دعائیں دیں اور اس کی پیشانی پر نرمی سے اپنے بوسے کا ریشم رکھ دیا۔ ماں پہلے ہی اس پر دعائے نیم شبی کا دم کرکے اسے مہکا چکی تھی۔

صبح اسے بابا نے پیار سے جگایا کہ وہ دن کا آغاز  اپنے خالق کی بندگی سے کرے۔ لڑکپنے کی نیند آسانی سے تھوڑی ٹوٹتی ہے لیکن دوسری یا تیسری آواز پر اسے اٹھنا ہی پڑا۔ ماں نے اپنے لعل کے یونیفارم کی استری تازہ کی اور اس کی گالوں پر ممتا بھرا بوسہ دے کر رخصت کیا۔

اسے معلوم ہوتا کہ یہ اس کے بچے کے رخسار پر اس کا آخری بوسہ ہے تو وہ ہرگز یہ بوسہ  نہ دیتی۔

اسے اگر کوئی بتا دیتا کہ بیٹے کی تقدیر میں ماں کے بوسوں اور  دعائوں کی تعداد بھی مقرر ہوتی ہے تو وہ ہزار للچانے کے باوجود آخری بوسہ ابدالآباد تک بچائے رکھتی، آخری بار دعا نہ دیتی۔

وہ رستہ اب سنسان اور ویران ہو چکا، جس پر وہ اسکول جاتا اور لوٹ کر آتا تھا، اب خواہ اس پر سے دونوں عالم گزرتے رہیں، اس کے لیے تو سناٹا ہی ہے۔

رات سونے سے پہلے اس نے کیا کچھ نہ تیاری کی تھی۔ استاد یہ پوچھے گا، وہ پوچھے گا، فلاں دوست سے یہ بات ہو گی، فلاں سے وہ۔ کچھ معصوم سی شرارتیں بھی  سوچ رکھی تھیں۔ سب نے اسمبلی میں ایک دوسرے سے چہلیں کیں، ہنسی ہونٹوں میں دبانے کی کوشش کی۔ پھر کلاس میں بیٹھ کر ٹیچر کے پہنچنے سے پہلے خوب خوب کھلکھلایا، قہقہے لگائے، ساتھ بیٹھے دوست کو وہ شریر خواب سنایا، جسے دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔

اسے معلوم ہی نہ تھا کہ خواب میں مسکراتا وہ اپنے ابا کو اتنا پیارا لگا تھا کہ اس نے بیٹے کو ایک بوسے کا خراج بھی پیش کیا تھا۔

پھر… اچانک تڑاخ تڑاخ ۔۔۔ ایک دم کے لیے کلاس میں سناٹا چھا گیا۔ پھر بہت سے قدموں کے دوڑنے کی آوازیں ۔۔۔ پھر ایسا لگا جیسے یہ قدم اس کی کلاس ہی کی طرف تیزی سے بڑھتے چلے آ رہے ہیں… پھر انسانوں جیسی کوئی مکروہ مخلوق دروازے سے  نمودار ہوئی… اور پھر … ڈیسک، بورڈ، کھڑکیاں، در، دروازے، فرش، دیواریں، چھت سب کچھ معصوم لہو کے گل بوٹوں سے اَٹ گیا۔

اس کی آنکھوں میں خون نے رستہ بنا لیا تو اس نے بابا کی مہربان آنکھیں دیکھیں، اس نے بابا کو پکارا،

پھر اس نے اپنی جبیں پر ماں کا بوسہ محسوس کیا تو اسے پکارا،

انہوں نے ضرور اپنے بچے کی پکار کا جواب دیا ہو گا لیکن شور بہت تھا ۔۔۔۔۔۔۔ !

ضرورت اس امر کی ہے:

رواں سال  خطبۂ حج دیتے ہوئے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے دہشت گردی کے حوالے سے کہا تھا کہ اسلام میں کسی قسم کی دہشت گردی کی گنجائش نہیں ہے، فساد پھیلانے والے اللہ کے دشمن ہیں، تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ نے بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے اس کے علاوہ امامِ کعبہ عبدالرحمٰن السدیس نے اپنے ایک خطبے میں کہا تھا کہ جو لوگ انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔

امام کعبہ نے مزید کہا تھا کہ لمحۂ موجود میں پوری دنیا انقلابات، تبدیلیوں، گروہی، علاقائی، نسلی، لسانی، مذہبی فتنوں اور ہمہ نوع خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں ہے، انسانیت کے دشمن اس فتنہ و فساد کی آگ کو مزید ہوا دے رہے ہیں، مسلم ممالک کو ایک سازش کے ساتھ دہشت گردی کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے، دہشت گردی کا ناسور حقیقی معنوں میں عالم اسلام کے لیے نہایت تباہ کن ہے، دہشت گردوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسلمان معاشروں کو کافر قرار دیتے ہیں اور معصوم لوگوں کے قتل کو مباح سمجھتے ہیں‘‘۔ اِن دونوں محترم شخصیات کے فرمودات کو عالم اسلام میں نہ صرف سراہا گیا تھا بل کہ دہشت گردی جیسے خوف ناک مسئلے کا حل بھی قرار دیا گیا تھا۔

کل پشاور میں دہشت گردوں نے معصوم بچوں کی جانوں کے ساتھ خون کی جو ہولی کھیلی ہے اگر اس کو مفتیٔ اعظم اور امامِ کعبہ کے بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ضرورت اس امر کی محسوس کی جاتی ہے کہ اِس بھیانک اور سفاک واقعہ پر ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور علماء دین کو مل کر یہ کہنا چاہیے تھا کہ اِس واقعہ میں جاں بہ حق ہونے والوں کو بغیرِ کفن و غسل شہیدوں کی طرح دفنایا جائے لیکن صد افسوس کہ کسی جانب سے اس طرح کا بیان نہیں آیا۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ان معصوم شہداء کی قبریں کسی ایک مقام پر بنائی جائیں اور اس جگہ کو کوئی مناسب نام دے کر اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے تاکہ یہ دہشت گردوں کے لیے تا ابد ندامت اور رسوائی کا استعارہ بنا رہے۔

اس واقعہ کے بعد اب ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہمیں من حیث القوم حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاک افغان بارڈر کو مکمل طور پر سیل کر دیا جائے بہ صورت دیگر اس طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے کا سرِدست کوئی اور اوپائے دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایک قومی مطالبہ ہونا چاہیے کہ آج کے بعد سارے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے فنڈز پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لیے وقف کر دیے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم کچھ تو ایسا دے جائیں،جس کی چھاؤں میں وہ بیٹھ کر اپنے اسلاف کو اچھے لفظوں میں یاد کر سکیں۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فی الوقت اپنی سیاست بازیاں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں اور قوم کو اس بے زاریت سے نکالنے کی کوشش کریں، جس میں اس ناگہاں سانحے نے ڈال دیا ہے ورنہ قوم پہلے ہی سیاست دانوں کی اکثریت سے کچھ زیادہ توقعات نہیں رکھتی۔

سیاسی رہ نماؤں کی مذمت:

وزیر اعظم نواز شریف

وزیر اعظم نواز شریف نے سانحے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ہدایت کی ’’دہشت گرد، بزدلانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سیکیوریٹی ادارے اسکول میں موجود تمام افراد کو بہ حفاظت باہر نکالا جائے اور گورنر پختون خوا سے رابطہ کرکے انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس حملے کی پر زور مذمت کی اور فوری طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کو ٹیلی فون پر احکامات دیے کہ وہ متاثرہ مقام کا دورہ کریں اور تمام صورت حال پر نظر رکھیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ اسکول پر حملہ دہشت گردوں کی سفاکانہ کارروائی ہے، بزدل دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

عمران خان نے پرویز خٹک کو زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ دہشت گرد معصوم جانوں سے کھیل رہے ہیں، بچوں کے اسکول پر حملہ سفاکانہ کارروائی ہے۔ عمران خان نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ تمام صوبائی وزراء کو بھی ریسکیو آپریشن اور بچوں کے لواحقین کو ہرطرح کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر پہنچنے کی ہدایت کی جائے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے بھی حملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، بچوں پر حملے کی اجازت کوئی مذہب یا معاشرہ نہیں دیتا۔

شمالی وزیرستان اور خیر ایجنسی میں آپریشن کے حوالے سے انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ سانحہ، آپریشن کا رد عمل ہے، یہ تنقید کا وقت نہیں بل کہ مشترکہ طور پر اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہ نما اور رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ دہشت گرد، سیکیوریٹی فورسزکی وردیاں پہن کر جب آئے تو اسکول کے سینئر طلبا کی ایک تقریب ہورہی تھی۔ شوکت یوسف زئی نے کہا کہ یہ حملہ آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہے۔ تحریک انصاف کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا کہ یہ حملہ وزیرستان میں جاری آپریشن کا ردعمل ہو سکتا ہے۔

چیئرمین سینٹ  نیئر  بخاری ‘ سپیکر  قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ  صابر بلوچ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی  مر تضیٰ جاوید عباسی نے  پشاور وارسک روڈ پر قائم اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذ مت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کے معصوم طلبا پر حملہ ملک دشمنوں کا انتہائی شرم ناک اور بزدلانہ فعل ہے، جس کی جتنی بھی مذ مت کی جائے کم ہے۔

منگل کو اپنے مذمتی بیانات میں چیئرمین سینٹ اور سپیکر  قومی اسمبلی نے  دہشت گردی کی اس کاروائی کے نتیجے میں ہونے والے انسانی جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  پوری قوم دکھ کے ان لمحات میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ  دہشت گردی کے مکمل خاتمہ تک آپریشن جاری رہے گا اور پوری قوم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے متحد ہے۔

ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

…………

سوگ کا اعلان

،مرکزی اورصوبائی حکومت نے ملک بھرمیں تین روزہ سوگ کااعلان کردیاپشاورمیں ورسک روڈپرواقع آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے معصوم قیمتی جانوں پرافسوس کااظہارکرتے ہوئے واقعے کوقومی سانحہ قراردیااورملک بھرمیں 3روزہ قومی سوگ کااعلان کردیاگیاہے واقعے کے بعدپشاورکے بازاربھی سننان نظرآئے اورپشاورکی تاجربرادری،اساتذہ ،سول سوسائٹی اوردیگرتنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتوںنے بھی تین روزہ سوگ کااعلان کردیاہے

ایشیا کی تاریخ میں اسکول پر حملے کا دوسرا بڑا واقعہ

دہشت گردوں کی سفاکیت اور بربریت کا یہ واقعہ اگرچہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑی دہشت گردی ہے لیکن عالمی تناظر میں اس قسم کی دہشت گردی کی مثال ہمیں روس کے شمالی علاقے اوسیشیا کے ایک قصبے بیسلین کے ایک اسکول سے ملتی ہے جہاں پر گیارہ سو افراد کو تین دن تک 31 دہشت گردوں نے یرغمال بنائے رکھا، جن میں 777 بچے بھی شامل تھے، تیسرے دن سیکیوریٹی فورسز نے آپریشن شروع کیا تو حملہ آوروں نے 385 افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا، جن میں 186 بچے بھی شامل تھے، آپریشن کے دوران 30 حملہ آور مارے گئے جب کہ ایک کو زندہ گرفتار کیا گیا۔

 ماضی کے واقعات

گزشتہ کئی سال سے دہشت گردوں نے نہ صرف تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانے کا سلسلہ شروع کررکھاہے بل کہ ساتھ ہی ان تعلیمی اداروں میں علم کی روشنی حاصل کرنے والے پروانوں کوبھی معاف نہیں کیا۔ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں 5 جنوری 2014 کی صبح جب ابراہیم زئی میں قائم گورنمنٹ اسکول فار بوائز میں اسکول اسمبلی کے لیے طلبا کھڑے تھے کہ ایک خود کش بمبار آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک طالبِ علم بچے اعتزاز احسن نے اسے دوڑ کر دبوچنے کی کوشش کی لیکن اسی اثنا میں بدبخت نے دھماکا کردیا اور اس طرح اعتزاز رتبۂ شہادت پر فائز ہوا جب کہ خود کش ہلاک ہوگیا۔

جرأت کے پیکر اس بچے نے اپنے سیکڑوں دوستوںکی جانیں بچا لیں۔ اسی طرح 1987 میں پشاور کے علاقے کوہاٹ روڈ گڑھی قمر دین میں ایک پرائمری اسکول کو بارود سے اڑادیا گیا، جس میں لاتعداد بچے شہید ہوگئے تھے۔ 20 فروری1994 کوتین افغان ہائی جیکرز پشاور ماڈل اسکول کی بس کو اسلام آباد میںافغان ایمبیسی کی طرف لے گئے۔ اس میں 55 طالب علم اور چھے خواتین اساتذہ تھیں۔ ان دہشت گردوں کو آخرکار کمانڈو ایکشن کے ذریعے ہلاک کرکے یرغمالیوں کو بہ حفاظت بازیاب کرایا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا ’’شہید پیکج‘‘ کا اعلان:

تین روزہ سوگ کا اعلان، نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند رہیں گے

خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پشاور ورسک روڈ پر ہائی سیکورٹی زون میں واقع سکول پر دہشت گردوں کے منظم حملے اور سیکڑوں معصوم بچوں کو خون میں نہلانے کے دل خراش اور انسانیت سوز واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے اس صدی کا انتہائی وحشیانہ اور انسانیت دشمن اقدام قراردیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ کسی منتشر گروہ کاکام نہیں ہو سکتا بل کہ اس میں کوئی منظم بیرونی قوت ملوث ہے۔

وزیراعلیٰ نے شہید پیکج کے تحت شہید بچوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمی بچوں کے لیے دو دو لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ انہوں نے صوبے میں تین دن کے لیے سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان بھی کیا ہے جس کے دوران صوبے میں تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ انہوں نے صوبائی کابینہ، ارکان اسمبلی اور پی ٹی آئی کے راہ نمائوں اور کارکنوں کو اسپتالوں میں پہنچ کر زخمی بچوں اور اساتذہ کے لیے خون کے عطیات دینے کی بھی ہدایت کی اور واضح کیا کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال اور سی ایم ایچ میں مسلسل او نیگٹیو خون کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، اس لیے او نیگٹیو خون والے کارکن اور شہری خون کا عطیہ دے کر معصوم بچوں کی جان بچانے کا فرض ادا کریں۔

اسی طرح وہ اپنے متعلقہ علاقوں میں متاثرین کے پاس بھی جائیں اور ان کی ہر طرح مدد اور دل جوئی کریں۔ پرویز خٹک نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی اپنی تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کردیں اور فوری طور پر متعلقہ پولیس اور آرمی حکام سے رابطوں کے علاوہ لیڈی ریڈنگ اسپتال اور سی ایم ایچ جا کر زخمی بچوں کی عیادت کی اور ان کے ورثا سے ہم دردی اور یک جہتی کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ نے پولیس فورس اور محکمہ صحت کو ریڈالرٹ کی ہد ایت کی۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر، سینئر وزیر صحت شہرام خان ترکئی، صوبائی وزرا مشتاق احمد غنی، محمد عاطف خان اور دیگر عوامی نمائندے اور اعلیٰ حکام بھی ان کے ہم راہ تھے۔

بچوں کے والدین، ورثا اورصحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی مذہب اور معاشرہ معصو م بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا، بالخصوص اسلام میں دہشت گردی کا کوئی تصور نہیں بل کہ اسلام اور دہشت گردی، اورانتہا پسندی سے گریز اور امن وسلامتی اور صلح جوئی کا درس دیتا ہے انہوں نے واضح کیا کہ ایسے دہشت گرد عناصر سفاک ہیں اور ان کے نیٹ ورک کوبے نقاب اور دہشت گردی کی جڑوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے قومی سطح پر ٹھوس اقدامات اور واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعلیٰ اپیل کے جواب میں پشاور یونی ورسٹی سمیت مختلف تعلیمی اداروں کے نوجوان طلبا فوری اسپتال پہنچنا شروع ہوئے اور خون کے عطیات دیے حتیٰ کہ او نیگیٹو خون کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا جب کہ اسپتالوں میں طلبا اور نوجوانوں کی آمد اور خون کے عطیات دینے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، جس پر پرویز خٹک نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم عظیم قوم ہے، دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیاں رنگ لائیں گی خطے میں امن اورایک تاب ناک مستقبل ہمارے نوجوانوں کا منتظر ہے۔

وہ کہتے ’’کلمہ پڑھو‘‘ اور ٹریگر دبا دیتے

اپنے بڑوں سے، اساتذہ اور علما حضرات سے یہی سنا تھا کہ ایک دن قیامت برپا ہو گی، سب کچھ فنا ہو جائے گا، نیست و نابود ہو جائے گا، تویہ سنتے ہی ہم لرزہ بر اندام ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسا منظر ہو گا، کیسی حالت ہوگی، اس روز کیا ہو گا اور یہ کب ہو گا؟ آنکھوں سے آنسو برساتا  ایک ننھا فرشتہ کاشان کہ رہا تھا ’’وہ قیامت ہم آج ٹوٹ پڑی۔

کاشان کے مطابق سب کچھ ٹھیک تھا، معمول کے مطابق آج صبح بھی ماما نے جگا کر کہا کہ بیٹا جلدی اٹھو اسکول کو دیر نہ ہو جائے، اٹھ کر دیکھا تو آج کی صبح دیگر کے مقابل بہت بھاری لگی، دل میں کچھ کھٹکا بھی تھا کہ آج چھٹی کیوں نہ کر لی جائے، آج صبح مجھے سردی بہت محسوس ہو رہی تھی، دھند بھی گہری تھی لیکن ماما نہیں مانیں، کہنے لگییں کہ بیٹا یہ دھند تو چند لمحے کی مہمان ہے، سورج کی کرنیں اس کو بھگا دیں گی، تم اٹھ پڑو۔ اسکول پہنچ کر ہم بہت خوش ہوئے کیوں کہ آج سر کے لکچر کے بجائے آڈیٹوریم میں فرسٹ ایڈ کے حوالے سے ورکشاپ تھی جس کا ہمیں کئی دنوں سے انتظارتھا، وہ اس لیے بھی کہ ہم چھوٹی موٹی چوٹوں اور حادثات کی صورت میں خود مرہم پٹی کے قابل ہوجائیں گے۔

ابھی ڈاکٹر صاحب نے فرسٹ ایڈ کے حوالے سے ابتدائی کلمات ہی ادا کیے تھے کہ باہرسے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں، ایک آن میں دھڑام سے دروازے کولاتیں مارتے ہوئے چند لوگ اسلحہ لے کر داخل ہوئے اور ہم پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گرد ایک ایک طالب علم کو مخاطب کر کے کہتے کہ کلمہ پڑھو اور اسے مار دیتے، میرے دس ہم جماعت میری آنکھوں کے سامنے شہید کیے گئے اور میں زخمی حالت میں بچ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔